تبادلۂ خیال:سید آل عمران

پوٹھوہاری ناں خاطردار ـــــــــــــــــــــــــــــــــــ (21 فروری ما بولی نے عالمی دیہاڑے پوٹھوہاری نے خاطر دار سید آل عمران ہوراں ناں تذکرہ / حبیب گوہر)

پو ٹھوہار صدیوں سفاک حملہ آوروں کی گزرگاہ رہا ہے۔ یہاں زبان و ادب کی شاخ کبھی ہری بھی ہوئی تو ہاتھیوں نے اسے کچل دیا۔ اس لیے پورس مثال پوٹھوہار میں کسی خداداد خان کا وکٹوریہ کراس، محفوظ شہید کا نشان حیدراورعامر خان کا پنچ ـــــ باعثِ اعزاز تو ہے، وجہ حیرت نہیں۔

سپہ گروں کے اس فولادی گڑھ میں کچھ گلاب ہمیشہ پرورش پاتے رہے ہیں۔ سید آل عمران بھی اسی حلقے سے ہیں جس کے نشینوں کا لہجہ ریشم کی طرح نرم ہے۔ اس مٹی کے لوک کلچراور زبان کی ترویج میں ان کی زبان اورقلم ہمیشہ پیش پیش رہے ہیں۔ ریڈیو، ٹی وی چینلز، اخبارات، رسائل اور کتب ؛ کوئی میڈیم ایسا نہیں جہاں ان کی آواز اور تحریر کا جادو سر چڑھ کر نہ بولا ہو۔

سید آل عمران کو سن کر اردو کے شاہکار افسانہ نگار سعادت حسن منٹو کی یہ بات یاد آتی ہے کہ پوٹھوہاری کی مثال ایسے ہی ہے جیسے کوئی آم کی گٹھلی چوس رہا ہو۔ وہ شیریں دھن ہی نہیں جوہر شناس بھی ہیں۔ پوٹھوہار کے شہروں، ڈھوکوں، کھنڈروں اور ویرانوں میں جوہرِ قابل کی تلاش میں جاتے ہیں اور ان کی آواز اور فن کو دنیا تک پہنچاتے ہیں۔

گجر خان بجا طور پر پوٹھوہار کا دل ہے۔ پوٹھوہاری زبان و ادب کے زیادہ تر محسنوں کا تعلق یہیں سے ہے۔ سید آلِ عمران کو اگر اس دل کی دھڑکن کہا جائے تو غلط نہ ہو گا۔ اب یہ دھڑکن کا اعجاز ہے کہ دو دھائیوں سے تمام گلوبل ویلج میں گونج رہی ہے۔

لفظ جب آل عمران کی زبان سے ادا ہوتا ہے تو یہ مصری کا مزہ دیتا ہے۔ پوٹھوہار کے کوہستانوں کی طرف بڑھیں تو مصری میں نمک کی آمیزش بتدریج بڑھنے لگتی ہے۔ اسے کھارے پن سے بچانے کے لیے پوٹھوہاری شعرا کے ساتھ ساتھ آل عمران نے کلیدی کردار ادا کیا ہے۔

جناب اختر امام رضوی نے راول رویل سے پوٹھوہاری زبان و ثقافت کا جو دیا روشن کیا تھا۔ سید آلِ عمران اس سے شمعیں جلاتے چلے گئے۔ وسناں پوٹھوہار، ککراں نی چھاں، دھرتی نے تارے، ڈھوک، جی کراںــــــــ اتنی شمعیں جلیں کہ گلوبل ویلج جگمگا اٹھا۔

ملکی سالمیت کے استعارے کہوٹہ سے سید آل عمران کو خاص عقیدت رہی۔ پوٹھوہار کے ترقی یافتہ علاقوں کی طرح کہوٹہ کے لیے بھی ان کا دل ہمیشہ کشادہ رہا۔ قلعہ پھروالہ، دربارسخی سبزواری، حویلی سردارنتھا خان سلٹھ میں پرگراموں کی جدید ترین ٹیکنالوجی سے ریکارڈنگ ہی نہیں۔۔۔ شادیوں، عرسوں، میلوں، مشاعروں، شعر خوانی کی محفلوں کی رونقیں بھی بڑھاتے رہے۔ اس کے علاوہ بہت سی شخصیات مثلاً سلطان ظہور اختر، جاوید احمد، ڈاکٹر محمد عارف قریشی، راجہ محمد اجمل، انعام الحق عباسی، اصغر کیانی ــــــــــ اور دیگر درجنوں کو اپنے پروگراموں کی زینت بناتے رہے ہیں۔

زبان کی ایک بہت بڑی خدمت یہ ہے کہ اس کے دامن میں کوئی نیا ہیرا ڈال دیا جائے۔ کروڑوں میں کوئی ایک آدھ ہوتا ہے جس کو یہ کمال نصیب ہوتا ہے۔ سید آل عمران نے نہ صرف پوٹھوہاری کی نئی لفظیات وضع کیں بلکہ انھیں اس کمال سے برتا ہے کہ خود پوٹھوہاری وجد میں آ گئی۔ دھرتی کا تہذیبی رکھ رکھاؤ پوری آب و تاب کے ساتھ ان الفاظ میں جھلکتا ہے۔ آل عمران لفظ نگینہ بنانے کا ہنر جانتے ہیں۔ نہ صرف ان میں پوٹھوہار کے سنگریزوں کی منشوری آب و تاب جھلکتی ہے بلکہ یہ سماعتوں میں شہد گھول دیتے ہیں۔

حسن ابدال کے ریڈیو سٹیشن کا منیجر ہو، کسی جی کراں کا خاطر دار ہو، سدھر کا شاعر ہو، مودت کا عقیدت گزار ہو، تارا تارا لو کا مولف ہو، لغت کا محقق ہو، سرگ کا مرتب ہو یا کسی مجلس کا نقیب؛ اس کی آواز، انداز، ادا، لباس، تاثراور اسلوب میں ــــــ حسن ہی حسن سراپا ہے جہاں تک دیکھو!

جس طرح ماں بولی کی محبت میں سید آلِ عمران نے دھرتی ماں کا کونا کونا چوما ہے اسی طرح انہوں نے اپنی ذات کی پہنائیوں میں دور تک سفر کیا ہے۔ پھٹ ناں پھرول اور سدھر کے آل عمران ایک مشاق اور تازہ کار شاعر کے طور پر ابھرے ہیں اور انہوں نے پوٹھوہاری شاعری کو نئی جہتوں سے آشنا کیا ہے۔

پھٹ نہ پھرول سائیاں دلے نیاں آہلیاں چوں سوچاں نی دیویاں نی لوئی کی ناں مار پھونکاں

سید آل عمران صرف خاطر دار ہی نہیں بلکہ ایک ہمہ جہت شخصیت ہیں۔ ماں بولی کے عالمی دن کے موقعے پر کہوٹہ کے تناظر میں یہ ایک ہلکا سا خاکہ ہے۔ ان کا تمام کام کتاب کا تقاضا کرتا ہے۔ اگر ان لوگوں کی فہرست ہی مرتب کی جائے جنہیں انہوں نے متعارف کروایا تو کئی صفحات درکار ہوں گے۔ انسانی خدمت کا یہ وصف انہیں وراثت میں ملا ہے۔ ان کے پردادا صوبیدار سید ولایت حسین نقوی گاوں سے شہر آتے تو گاوں والوں کے سودا سلف کی چٹیں آٹھا لاتے۔ واپسی پر گھر گھر سامان دیتے جاتے۔ فیض رسانی کا یہ سلسلہ آلِ عمران نے پورے پوٹھوہار اور میڈیا کے ذریعے گلوبل ویلج تک پھیلا دیا ہے۔

سید آل عمران سے متعلق گفتگو کا آغاز کریں

گفتگو شروع کریں
واپس "سید آل عمران" پر