تبادلۂ خیال:فیلس شیفلی

مزید معلومات

ترمیم

فیمنزم ،خواتین کے مساوی حقوق،ہم جنسی پرستی اور اسقاط حمل کے خلاف جدوجہد کرنے والی بہادرخاتون Phyllis Stewart Schlafly ٭ وہ ایک امریکی وکیل،پولیٹیکل ایکٹوسٹ اور روائیتی معاشرتی و سیاسی خیالات کی حامل خاتون تھیں۔انہوں نے فیمنزم، ہم جنس پرستوں کے حقوق اور اسقاط حمل کے خلاف جدوجہد کی اورامریکی آئین میں مساوی حقوق کی ترمیم کی توثیق کے خلاف کامیابی کے ساتھ مہم چلائی۔ہم جنس پرستی، صنفی کردار اور سیکس کے حوالے سے انکے روایتی خیالات کی وجہ سے لبرلز اور اعتدال پسند ان کی سخت مخالفت کرتے ہیں۔ 1964 میں انکی کتاب A Choice Not an Echo کی تیس لاکھ سے زائد کاپیاں فروخت اور تقسیم ہوئیں۔ یہ کتاب ریپبلکن لیڈر کافیلر Rockefeller پر بدعنوانی کے الزامات کے دلائل اور بیری گولڈ واٹر Barry Goldwaterکی صدارتی مہم کی حمایت میں لکھی گئی تھی۔ 1977 میں فیمنسٹ لیڈران نےہوسٹن میں خواتین کی ایک قومی کانفرنس منعقد کرکے توجہ حاصل کرنے کی کوشش کی۔شیفلی Schlafly نے بھی اس کے خلاف ایک زبردست اور کامیاب احتجاجی کانفرنس منعقد کی اور اس میں خاندان کے تحفظ اور روایات کے حق میں بات کرتے ہوئے واضح کیا کہ فیمنزم کا حقوق نسواں سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ Schlafly نے ان سیاستدانوں پر بھی سخت تنقید کی جو فیمنزم اور لبرل ازم کی حمایت کر رہے تھے۔ شیفلی کی یہ کانفرنس بعد ازاں 'مساوی حقوق کی ترمیم ختم کرو' تحریک میں تبدیل ہوگئی۔ Schlaflyکا استدلال تھا کہ مساوی حقوق کے قانون سے ان مراعات کا خاتمہ ہو جائے گا جو اس وقت خواتین کوحاصل ہیں جن میں مرد کی طرف سے کفالت پر انحصار ،سوشل سیکورٹی کی مراعات، مرد اور خواتین کے لئے علیحدہ علیحدہ واش رومز کی سہولیات،اور لازمی فوجی تربیت میں شمولیت سے استثنیٰ وغیرہ شامل ہیں۔اسکے علاوہ اسکا استدلال تھا کہ مساوی حقوق سے صرف نوجوان اور پروفیشنل خواتین کو فائدہ ہوگا۔وہ خواتین جو درمیانی عمر کی ہیں اور گھر کے کام کاج کرتی ہیں انکی سلامتی و تحفظ کو خطرات لاحق ہو جائیں گے۔ چونکہ بچے خواتین ہی پیدا کرتی ہیں اوراس عمل کا کوئی متبادل نہیں ہو سکتا اس لئے روایتی قوانین اور رسومات بچوں کی کفالت کا ذمہ دار مرد کو قرار دیتے ہیں ۔ اگر مساوی حقوق کی ترمیم منظو ر ہو جاتی ہے تو ہم یہ ذمہ داری مرد پر نہیں ڈال سکیں گے۔ اس تحریک کے کارکنان نے اپنے احتجاج میں امریکی خواتین کی گھریلو روایات و علامات کو استعمال کیا۔ انہوں نے ہاتھوں میں گھر کی پکی ہوئی روٹیاں ، جام اور ایپل پائی اٹھاتے ہوئےنعرے لگائے کہ ' ہم ماں اور ایپل پائےApple Pie کے حمایتی ہیں'، 'ماں کے ہاتھ کی روٹی اور جام چھیننے والوں کے خلاف ووٹ دیں'۔ فیمنزم کے زیر اثر چلنے والی خواتین کی تنظیمیں Schlafly کی تحریک کی سخت مخالفت کر رہی تھیں لیکن اسکے باوجود Schlafly کی کوششوں سے اس وقت اس قانون میں ترمیم کی توثیق نہ ہوسکی۔ چنانچہ امریکہ کی تمام خواتین تنظیمیں ریپبلکن پارٹی سے ناراض ہوگئیں اور انہوں نے ڈیموکریٹس کی حمایت شروع کر دی جسکے نتیجے میں 1992 اور 1996 میں بل کلنٹن صدر منتخب ہوئے۔ وہ جب تک زندہ رہیں 'مساوی حقوق کی ترمیم کی توثیق' کی مخالفت کرتی رہیں اور انکی کوششوں کی وجہ سے اس ترمیم کو امریکی کی ریاستوں کا اکثریتی ووٹ حاصل نہ ہوسکا لیکن 5 ستمبر 2016 کو 92 سال کی عمر میں کینسر کی وجہ سے وہ چل بسیں۔انکی وفات کے بعد2017 میں نیواڈا اسٹیٹ نے مساوی حقوق کی توثیق کی، 2019 میں الینوائے اور پھر 2020 میں ورجینیا نے توثیق کی۔ 38 ریاستوں کے مطلوبہ ووٹ حاصل ہونے کے بعد امریکی کانگرس نے 2020 میں اس ترمیم کی منظوری دی ۔ شیفلی کے چھ بچے تھے اور کئی مرتبہ تقریر کے دوران بھی انکا کوئی نہ کوئی بچہ انکی گود میں ہوتا ۔ وہ اپنے دیگر کاموں کے دوران بھی بچوں کی دیکھ بھال سے غافل نہیں ہوتی تھیں۔ 1978 میں انہوں نےٹائم میگزین کو بتایا کہ 'جب میں مساوی حقوق کے قانون کے خلاف تحریک چلا رہی تھی اور میرے شوہر نے مجھے اس بات کا احساس دلایا کہ وہ میرے گھر سے زیادہ دن دورر ہنے پر خوش نہیں ہیں تو میں نے اپنی تقریریں منسوخ کرکے اپنے شوہر کی خدمت پر توجہ دی۔ 2011 میں انہوں نے NPR کو ایک انٹرویو دیتے ہوئے کہا کہ 'میرا شوہر بہت معاون تھا اور میں نے فیمنسٹ ماہرین کو کہا تھا کہ تمہارے مقابلے میں نکل کر تقریریں کرنے کیلئے مجھے صرف ایک شخص کی اجازت درکار ہوتی ہے اور وہ میرا شوہر ہے۔ ان کو یہ بات سن کر بہت مایوسی ہوئی کیونکہ انکا خیال تھا کہ شاید 'آزادی' کے خلاف مہم چلانے والے فرد کا 'آزاد' ہونا ضروری ہوتا ہے لیکن میرا معاملہ ایسا نہیں تھا میں ہر معاملے میں اپنے شوہر کے مشورے اور احکامات کو اولیت دیتی تھی'۔نیشنل آرگنائزیشن فار وومن کے صدر کرین ڈیکرو، شیفلی سے اس حد تک متاثر تھے کہ وہ کہتے تھے کہ اگر میری کبھی بیٹی ہوئی تو اسے شوفلی کی طرح کی گھریلو خاتون بنائوں گا۔ انہوں نے ایک انٹرویو میں کہا کہ بہت سے لوگ جانتے ہی نہیں کہ فیمنزم کیا ہے؟ انکے خیال میں یہ خواتین کے حقوق اور کامیابیوں کے بارے میں پیش قدمی کرنے والی تحریک ہے لیکن ایسا ہر گز نہیں۔یہ تحریک تو بائیں بازو کی خواتین کو طاقتور بنانے کی تحریک ہے اور اس تحریک کا یہ خیال مضحکہ خیز ہے کہ امریکی عورت پدرسری نظام معاشرت کی وجہ سے ظلم و ستم کا شکار ہے اور اسکو اس ظلم سے نجات دلانے کیلئے قوانین اور حکومت کی مدد کی ضرورت ہے۔انکا یہ خیال بھی درست نہیں کہ مرد اور عورت کا فرق صرف سماجی و معاشرتی تعمیر Social Constructہے اور یہ ہمیشہ اسکو تبدیل کرنے کی خاطر حکومتوں کے سامنے اپنا رونا روتے رہتے ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ یہ لوگ فطرت کے ساتھ لڑائی لڑ رہے ہیں انہیں حقوق نسوں کا علمبردار نہیں کہا جانا چاہیے کیونکہ یہ تو امریکی عورتوں کی کامیابیوں سے جلتے ہیں۔میں یقین سے کہہ سکتی ہوں کہ امریکی خواتین سب سے زیادہ خوش قسمت ہیں اور انکو ہر وہ کام کرنے کی آزادی اور مواقع میسر ہیں جو انکے دل میں ہو۔زندگی کا حقیقی مزہ شادی شدہ زندگی میں ہے لیکن فیمنزم نے عورتوں سے یہ خوشی چھین لی ہے ۔یہ عورتوں کو یہ باور کراتے ہیں کہ معاشرے میں انکے ساتھ امتیازی و غیر منصفانہ سلوک کیا جا رہا ہے اور انہیں اپنی مشکلات حل کرنے کیلئے حکومتوں سے احتجاج کرتے ہوئے اپنے حق میں قوانین پاس کرانے کی ضرورت ہے۔ مارچ 2007 میں شیفلی نے بیٹس کالج Bates Collegeمیں ایک تقریر کے دوران کہا کہ'شوہر پر زیادتی کا الزام Marital Rape' کا تصور فیمنزم کا ایک غیر فطری شاخسانہ ہے۔شادی کا مطلب ہی جنسی تعلقات پر اتفاق ہوتا ہے اس لئے شادی کے بعد کے جنسی تعلقات پر عصمت دری کا الزام لگانا کسی طوردرست نہیں۔امریکی سپریم کورٹ نے جب Rov V. Wade فیصلے میں اسقاط حمل کے حق میں فیصلہ دیا تو انہوں نے اس کو تاریخ کا بدترین فیصلہ قرار دیتے ہوئے کہا کہ یہ فیصلہ لاکھوں بچوں کی پیدائش سے قبل انکے قتل کا ذمہ دار ہے۔ 2007 میں مساوی حقوق کے ایک نئے ورژن کو شکست دینے کیلئے کام کرتے ہوئے شیفلی نے خبردار کیا تھا کہ مساوی حقوق کے قوانین عدالتوں کو اس بات کا اختیار دے دیں گے کہ وہ ہم جنس پرستوں کی شادیوں کی منظوری دیں اور گھریلو و بیوہ خواتین کی سوشل سیکورٹی سہولیات سے انکار کریں۔شیفلی نے ہمیشہ ہم جنس پرستوں کی شادیوں کی مخالفت کی اور اسے شادی کے روایتی تصور پر حملہ قرار دیا کیونکہ اسکے نزدیک نکاح کا مطلب ہی ایک مرد اور ایک عورت کا تعلق ہے۔ انکا کہنا تھا کہ بدقسمتی سے کالجوں،یونیورسٹیوں میں خواتین کو صرف کیرئیر کے راستے پر گامزن ہونا سکھایا جاتا ہے اور اس میں مرد، شادی اور بچوں کیلئے کوئی جگہ نہیں ہوتی۔کچھ خواتین تو صاف کہہ دیتی ہیں کہ وہ اپنے بچوں کی دیکھ بھال نہیں کرنا چاہتیں ۔مجھے نہیں معلوم کہ وہ کون مرد ہوگا جو ایسی خواتین سے شادی کرنا پسند کرے گا۔میں تو کالج کے لڑکوں سے صاف کہہ دیتی ہوں کہ جس لڑکی سے وہ تعلقات قائم کرنے کے خواہاں ہیں پہلے یہ تودیکھ لیں کہ وہ ایک فیمنسٹ عورت تو نہیں۔ ہمارے زمانے میں تو بچوں کے لنگوٹ بار بار دھونے اور سکھانے کی ضرورت پیش آتی تھی۔ اب تو کاغذی لنگوٹ میسر ہیں جب دل چاہے بدل کر پرانا والا پھینک دو۔اسکے علاوہ بھی ہر طرح کی سہولیات میسر ہیں۔یہ مرد اور ٹیکنالوجی ہی ہیں جنہوں نے گھر یلو خواتین کی زندگی آسان اور خوشگوار بنادی۔ میں تمام عورتوں سے یہ امید کرتی ہوں کہ وہ اس خوشگوار زندگی کا لطف اٹھائیں اور اسے بچوں کی صحیح پرورش ، نگہداشت اور تربیت کیلئے استعمال کریں اور اللہ کا شکر ادا کریں۔۔۔۔۔(وحید مراد) --امین اکبر (تبادلۂ خیالشراکتیں) 16:17، 28 جنوری 2021ء (م ع و)

واپس "فیلس شیفلی" پر