تبادلۂ خیال:دیدار الہٰی
اہل تشیع اور انکار رؤيت خدا
ترمیمشیخ صدوق لکھتے ہیں: ”توحید کے بارے میں ہمارا عقیدہ یہ ہے کہ اللہ تعالٰی واحد و یکتا ہے۔ کوئی چیز اس کی مثل و مانند نہیں۔ ہمیشہ سے ہے اور ہمیشہ رہے گا۔ سنتا ہے۔ (ہر آواز کا علم رکھتا ہے)۔ دیکھتا ہے (دکھائی جانے والی چیزوں کا علم رکھتا ہے)۔ ہر شے سے باخبر ہے۔ وہ ایسی ذات ہے کہ اس کا کوئی کام حکمت سے خالی نہیں ہے۔ زندہ ہے اور اسے زوال نہیں ہے۔ غالب ہے۔ منزہ ہے۔ سب چیزوں کا علم رکھتا ہے۔ ہر شے پر قدرت رکھتا ہے۔ بے نیاز ہے۔ اس کی پاک ذات ایسی ہے کہ اسے جوہر، عرض، جسم، صورت، خط، سطح، ثقل، خفت، حرکت، سکون، مکان، اور زمان جیسی صفات سے متصف نہیں کیا جا سکتا۔ کیونکہ یہ سب مادی صفات ہیں اور وہ اپنی مخلوقات کی تمام صفات سے منزہ اور مبری ہے۔ نہ وہ ایسی ذات ہے جس سے فضل و کمال کی نفی کی جائے اور نہ ہی اس کے کمال کو مخلوق کے کسی کمال سے مشابہ قرار دیا جا سکتا ہے۔ وہ موجود ہے، لیکن دیگر موجودات کی طرح نہیں ہے۔ وہ یکتا ہے۔ بے نیاز ہے۔ نہ اس سے کوئی پیدا ہوا کہ جسے وارث بنایا جائے اور نہ وہ خود کسی سے پیدا ہوا کہ اس کی صفات یا ذات میں شریک قرار پائے۔ اس کا کوئی ہمسر نہیں۔ اس کی کوئی نظیر نہیں ہے۔ کوئی ضد نہیں ہے۔ کوئی شبیہ نہیں ہے۔ کوئی شریک حیات نہیں ہے۔ کوئی مثل و نظیر نہیں ہے اور نہ ہی اس کا کوئی مشیر کار ہے۔ وہ ایسا لطیف و خبیر ہے کہ آنکھیں اسے نہیں دیکھ سکتیں، وہ آنکھوں کے حال سے باخبر ہے۔ انسانی وہم و خیال اس کا احاطہ نہیں کر سکتے، جبکہ وہ انسانی وہم و خیال کا احاطہ رکھتا ہے۔ اسے اونگھ آتی ہے نہ نیند۔ ہر شے کا خالق وہی ہے۔ اس کے سوا کوئی معبود نہیں۔ خلق اور حکمرانی کرنا اسی کا حق ہے۔ بابرکت ہے وہ ذات جو تمام جہانوں کا رب ہے۔ جو اللہ تعالیٰ کو مخلوق جیسا سمجھے وہ مشرک ہے اور جو شخص توحید کے باب میں سابق الذکر عقیدے کے علاوہ کسی عقیدے کو شیعوں کی طرف منسوب کرے، وہ جھوٹا ہے۔“[1]
علامہ باقر مجلسی لکھتے ہیں:
”خدا کو ان ظاہری آنکھوں سے دنیا و آخرت میں دیکھنا محال ہے اور اس سلسلہ میں جو بعض (متشابہ آیات و روایات) وارد ہیں ان کی تاویل کی گئی ہے۔ خدائے تعالیٰ کی ذات و صفات کی حقیقت واقعیہ تک انسانی عقل و خرد کی رسائی ممکن نہیں ہے۔“[2]