تبادلۂ خیال:نمبر 8 سکواڈرن (پاک فضائیہ)
اک اور ضرب حیدری
ترمیمنوٹ: یہ پوسٹ بھی صرف فضائیہ میں دلچسپی رکھنے والوں کے لیے ہے مئی 1960 میں ماری پور (مسرور ائر بیس) کراچی پر نمبر 8 ٹیکٹیکل اٹیک سکواڈرن کا جنم ہوا اور اگست میں اسے بی 57 بمبار طیاروں سے لیس کر کے نمبر 31 ٹیکٹیکل اٹیک ونگ کا حصہ بنایا گیا۔ سکواڈرن کا نام اسد الٰہی مولا علی علیہ السلام کی نسبت سے حیدرز رکھا گیا اور اس کے لیے نعرہ بھی اسی مناسبت سے منتخب ہوا یعنی۔۔۔۔۔ اک اور ضربِ حیدری۔۔ اس سکواڈرن نے 27 اکتوبر 1964 کو ایک انوکھا ریکارڈ قائم کیا۔ اس سے قبل دنیا میں صرف ٹرینر یا فائٹر طیاروں پر مشتمل ایروبیٹک ٹیمز ہوا کرتی تھیں لیکن نمبر 8 سکواڈرن نے پہلی مرتبہ بمبار طیاروں کی ایروبیٹک ٹیم تشکیل دی جس میں چار بی 57 طیارے شامل تھے۔ اس ٹیم نے متعدد مواقع پر فضائی کرتب پیش کیے جن میں "لوپ"، "رول" اور "ونگ اوور" جیسی مووز شامل تھیں۔ اس سے قبل بھاری بمبار طیاروں کی فارمیشن سے لوپ اور رول کرنے کی جرات کسی فضائیہ نے نہیں کی تھی۔ جنگ ستمبر 65 کے دوران میں اس سکواڈرن کو دو حصوں میں تقسیم کر کے سرگودھا اور کراچی میں ڈیپلائے کیا گیا جہاں سے اس کے بمبار طیاروں نے شمال میں آدم پور، انبالہ، ہلواڑہ اور پٹھانکوٹ جبکہ جنوب میں جام نگر اور جودھ پور کے فضائی اڈوں اور شکر گڑھ سیکٹر میں دشمن کے ٹھکانوں پر بھرپور بمباری کی۔ نمبر 8 سکواڈرن نے اپنی قلیل تعداد کے پیش نظر رات کے وقت دشمن کے فضائی اڈوں پر بمباری کے لیے ایک غیر معمولی حکمت عملی اختیار کی۔ بجائے چار، آٹھ یا سولہ طیاروں کی فارمیشن کے ساتھ حملہ آور ہونے اور ایک رات میں ایک یا زیادہ سے زیادہ دو حملوں کے، اس سکواڈرن کے بمبار طیارے چند منٹ کے وقفے سے باری باری اڑان بھرتے اور ہر طیارہ انفرادی طور پر ہدف کے اوپر چند بار ڈائیو کر کے اپنے بم گراتا۔ پہلا حملہ مکمل ہونے کے بعد ابھی دشمن کو سانس لینے کا موقع بھی نہ ملتا کہ دوسرا طیارہ پہنچ جاتا۔۔۔۔ یوں پوری رات دشمن کے فضائی اڈوں پر سائرن بجتے رہتے اور انہیں رن وے مرمت کا موقع بھی نہ مل پاتا۔ اس حکمت عملی کا نتیجہ یہ ہوا جنگ کے آغاز کے بعد پہلے چند روز کی بمباری سے دشمن کو اس قدر نقصان پہنچ چکا تھا کہ چار گنا عددی برتری کے باوجود ان کی سارٹیز کی تعداد پاک فضائیہ کی سارٹیز سے بھی کم رہ گئی۔ جنگ کے بعد جب انکل سام نے پاکستان پر پابندیاں عاید کر دیں تو سپئیر پارٹس کی فراہمی معطل ہونے سے اس سکواڈرن کے طیارے ناکارہ ہونے لگے۔ آخر کار یکم مئی 1970 کو یہ سکواڈرن نمبر 7 سکواڈرن میں ضم کر دیا گیا۔ گیارہ برس بعد مئی 1982 میں اس سکواڈرن کو دوبارہ مسرور بیس پر ہی ریز کیا گیا اور اسے میراج 5 طیاروں سے لیس کر کے دوبارہ ٹیکٹیکل اٹیک کی ذمہ داریاں تفویض کی گئیں۔ اس سکواڈرن کو دوبارہ مسلح کرنے کی تقریب کی صدارت اس وقت بحریہ کے سربراہ طارق کمال خان نے کی کیونکہ اس سکواڈرن کو دوبارہ مسلح کرنے کا فیصلہ ہی پاک نیوی کو ائر سپورٹ فراہم کرنے کے لیے کیا گیا تھا۔ اسی سکوڈرن کے طیاروں کی ایگزوسیٹ اینٹی شپ میزائلز کے ساتھ تصاویر آپ نے اکثر دیکھی ہوں گی۔ غیر سرکاری ذرائع کے مطابق "حیدرز" کو بھی جے 10 سی طیارے ملنے والے ہیں یعنی رفیقی بیس کے علاوہ جے 10 مسرور (کراچی) پر ہوں گے اور ان عقب میں یعنی بھولاری ائر بیس (حیدر آباد) پر ایف سولہ طیارے تو پہلے ہی سے تعینات ہیں۔ اس طرح ہماری سدرن ائر کمانڈ بھی مزید فعال ہو جائے گی اور سمندر کی جانب سے درپیش خطرات کا مقابلہ کرنے صلاحیت بھی مضبوط تر ہو گی۔ (دوسری تصویر ونگ کمانڈر ایس ایم اے حسینی کی پینٹنگ ہے جس میں انہوں نے بی 57 کی فارمیشن کو بیرل رول کرتے پینٹ کیا ہے۔۔۔۔ تیسری تصویر جے 10 کے پاکستانی کلرز کے ساتھ اس ماڈل کی ہے جسے اس برس کے اوائل میں مسرور بیس پر دیکھا گیا تھا)(رانا اظہر کمال) --امین اکبر (تبادلۂ خیال • شراکتیں) 18:38، 17 دسمبر 2021ء (م ع و)