تبادلۂ خیال:غلام محمد بنات والا

منتقلی مواد

ترمیم

آزادی کے بعد ممبئی میں جو مسلم قیادت ابھری، اس میں غلام محمود بنات والا ایک نمایاں نام ہے ۔ غلام محمود بنات والا کے بارے میں ایک خاص بات کہی جاسکتی ہے کہ انہوں نے مسلم لیگ سے اپنا سیاسی سفر شروع کیا اور آخری سانس تک مسلم لیگ سے وابستہ رہے ، اس لئے اگر غلام محمود بنات والا نے ــ’’ مسلم لیگ : آزادی کے بعد ‘‘ کے عنوان سے ایک کتاب لکھی ہے ، (یہ کتاب مالیگاؤں کے ایک پرانے مسلم لیگی رہنما جناب سمیع اللہ انصاری نے حال ہی میں شایع کی ہے اور یہ اس کتاب کا تیسرا ایڈیشن ہے ) ، یہ کتاب نہ صرف مسلم لیگ بلکہ غلام محمود بنات والاکے تعارف اور کارکردگی کو قریب سے جاننے کیلئے ایک اہم دستاویز ہے ۔ مسلم لیگی رہنما غلام محمود بنات والا فن تقریر کے ماہر تھے ، اور ان کی تقریر سننے کیلئے ہزاروں کا مجمع رات دیر گئے تک جلسوں میں ان کا انتظار کیا کرتا تھا ۔ آج بھی وہ لوگ موجود ہیں جنہوں نے غلام محمود بنات والا کی سامعین کو جھنجھوڑ کر رکھ دینے والی تقاریر سنی ، اور ان کی یاداشت میں وہ لمحات محفوظ ہیں ۔ جناب غلام محمود بنات والاکے بارے میں ایک بات یہ مشہور تھی ، کہ وہ انتہائی بہادر قائدہیں ، ان کی بہادری اور جان پر کھیل کر میدان عمل میں اترنے کی عادت کے متعلق ایک واقعہ بہت ہی مشہور تھا ، مولانا شوکت علی روڈ، دوٹانکی کے قریب گونداکے جلوس کے دوران ایک فرقہ وارانہ فساد بپا ہوگیا ، اس دوران کچھ پولس والے مسلمانوں پر فائرنگ کیلئے بضد ہورہے تھے لیکن جناب غلام محمود بنات والا نے موقعہ پر پہنچ کر فرقہ پرست اور متعصب پولس والوں کی بندوق پکڑ لی اور انہیں فائرنگ سے روک دیا ، اس کی وجہ سے مسلمانوں کا قتل عام رک گیا، ورنہ کئی مسلم نوجوان پولس فائرنگ میں مارے جاتے ۔ اس واقعہ نے اس زمانہ میں جناب غلام محمود بنات والا کو صرف ممبئی ہی نہیں بلکہ پورے مہاراشٹر میں مسلمانوں کا مقبول ترین لیڈر بنا دیا ۔ ان کی اس بہادری کے قصہ مقررین بیان کرتے رہے ۔ البتہ اس کتاب میں مصنف جناب غلام محمود بنات والا نے بھی اس اہم و مشہور واقعہ کا ذکر کیا ،جو حسب ذیل ہے ؛ ـ’’۲۴ ؍اگست ۱۹۷۰ ء اشٹمی کا دن تھا ۔ مولانا شوکت علی روڈ پر ( نوٹ : کاف پیراڈائز کے پاس ، دوٹانکی کے قریب ) ممبئی پر ایک بلوہ ہوگیا ۔ لیکن مسلم لیگی رہنما بروقت پہنچ گئے اور انہوں نے جان پر کھیل کر ممبئی کو ایک خون آشام فساد سے بچا لیا ۔ جناب محمد حسین پٹیل کی جانب سے ہنگامہ کی اطلاع ملتے ہی میں ان کے ہمراہ موقعہ واردات پر پہنچ گیا ۔ایک طرف عوام میں پولس کے مبینہ رویہ کے خلاف زبردست جوش و خروش تھا ۔ دوسری طرف پولس نے فائرنگ شروع کردی تھی ۔جناب محمد حسین پٹیل کے ہمراہ میں پولس کی طرف بڑھا ۔افسران کے قریب پہنچ کر ان کو فائرنگ سے باز رکھنے کی کوشش کی ۔اور ہجوم کو سنبھالا ۔ ہر طرف سے مسلم لیگی کارکن پہنچ گئے ۔اور بروقت مداخلت نے ایک امڈتے ہوئے خون آشام طوفان کو روک لیا ۔ کئی انگریزی اور مراٹھی اخبارات نے بھی مسلم لیگ کے رول کو سراہا اور اس کی تعریف کی ۔ ( حوالہ : مسلم لیگ ، آزادی کے بعد : صفحہ ۷۱۔۷۲ ) یہ بات تاریخی حقیقت کا درجہ رکھتی ہے کہ تقسیم ہند کی وراثت میں بھارت کے مسلمانوں کے حصہ میں فرقہ وارانہ فسادات آئے ۔ خاص طور پر آزادی کے بعد کے دور میں بھارت کے مسلمان بہت ہی خوفزدہ تھے ، اس کی ایک تصویر بھی جناب غلام محمود بنات والا کی اس تصنیف کی معرفت ابھرتی ہے ۔ ممبئی شہر بھی فرقہ وارانہ تشدد کی وارداتوں سے وقفہ بہ وقفہ لرزتا رہتا تھا ۔ دوٹانکی ، نل بازار ، کمہارواڑہ ، کماٹی پورہ ۔ جنوبی ممئی کے یہ ملی جلی آبادی والے علاقہ انتہائی حساس علاقوں میں شامل تھے ، جہاں بات بات پر فرقہ وارانہ فساد ہو جاتا تھا ۔ اس لئے مسلم قیادت کیلئےسب سے بڑا چیلنج یہ چھوٹے موٹے اور بڑے فرقہ وارانہ فسادات تھے ۔ چونکہ پولس کا ایک طبقہ متعصب تھا ، اور اکثر وہ یا تو فسایوں کا ساتھ دیا کرتا تھا ، یا پھر مسلمانوں کے خلاف بے جا طاقت کا استعمال کرتا تھا ، اس لئے اس زمانہ میں مسلمان بھی ایسی قیادت کی جانب امید سے دیکھ رہے تھے ، جو انہیں فسادات کے دوران فرقہ پرستوں اور متعصب پولس والوں کے گٹھ جوڑ سے نجات دلائے ۔ جناب غلام محمود بنات والا نے فرقہ وارانہ فسادات کے دوران خطرات مول لیکر فساد زدہ مسلمانوں کی مدد کیلئے جو کارہائے نمایاں انجام دئیے ، اس سے وہ ایک مقبول قائد بن کر ابھرے ۔ جناب غلام محمود بنات والا نے مولانا شوکت علی روڈ ، دوٹانکی کے ایک دوسرے واقعہ کا بھی اپنی کتاب میں یوں ذکر کیا؛ ’’اس واقعہ (گوندا کے جلوس پر بلوہ) کو ابھی ایک مہینہ بھی نہیں گذرا تھا کہ ۲۰ ستمبر ۱۹۷۰ ء اتوار کی شب میں مولانا شوکت علی روڈ ممبئی اچانک ایک بڑے ہنگامہ خیز علاقہ میں تبدیل ہوگیا ۔اور پھر یہ ہنگامہ بڑی سرعت کے ساتھ پھیل گیا۔پولس نے مسلسل کئی جگہوں پر فائرنگ کی ۔ مہاراشٹر مسلم لیگ کی مجلس عاملہ کے ایک پرجوش رکن جناب محمد ابراہیم بیلف سے اطلاع ملی ۔میں فوراً پہنچا اور مسلم لیگی رفقا کو کر بگڑتے حالات کو سنبھالنے کی کوشش کی ۔ کئی مقامات پر پولس کو سمجھا بجھا کر فائرنگ سے روکا ۔اور عوام کو اطمینان دلاکر منتشر کیا ۔ کماٹی پورہ میں مسلم لیگ کی مجلس عاملہ کے اراکین جناب غلام دستگیر اور جناب عبدالرحیم ابا و دیگر اراکین نے قابل قدر اور نمایاں خدمات انجام دیں ۔‘‘( صفحہ : ۷۲ ) یہ بات واضح کرنا ضروری ہے کہ ان واقعات کے دوران مصنف جناب غلام محمود بنات والا نے کئی اہم مقامی شخصیات کے ناموں کا ذکر کیا ہے ۔ محمد حسین پٹیل جناب غلام محمود بنات والا کی انگریزی کوچنگ کلاس ’’ بنات والا اینڈ پٹیل انسٹی ٹیوٹ ‘‘ کے پارٹنر تھے ۔ بعد میں وہ عمر کھاڑی علاقہ سے دو مرتبہ میونسپل کونسلر بھی بنے ، فی الحال ایک عرصہ سے انجمن اسلام کے نائب صدر ہیں ۔ مرحوم جناب ابراہیم بیلف ناگپاڑہ علاقہ کے مشہور سماجی کارکن تھے ، وہ کٹر مسلم لیگی تھے ۔ ٹیمکر محلہ میں ان کی سائیکل کی دکان پر ہمیشہ عوام و خواص کی بھیڑ رہتی تھی ۔ وہ مسلم لیگ کے ہر جلسہ میں سامعین کی پہلی صف میں بیٹھتے تھے ، اور فلک شگاف نعرہ بلند کرتے تھے ۔ بعدمیں وہ مسلم لیگ کے ٹکٹ پر ناگپاڑہ سے میونسپل کونسلر بھی بنے ۔مرحوم غلام دستگیر کماٹی پورہ اصطبل اسٹریٹ میں مقیم تھے لیکن وہ مسلم لیگ کے اسٹیج پر طنز و مزاح سے لبریز تقاریر کیلئے مشہور تھے ۔ ان کی تقاریر عام لوگوں کو متوجہ کرتی تھی ۔ وہ دو مرتبہ مسلم لیگ کے ٹکٹ پر عرب گلی علاقہ سے میونسپل الیکشن لڑے لیکن کامیابی نہیں ملی ، اس زمانہ میں کماٹی پورہ فرقہ وارانہ طور پر ایک حساس علاقہ تھا جہاں آئے دن تشدد ہوا کرتا تھا ، اس علاقہ میں وہ اپنے رفقاء کے ساتھ خدمات انجام دیا کرتے تھے۔ جناب غلام محمود بنات والا کی کتاب کے اس حصہ سے کئی پرانے مسلم لیگی شخصیات کی یادیں تازہ ہوگئیں ۔   ★★ ابنِ سیف ★★  15:46، 18 اکتوبر 2022ء (م ع و)

واپس "غلام محمد بنات والا" پر