تبادلۂ خیال:شاہ عنایت اللہ

مزید معلومات

ترمیم

صوفی شاہ عنایت نے مخدوم صدو لانگاہ کے گھر میں 1653 میں جنم لیا۔ حیدرآباد دکن (بیجاپور) کے مشہور عالم و بزرگ عبدالمالک کے پاس علم حاصل کیا اور تصوف کا طریقہ اختیار کیا۔

جب وہ سندھ (جھوک نزد ٹھٹھ) واپس لوٹے تو طبقاتی لوٹ مار، جاگیرداروں، پیروں اور میروں کی ناانصافیاں دیکھ کر، اپنے آبائی شہر میں ایک ایسے سماج کی داغ بیل ڈالی جس میں انسانیت کے حقوق کو تحفظ تھا، جہاں محنت سے بہائے گئے پسینے کی قدر تھی، جہاں انسان کی عزت نفس کو غرور کے پاؤں تلے روندا نہیں جاتا تھا۔ یہاں ذات پات و مذہب کی کوئی لکیر نہیں تھی۔

یہاں کے لوگ چاہے مرشد ہوں یا مرید، مالک ہوں یا ہاری، سب مل کر زمین میں ہل چلاتے تھے۔ آمدنی و پیداوار میں سب کا برابر کا حق تھا۔ صوفی شاہ عنایت اس اجتماعی اقتصادی نظام کے رہبر تھے۔ زمین یہ نہیں دیکھتی کہ ہل چلانے والا کون ہے، وہ نہ رنگ دیکھتی ہے اور نہ ذات پوچھتی ہے۔ جس طرح ماں کے لیے سارے بچے ایک جیسے ہیں، اسی طرح زمین کے لیے بھی سارے انسان ایک جیسے ہیں، اور زمین پر سب انسانوں کا مشترکہ حق ہے۔ یہ تھے صوفی شاہ عنایت کے خیالات۔ ان کی اس فکر کو دیکھ کر لوگ ان سے متاثر ہوئے اور اس نظام میں شرکت کے لیے آتے گئے، اور یوں جھوک کو جنوبی سندھ میں ایک مرکزی حیثیت حاصل ہونے لگی۔

صوفی شاہ عنایت اس استحصالی نظام کے خلاف تھے۔ چنانچہ انہوں نے استحصال پر صرف جلنے کڑھنے اور اس سے زیادہ کچھ نہ کرنے کے بجائے 'جو کيڙي سو کائي' (جو اگائے، وہی کھائے) کا نعرہ بلند کیا، مارکس سے بھی تقریباً 150 سال قبل، اور یوں وہ سندھ کی پہلی شخصیت تھے جنہیں آپ جدید الفاظ میں 'سوشلسٹ' کہہ سکتے ہیں۔

یہ بات مقامی جاگیرداروں کو بری لگنی ہی تھی۔ صوفی کی اس خانقاہ پر پہلا حملہ تب ہوا جب ٹھٹھہ کا ناظم 'لطف علی' تھا۔ اس حملے میں خانقاہ کے بہت سارے درویش ہلاک ہوئے۔ ان بے گناہوں کے ورثاء نے جب استغاثہ کیا تو حکومت کی جانب سے قاتلوں کی زمینیں مقتولوں کے ورثا کو دلا دی گئیں۔

1716ء میں لطف علی خان کی جگہ نواب اعظم خان ٹھٹھہ کا ناظم ہو کر آیا، جس کو تاریخ نے کبھی اچھے الفاظ سے یاد نہیں کیا۔ وہ شاہ عنایت کے دشمنوں کی باتوں سے متاثر ہو کر ان سے مل گیا، اور اس نے صوفی شاہ عنایت کی مخالفت میں خانقاہ سے متصل زمینوں، جن کے محصول معاف ہو چکے تھے، پر دوبارہ محصول لگا دیا۔

اعظم خان نے اپنی فوج کے علاوہ یار محمد خان کلہوڑو اور دوسرے رئیسوں کے نام احکام جاری کیے کہ وہ بھی مدد کے طور پر اس فوج میں شامل ہوں۔

یہ 12 اکتوبر 1717ء، منگل کا دن تھا جب جھوک کا گھیراؤ شروع ہوا۔ مقامی جاگیرداروں اور حکومت کی ساری طاقتیں ایک طرف یکجا تھیں، اور سامنے جھوک شریف کے صوفی فقیر تھے جن کے پاس کلہاڑیاں، بھالے اور خنجر تھے۔ وہ رات کو دشمنوں کی فوج پر شب خون مارتے تھے اور کامیاب بھی ہوتے تھے۔ تین ماہ گذر گئے پر جھوک کے فقیروں کو اتنی بڑی فوج شکست نہ دے سکی۔

تاریخ کے اوراق پر تحریر ہے کہ جنگ کے خاتمے کی کوئی صورت نہ دیکھ کر ایک سازشی حربہ استعمال کیا گیا، جس کا مرکزی کردار 'میر شہداد خان تالپور' تھا جو میاں یار محمد کلہوڑو کا انتہائی وفادار تھا۔ وہ اپنے ساتھ قرآن شریف اور امن کے سفید جھںڈے لے کر شاہ عنایت سے ملا اور کہا کہ "میں آپ کو یقین دلاتا ہوں کہ ناظمِ ٹھٹھہ، شمالی سندھ کے حکمران اور مغل حکومت یہ جنگ نہیں چاہتی۔ کچھ لوگوں نے حکومت کو غلط رپورٹیں بھیجی تھیں جن کی وجہ سے غلط فہمیوں نے جنم لیا، مگر اب یہ غلط فہمیاں دور ہو گئی ہیں۔ اب آپ چل کر آمنے سامنے مذاکرات کریں تاکہ یہ جنگ ختم ہو سکے اور مزید انسانی خون بہنے سے روکا جا سکے۔"

یہ ایک ایسی سازش تھی جس کو میٹھی زبان میں چھپا دیا گیا تھا۔ صلح کی باتوں میں یہ تھا کہ درویشوں کے جان و مال کو نقصان نہیں پہنچایا جائے گا۔ یہ سرد جنوری کی پہلی تاریخ تھی اور ہفتے کا دن تھا۔

صوفی شاہ عنایت، اعظم خان کے پاس پہنچے تو معلوم ہوا کہ یہ صلح نامہ ایک دھوکہ تھا۔ شاہ عنایت کو گرفتار کرلیا گیا۔ جس طرح سرمد کاشانی کو راستے سے تو ہر حال میں ہٹانا تھا، مگر جھوٹے الزامات کا سہارا لے کر، اسی طرح یہاں بھی الزامات لگائے گئے۔ وہاں بھی مغل دربار تھا اور یہاں بھی مغل دربار ہی تھا، فرق فقط وقت کا ہوا کہ جب سرمد کا 1661 میں سر قلم کیا گیا، تب صوفی شاہ عنایت 8 برس کے تھے۔

8 جنوری 1718 بھی ہفتے دن تھا جب جاڑے ایک کی سرد شام کے وقت شاہ عنایت کو قتل کردیا گیا۔ جھوک کی خانقاہ پر حملہ ہوا جہاں ایک اندازے کے مطابق 24 ہزار صوفیوں کو قتل کیا گیا۔

جابر حکمرانوں کے ہاتھوں شاہ عنایت قتل ہوئے، ان کی خانقاہ اجاڑی گئی، ان کے پیغام کو دبانے کی کوشش کی گئی تاکہ جاگیرداری خطرے میں نہ پڑے، مگر تاریخ ایسی چیز ہے جو خود ہی انصاف کر ڈالتی ہے۔ شاہ عنایت آج بھی سندھ کے پسے ہوئے طبقوں کے لیے رول ماڈل ہیں، مگر شہداد خان تالپور، اعظم خان اور سازش میں شامل دیگر لوگوں کا کوئی نام و نشان نہیں۔ ابوبکر شیخ کے ڈان میں ایک ارتیکل سے اقتباسات

  • شاہ عنایت کی شہادت کے بعد جو اس کے فالوور تھے ان کے سر کی قیمت ایک ٹکہ رکھی گئی, جس کسی شخص کو گیڑو لباس "اورینج کلر کا جو صوفی پہنتے ہیں" دکھنے میں آتا اس کے سر جات کر انعام وصول کیا جاتا تھا, سپاہی انعام کی خاطر غریبوں کو جو بچارے اپنے گھروں میں بیٹھے ہوتے یا کھیتوں میں کام کرتے نظر آتے تھے انہیں گیڑو لباس پہنا کر مار دیتے تھے۔

--امین اکبر (تبادلۂ خیالشراکتیں) 16:56، 29 اپریل 2020ء (م ع و)

واپس "شاہ عنایت اللہ" پر