تبادلۂ خیال:ملتان
amerika canada 00490714415196 sofort alles schliessen [[Category:Page#Category title'Bold text']]</ref>
تاریخ کے حوالے سے کچھ معلومات
ترمیمسید محمد اولاد علی گیلانی اپنی کتاب مرقع مولتان میں لکھتے ہیں کہ قطب الدین لنگاہ کی وفات کے بعد ۱۴۶۹ء میں حسین خان لنگاہ تخت نشیں ہوا۔ اس نے حدود سلطنت کو اور بھی وسعت دی۔ شورکوٹ اور چنیوٹ کو فتح کیا اور یہاں دودائی بلوچوں کو آباد کیا جو مغلوں کے حملوں کی تاب نہ لا کر اس طرف نکل آئے تھے۔ اسی زمانہ میں ملک سہراب داؤدزئی (دودائی ) اپنی قوم وقبیلے سمیت علاقہ کیچ مکران سے ہجرت کر کے سلطان حسین کی خدمت میں حاضر ہوئے اور سلطان حسین نے اس امدادی جمعیت کو غنیمت جان کر ان کی شایان شان آؤ بھگت کی اور کہروڑ ودھنکوٹ کاعلاقہ بطور جاگیران کے سپرد کیا۔ یہ خبر سنتے ہی اس علاقہ کے باقی بلوچ بھی ہجرت کر کے یہاں آگئے۔ (۱۴) ملتان میں بلوچوں کا ذکر باردِ گر ہمایوں کے دور میں ملتا ہے۔ مرقع ملتان کے مطابق ہمایوں کے زوال اور شیر شاہ کے عروج کے زمانے میں بلوچوں نے بھی قدم آگے بڑھایا۔ مزاری بلوچ تلمبہ تک پہنچ گئے اور چاکر رند ضلع منٹگمری میں ست گھر (ست پورہ ) کے مقام پر آباد ہوگیا۔ شیر شاہ نے ہیبت خان نیازی حاکم لاہور کو میر چاکر رند کی سرکوبی کے لیے بھیجا۔ بلوچوں کی روایات کے مطابق ہیبت خان نے میر چاکر رند کے بیٹے کو قتل کر کے اس کی پسلیاں آگ پر بھنوائیں تھیں۔ میر چاکر رند نے جوابی حملہ کر کے ملتان فتح کیا اور پھر ست گھر (ست پورہ ) پہنچا جہاں روایت مشہور ہے کہ ہیبت خان مارا گیا اور اس کی کھوپڑی کا پیالہ بنایا گیا۔ واقعہ کچھ یوں ہے کہ، ' میر چاکر نے کہا کہ میرے بیٹے کا خون کون لیگا تو میر بازل مزاری کہا کہ میں کونگا میر بازل مزارئ تلمبہ ملتان سے مزاری دستوں کے ساتھ روجھان واپس آیا وہاں سے مزید لشکر تیار کرکے کوہلو پہاڑ کے نزدیک پہنچ کر دشمن ہیبت خان ارغون پٹھان کے ساتھ جنگ شروع کیا اس گھمسان کی جنگ میں مزاری قبیلے کا سرگانی نے ہیبت خان پر تلواد سے وار کیا اور ہیبت خان کا سر کاٹ کر میر بازل مزاری کو دیا اسی طرح مزاریوں کو فتح حاصل ہوئی میر بازل اپنے لشکر کے ساتھ واپس تلمبہ ملتان پہنچا ہیبت خان کا سر میر چاکر کو پیش کیا میر چاکر نے اسکی سر کو سکھل بنایا اور اسکو پانی پینے کیلیئے استعمال کیا. اسماعیل مزاری. امین اکبر (تبادلۂ خیال • شراکتیں) 18:15، 21 اگست 2022ء (م ع و)