تبادلۂ خیال:خارج از اسلام

اس تعریف (ایسے افراد کا گروہ جو اپنے ظاہر سے اسلام کا سچا پیروکار نظر آتا ہے لیکن در اصل خود ساختہ عقائد کی بنیاد پر ابتدائے اسلام سے ہی ہر اسلامی صحیح نظام اور رہبر کے جہاد کے نعرے لگاکر مسلمانوں کو اندرونی انتشار و کمزوری کا شکار کرتے رہے ہیں۔ طالبان انہیں کی ایک قسم ہے) میں ابہام ہے، کیا آپ طالبان کو کافر ثابت کر رہے ہیں؟ آپ نے جس کتاب کا نام حولہ میں درج کیا ہے وہ کتاب شعیہ کے خلاف ہے اور طالبان خود شعیہ کے خلاف ہیں۔ خارج از اسلام کوئی اصطلاح نہیں ہے، مشرک،کافر، مرتد، منافق، خوارج جیسے الفاظ اصطلاح ہیں۔ کافر یا خارج از اسلام گروہ یا فرد کو کہا جائے گا جو کسی بھی ایک اسلامی عقیدے کا منکر ہو، جیسے کسی نبی یا رسول، فرشتوں یا جنات، جنت یا دوزخ، ختم نبوت کاانکار یا تحریف قرآن کا اقرار کرنے والا، اسی طرح جس چیز کو قرآن میں حرام قطعی کہا گیا اس کو جو حلال ٹھہراۓ ان کو خارج از اسلام کہا جا‌ۓ گا۔--Obaid Raza (تبادلۂ خیالشراکتیں) 08:45, 12 مئی 2014 (م ع و)

’’خوارج‘‘ دین اِسلام کے باغی اور سرکش تھے۔ ان کی اِبتداء عہد رسالت مآب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں ہی ہوگئی تھی۔ ان کی فکری تشکیل دورِ عثمانی رضی اللہ عنہ میں اور منظم و مسلح ظہور دورِ علوی رضی اللہ عنہ میں ہوا۔ اِن خوارج کے اَعمال و عبادات اور ظاہراً پابندیِ شریعت ایسی تھی کہ وہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سے بھی بعض اوقات زیادہ عابد و زاہد محسوس ہوتے لیکن حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے واضح فرمان کے مطابق وہ اسلام سے کلیتاً خارج تھے۔ خوارج مسلمانوں کے قتل کو جائز سمجھتے، ان کی رائے اور نظریہ سے اتفاق نہ کرنے کے باعث صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی بھی تکفیر کرتے، نعرہ اِسلامی ’’لَا حُکْمَ إِلاَِّﷲ‘‘ بلند کرتے اور خلیفہ راشد سیدنا علی المرتضی کرم اللہ وجہہ الکریم کے خلاف مسلح خروج، بغاوت اور قتال کو نہ صرف جائز سمجھتے بلکہ عملاً اس کے ضمن میں قتل و غارت گری کرتے رہے۔ یہی خوارج درحقیقت تاریخِ اسلام میں سب سے پہلا دہشت گرد اور نظمِ ریاست کے خلاف باغی گروہ تھا۔ نصوصِ حدیث سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ ان کا ظہور ہر دور میں ہوتا رہے گا۔ گویا خوارج سے مراد فقط وہی ایک طبقہ نہیں تھا جو خلافت راشدہ کے خلاف نکلا بلکہ ایسی ہی صفات، نظریات اور دہشت گردانہ طرزِ عمل کے حامل وہ تمام گروہ اور طبقات ہوں گے جو قیامت تک اسی انداز سے نکلتے رہیں گے اور مسلح دہشت گردانہ کارروائیاں جہاد کے نام پر کریں گے۔ یہ شرعی اعمال کی بدرجہ اَتم ظاہری بجا آوری کے باوجود فکر و نظر کی اِس خرابی کے سبب اسلام سے خارج تصور ہوں گے۔ فرامین رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی روشنی میں ایسے لوگوں کو مذاکرات کے نام پر مہلت دینا یا اُن کے مکمل خاتمے کے بغیر چھوڑ دینا اسلامی ریاست کے لیے روا نہیں، سوائے اِس کے کہ وہ خود ہتھیار پھینک کر اپنے غلط عقائد و نظریات سے مکمل طور پر توبہ کرکے اپنی اِصلاح کرلیں۔

انہیں کو خارج از اسلام بھی کہا جاتا ہے۔--اسپریچولسٹ (گفتگو) 11:03, 13 مئی 2014 (م ع و)

واپس "خارج از اسلام" پر