تبادلۂ خیال:پاکستان کے صدارتی انتخابات، 1965ء

مادر ملت انتخابی معرکہ کیوں ہاریں؟

ترمیم

مادر ملت انتخابی معرکہ کیوں ہاریں؟ محمد عامر خاکوانی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ پاکستان کی قومی سیاسی تاریخ کے حوالے سے کچھ باتیں بار بار دہرانے کی ضرورت رہتی ہے۔ ہر چند برسوں کے بعد پروپیگنڈے کی ایک لہر آتی ہے ، جس کا مقصد حقائق کو مٹانا اور اپنی پسند کی چیزیں نمایاں کرنا ہوتا ہے۔ اگر انہیں بروقت چیلنج نہ کیا جائے تو کچھ عرصے بعد انہیں درست تسلیم کر لیا جاتا ہے۔ اس کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ ہمارے اکثرنوجوان مطالعہ میں زیادہ دلچسپی نہیں رکھتے ، فکشن وغیرہ پڑھنے والے کچھ مل جاتے ہیں، مذہبی لٹریچر اور شاعری میں بھی دلچسپی لی جاتی ہے، مگر نان فکشن کتابیں پڑھنے والے بہت زیادہ نہیں۔ تاریخ میں دلچسپی رکھنے والے بھی اوریجنل سورسز پڑھنے کا شغف نہیں رکھتے۔ بیشتر کی یہی کوشش ہوتی ہے کہ وکی پیڈیا ٹائپ ریفرنس یا کیپسول ٹائپ انفارمیشن ان کے حوالے کر دی جائے، وہ اسے ہی کاپی پیسٹ کر کے کام چلا لیں۔ وکی پیڈیا کا مسئلہ یہ ہے کہ مستند نہیں، کیونکہ اسے انسائیکلو پیڈیا برٹانیکا کی طرح مستند تاریخ دانوں یا ماہرین نے مرتب نہیں کیا۔ یہ عوامی انسائیکلو پیڈیا ہے، جس میں کچھ بھی شامل یا ایڈٹ کیا جا سکتا ہے۔ وکی پیڈیا سے بعض اوقات اچھی، دلچسپ معلومات مل جاتی ہیں، مگر بہت بار غلط اور دھوکہ دینے والی اطلاع ملتی ہے۔ پچھلے کالم میں لکھا کہ محترمہ فاطمہ جناح کے حوالے سے یہ تاثر درست نہیں کہ انہیں ریاستی یا قومی سطح پر غدار قرار دیا گیا تھا ۔ اگرچہ اسی کالم میں یہ وضاحت کر دی تھی کہ میرا مقصد قطعی طور پر ایوب خان کی حمایت کرنا نہیں اور نہ ہی انہیں کسی الزام سے بری کرنا ہے اور ایوب خان بمقابلہ مادر ملت فاطمہ جناح کی کسی مساوات میں خاکسار مادر ملت کا پیروکار ہے۔ یہ بھی لکھا کہ ایوب خان نے وہ الیکشن متنازع طریقے سے جیتا ، ورنہ شفاف انتخابات میں مادر ملت کی کامیابی یقینی تھی۔ میرا صرف یہ مقصد تھا کہ جو بات جتنی ہے، اتنی ہی کہی جائے ۔ یہ درست ہے کہ ایوب خان نے خود بھی بعض تقریروں میں مادر ملت پر سخت تنقید کی، ان کے ساتھیوں میں سے بعض نے کہیں کہیں عامیانہ گفتگو اور زیادہ سخت باتیں بھی کہیں۔ ان کے پاس چونکہ مادر ملت پر تنقید کرنے کے لئے کوئی جواز یا پوائنٹ موجود نہیں تھا، ایسی شفاف ، اپ رائٹ شخصیت کے خلاف کیا کہا جا سکتا تھا؟ اس لئے انہوں نے مادر ملت کا ساتھ دینے والی متحدہ اپوزیشن کے رہنماﺅں پر تنقید کی، مولانا مودودی کو پاکستان مخالف قرار دیا، خان عبدالغفار خان، ولی خان وغیرہ کو ملک دشمن قرار دیا اور کہا کہ مادر ملت ان ملک دشمن لوگوں کے ہاتھوں میں کھیل رہی ہیں، الیکشن جیت گئیں تو یہی لوگ حاوی ہوجائیں گے وغیر ہ وغیرہ۔ یہ سب باتیں بھی نامناسب تھیں۔ باچا خان یا ولی خان ملک دشمن نہیں تھے، اس وقت وہ جمہوریت کی جنگ لڑ رہے تھے اور ایوب خان کے مخالف تھے، اس لئے انہیں ہدف بنایا گیا، ورنہ اگر وہ ایوب کے حامی ہوتے تب کسی کو اعتراض نہ ہوتا۔ ایوب خان کی جیت کو کسی طرح جائز قرار نہیں دیا جا سکتا، اس میں بہت سی بے قاعدگیاں تھیں، واضح طو رپر انتظامیہ کے ذریعے بی ڈی ممبرز پر اثرانداز ہوا گیا۔ایوب خان کی فتح ہی میں دراصل ان کی شکست مضمر تھی۔ میرا اصل نکتہ یہ ہے کہ مادر ملت فاطمہ جناح کو ریاستی یا قومی سطح پر غدار نہیں قرار دیا گیا۔ یہ مقام شکر ہے کہ اس وقت سیاست میں گندگی اتنی زیادہ نہیں تھی، ورنہ آج کا زمانہ ہوتا تو ان کے خلاف اسمبلی سے قرارداد ہی منظور کرا لی جاتی۔ ایسا نہیں ہوا اور صدارتی انتخاب کے بعد مادر ملت بھی اپنے گھر میں رہیں، اگلے ڈھائی برسوں میں وہ سیاسی طور پر غیر فعال تھیں۔ حکومت نے بھی ان سے کوئی سروکار نہیں کیا، اچھا کیا۔ایوب خان میں بے شمار خامیاں ہیں،ڈھونڈنے کے لئے محنت نہیں کرنا پڑے گی۔ ان کا مادر ملت سے الیکشن جیتنا ہی متنازع ہے، اسی پر تنقید کر لی جائے، مشرقی پاکستان کے عوام کے احساس محرومی کو بڑھاوا دینے میں بھی ایوب خان حکومت کااہم کردار ہے۔ تنقید ضرور کی جائے، ڈٹ کر کی جائے، ایسا کرنے کا ہر ایک کو پورا حق حاصل ہے۔ بس عرض یہ ہے کہ ہمارے داغ دار ماضی میں کوئی واقعہ اگر اتنا زیادہ بھدا اور مسخ نہیں تو اسے ویسا ہی رہنے دیا جائے۔ مادر ملت کے انتخابات کے حوالے سے ریفرنس کا مواد تلاش کر رہا تھا، ڈاکٹر صفدر محمود نے نظریہ پاکستان ٹرسٹ کے سیکرٹری محترم شاہد رشید کی جانب رہنمائی کی۔ شاہد رشید صاحب نے ازراہ تلطف نظریہ پاکستان فاﺅنڈیشن کی شائع کردہ کتاب”جمہوریت، آمریت اور مادر ملت“بھیج دی، وکیل انجم اس کے مصنف ہیں، انہوں نے خاصی محنت سے مادر ملت کے انتخابات کی تفصیلی روداد رقم کی ہے۔ ایوب خان اور مادر ملت کے انتخابی معرکے کے حوالے سے بہت سے نوجوان قارئین کو زیادہ معلومات حاصل نہیں۔ خاصے لوگ تو یہ بھی نہیں جانتے کہ وہ انتخاب براہ راست ووٹوں کے ذریعے نہیں ہوا تھا۔ دراصل ایوب خان نے بی ڈی ممبرز سسٹم متعارف کرایا تھا، بنیادی جمہوریت نظام۔ اس کے تحت صدارتی امیدواروں میں براہ راست عوام سے ووٹ لینے کے مقابلہ کے بجائے پہلے بلدیاتی ٹائپ الیکشن کے زریعے بی ڈی ممبر منتخب ہوئے اور پھر ان ممبران نے صدارتی امیدواروں کو ووٹ ڈالے۔ یہ بی ڈی سسٹم امریکی صدارتی نظام سے ملتا جلتا نظام تھا۔ وہاں بھی امریکی صدارتی امیدوار براہ راست آپس میں نہیں ٹکراتے، اگرچہ تاثر یہی ملتا ہے۔ فرق صرف یہ ہے کہ وہاں دو بڑی سیاسی جماعتیں موجود ہیں اورصدر کے الیکٹوریل کالج کے زیادہ تر نمائندے ان دونوں جماعتوں سے تعلق رکھتے ہیں، آزاد صدارتی امیدواروں پر پابندی نہیں، مگر امریکی عوام انہیں پزیرائی نہیں بخشتیں ۔ یہ موٹی سی تعریف کی ہے، تاہم امریکی نظام کی پیچیدگی کو چند سطروں میں سمجھانا ممکن نہیں، ہم اپنے موضوع سے ہٹ جائیں گے، دلچسپی رکھنے والے اسے نیٹ پر سرچ کر کے دیکھ لیں۔ ایوب خان اور مادر ملت فاطمہ جناح کے صدارتی الیکشن سے پہلے مشرقی اور مغربی پاکستان میں بی ڈی ممبرز کا الیکشن ہوا۔ دونوں حصوں سے چالیس چالیس ہزار ممبرز چنے جانے تھے، بعد میں ان اسی ہزار ممبران نے صدرپاکستان کا فیصلہ کرنا تھا۔ اکتیس اکتوبر سے نو نومبر 1964 تک مغربی پاکستان اوردس نومبر سے انیس نومبر 1964ءتک مشرقی پاکستان میں انتخابات ہوئے۔ اپوزیشن اپوزیشن اور حکمران کنونشن مسلم لیگ دونوں نے اپنی اپنی طرف سے بھرپور مہم چلائی کہ ایسے ممبران منتخب ہوں جو ان کے صدارتی امیدوار کو ووٹ ڈالیں۔ پاکستانی تناظر میں یہ بی ڈی سسٹم ناکام ہونا ہی تھا، یہاں جمہوریت مستحکم نہیں، ادارے مضبوط نہیں اوربلدیاتی سطح کے ممبران پر انتظامیہ کے زریعے اثرانداز ہونا بہت آسان ہے۔ مزید ستم ظریفی یہ کہ صدر ایوب اپنے تمام تر اختیارات کے ساتھ بطور صدر حکومت کرتے رہے۔ اپوزیشن نے اس پر اعتراض کیا اور مطالبہ کیا کہ نگران حکومت بنائی جائے۔ اس پر حکومتی وزرا نے مذاق اڑایااور امریکہ کی مثال دی جہاں الیکشن کے موقعہ پر صدر مستعفی نہیں ہوتا۔ یہ غلط موازنہ تھا کیونکہ امریکی صدر الیکشن میں مداخلت کرنے کا سوچ بھی نہیں سکتے۔ الیکشن کمیشن، انتظامیہ، عدلیہ ، میڈیا وغیرہ سب اتنے مستعد ہیں کہ کسی کی ایسا کرنے کی جرات ہی نہیں ہوتی۔ صدرنکسن نے اپنے مخالفین کی جاسوسی کی کوشش کی تو ایسی رسوائی کا سامنا کرنا پڑا کہ اس کے بعد کی نصف صدی میں امریکی صدور مزید محتاط ہوگئے۔ صدر ایوب نے ایک ہوشیاری یہ کی کہ ان کا صدارتی انتخاب قومی اور صوبائی اسمبلیوں کے انتخاب کے بعد ہونا تھا، مگر انہوں نے اسمبلی میں ایک ترمیم کے ذریعے اپنے صدارتی انتخاب کو پہلے کرا لیا تاکہ اسمبلیوں کے انتخاب میں اپوزیشن کی ممکنہ جیت کا منفی اثر صدارتی انتخاب پر نہ پڑے۔ صدر ایوب کی ٹیم نے انتظامیہ کو بھرپور طریقے سے اپنے حق میں استعمال کیا ، ایسے بہت سے علاقے تھے جہاں سے واضح طور پر مادر ملت کے حامی ممبران الیکشن جیتے تھے، مگر انتظامیہ کے دباﺅ کے پیش نظر ان میں سے بہت سے منحرف ہو کر صدر ایوب کو ووٹ ڈالنے پر مجبور ہوگئے۔ اس کی بے شمار مثالیں موجود ہیں، وکیل انجم نے اپنی کتاب میں ایسے سب واقعات رقم کئے ہیں۔ سب سے دلچسپ اور آنکھیں کھول دینے والا معاملہ ایوب خان کے حمایتی سیاستدانوں کی تفصیل ہے۔ بعد میں جمہوریت کے چیمپین بننے والے بیشتر لوگ کھل کر نہ صرف ایوب خان کے ساتھی رہے بلکہ ان میں سے بعض نے مادر ملت فاطمہ جناح پر سخت اور ناجائز تنقید بھی کی۔ ان میں ذوالفقار علی بھٹو سرفہرست ہیں۔ کئی سال بعد وہ صدر ایوب خان سے الگ ہوگئے، ان کے خلاف احتجاجی تحریک بھی چلائی اور اپنی جماعت پیپلزپارٹی بنا کر 1970ءکا الیکشن مغربی پاکستان میں جیتا اور پھر سقوط مشرقی پاکستان کے بعد باقی ماندہ پاکستان کے سربراہ بن گئے۔ بھٹو صاحب نے سندھ میں ایوب خان کی بھرپور مہم چلائی اور انہیں عظیم رہنما قرار دیا، بھٹو کا کہنا تھا کہ ایوب خان نے پاکستان کو تباہی سے بچا لیا۔بھٹو صاحب سے مادر ملت کے خلاف بعض سخت اور غیر شائستہ جملے بھی منسوب کئے جاتے ہیں۔ اسی طرح سندھ کے اہم روحانی گدی کے سربراہ مخدوم سیدزماں طالب المولیٰ نے بھی کھل کر ایوب خان کی حمایت میں مہم چلائی۔ مخدوم طالب المولیٰ اور ان کے صاحبزادے مخدوم امین فہیم ودیگر بعد میں پیپلزپارٹی کے مرکزی رہنما رہے۔ سندھ کے تالپور گھرانے کے علی احمد تالپور، رسول بخش تالپور کھل کر مادر ملت کے ساتھ کھڑے رہے۔ بلوچستان کے بیشتر سردار ایوب خان کے ساتھ تھے اور وہاں سے مادر ملت کو بہت کم ووٹ ملے، میر جعفر خان جمالی نے البتہ نہ صرف بلوچستان بلکہ سندھ میں بھی مادر ملت کے حق میں بھرپو رمہم چلائی۔سندھ میں پیر پگاڑا، محمد خان جونیجو، پیر آف رانی پور، غلام نبی میمن وغیرہ نے ایوب خان کا ساتھ دیا۔ پورے مغربی پاکستان میں کراچی واحد ضلع تھا ، جہاں سے مادر ملت کو کامیابی ملی، یہیں پر الیکشن کے بعد ایک افسوسناک المیہ ہوا، جس کی ذمہ داری صدر ایوب کے صاحبزادے گوہر ایوب پر عائدہوتی ہے، صدر ایوب کے لئے نرم گوشہ رکھنے والے قدرت اللہ شہاب اور روئیداد خان دونوں نے اپنی آپ بیتی میں اس واقعے کو دیانت داری سے بیان کیا اور کچھ نہیں چھپایا۔پنجاب کے تقریباً تمام ہی اہم الیکٹ ایبلز ایوب خان کے ساتھ کھڑے تھے۔ جنوبی پنجاب میں بھی یہی ہوا۔ ملتان ڈویژن میں قریشی، گیلانی، کھگے، بوسن، کانجو، خاکوانی،ڈاہا، بودلے،کھچی، گردیزی سب ہی ایوب خان کے ساتھ تھے، تاہم میر بلخ شیر مزاری، پیر ظہور حسین قریشی اور رمضان دریشک نے مادر ملت کا ساتھ دیا۔ بہاولپورڈویژن میں مادر ملت کے حامیوں کی اکثریت جیتی، مگر مخدوم زادہ حسن محمود اور دیگر طاقتور شخصیات کی کوشش سے ایوب خان نے کامیابی حاصل کی ۔ایوب خان کی کامیابی میں نواب کالاباغ کی چالبازیوں اور جوڑتوڑ نے بھی اہم کردار ادا کیا۔پنڈی میں راجہ ظفر الحق نے زبردست طریقے سے ایوب خان کا ساتھ دیا، پنڈی ڈسٹرکٹ کونسل میں ایوب خان کی کامیابی پرمبارکباد کی قرارداد راجہ صاحب ہی نے پیش کی تھی۔لاہور میں میاں معراج دین، میاں شریف اور دیگر اہم کاروباری وسیاسی شخصیات ایوب خان کی حمایت میں سرگرم رہیں۔چودہ سال بعد بھٹو صاحب کے کیس میں استغاثہ کے وکیل بننے والے اعجاز بٹالوی آخری لمحے تک مادر ملت کی حق میں ڈٹے رہے، انہوں نے انجمن فدایان مادر ملت کے نام سے ایک تنظیم بھی بنائی تھی۔ گجرات کے چودھری ظہور الٰہی تو ایوب خان کے دست راست تھے۔ سرگودھا میں ٹوانے، پراچے، نون ، لک، میکن اور دیگر اہم الیکٹ ایبل ایوب خان کے ساتھ تھے۔گوجرانوالہ میںغلام دستیگر خان ایوب خان کے زبردست حامی تھے۔ ان کے حوالے سے ایک ناشائستہ واقعہ بھی رپورٹ کیا جاتا ہے۔چودھری انور بھنڈر اور رفیق تارڑ نے مادر ملت کی کھل کر مخالفت کی، رفیق تارڑ بعد میں جج اور صدر پاکستان بنے۔چودھری اعتزاز احسن کے والد چودھری احسن علیگ نے البتہ مادر ملت کی بھرپور حمایت کی۔ شیخوپورہ، فیصل آباد اور پنجاب کے دیگر اہم شہروں کے الیکٹ ایبلز ایوب خان کے ساتھ تھے۔سرحد میں بھی یہی کھیل کھیلا گیا۔ مشرقی پاکستان میں مادر ملت کو اکثریت حاصل تھی، وہاں کچھ انتظامیہ نے اثر ڈالا اور کئی ہزار ووٹوں کا فرق مبینہ طور پر مولانا بھاشانی کی سیاسی غداری سے پڑا، کہا جاتا ہے کہ وہ بڑی رقم لے کر ایوب خان کے ساتھ مل گئے تھے،حبیب جالب نے اپنی آپ بیتی میں کہا کہ بھٹو صاحب نے انہیں بتایا کہ یہ ڈیل انہوں نے کرائی تھی۔ علما اور مشائخ میں بہت سوں نے جنرل ایوب کا ساتھ دیا۔ کئی بڑے علما جیسے صاحبزادہ فیض الحسن، علامہ احمد سعید کاظمی (غزالی دوراں) نے مادر ملت کے خلاف فتوے بھی صادر کئے۔ جماعت اسلامی البتہ کھل کر مادر ملت کے ساتھ کھڑی تھی، مولانا مودودی نے بڑے مدلل انداز میں مادر ملت کا مقدمہ لڑا۔ مولانا مودوی کو مادر ملت کی حمایت پر یہ روایتی دینی حلقے تنقید کا نشانہ بھی بناتے رہے۔ مولانا عبدالستار نیازی البتہ مادر ملت کے سپاہی تھے،کراچی میں مفتی محمد شفیع صاحب نے بھی دباﺅ کے باوجود ایوب خان کے حق میں بیان نہیں دیا۔منیر نیازی، حبیب جالب ، احمد مشتاق، سید قاسم محمود ، محمود شام اور دیگر ادیب بھی مادر ملت کے حق میں لکھتے رہے۔ حبیب جالب کی نظموں نے تو ملک میں تہلکہ مچا دیا۔ مادر ملت کو شکست ہونی ہی تھی، جب ملک کا طاقتور صدر اپنے تمام تر اختیارات اور انتظامیہ کے وسائل کے ساتھ انتخابی نتائج پر اثرانداز ہو رہا ہے اور ملک بھر کے اہم ، طاقتور سیاستدان اس کے ساتھ کھڑے ہیں، تب جماعت اسلامی، نیشنل عوامی پارٹی ، کونسل مسلم لیگ وغیرہ کی کوششوں سے کتنا کچھ ہو سکتا تھا؟ مادر ملت نے نجی محفلوں میں کئی بار کہا کہ مجھے معلوم ہے کہ حکومت مجھے جیتنے نہیں دے گی، مگر یہ جدوجہدضروری ہے اور یہ آمرانہ حکومت کو کمزور کرے گی۔ مادر ملت کی جس والہانہ انداز میں جلسوں میں پزیرائی کی گئی، اس سے واضح ہے کہ فیئر الیکشن ہوتے تو مادر ملت جیت جاتیں۔الیکشن کمیشن کی جانب سے جاری کردہ نتائج کے مطابق ایوب خان نے مغربہ پاکستان سے 28939 جبکہ مشرقی پاکستان سے21012 ووٹ لئے ، مجموعی ووٹ بنے 49951، جبکہ مادر ملت کو مغربی پاکستان سے 10257، مشرقی پاکستان سے18434، مجموعی طور پر28691ووٹ ملے۔ وہ الیکشن تو ہار گئیں، مگر ایوب خان کی مقبولیت کا تاثر بھی مجروح ہوا اور ان کی مضبوط حکومت ہل کر رہ گئی۔ یہ ایوب خان کے زوال کا آغاز تھا، اس کے بعد ان کی سیاسی قوت بتدریج کم ہی ہوتی گئی۔--امین اکبر (تبادلۂ خیالشراکتیں) 18:06، 17 جولائی 2020ء (م ع و)

کون کہاں کھڑا تھا

ترمیم

اصل تاریخ جو ہماری نسل سے چھپا لی گئی پاکستان میں پہلی دھاندلی 1965 کے صدارتی الیکشن میں فوج ،بیوروکریٹس، پیروں اور وڈیروں کےگٹھ جوڑ سے ہوئی جس کے بعد حق سچ کا ساتھ دینے والے کتنے ہی لوگ جنہوں نے پاکستان کیلئےسب کچھ قربان کردیا تھا غدار کہلائے۔اور کیسے کیسے لوگ معتبر بن بیٹھے ۔ صدارتی الیکشن۔1965 وہ سیاہ دن تھا جب کتّا کنویں میں گرا تھا جسے آج تک نہیں نکالا جاسکا بس ضرورتاً چند ڈول پانی نکال کر ہر کوئی اپنا راستہ ہموار کر لیتا ہے۔ فساد کی ماں 1965 کے صدارتی الیکشن پر اب کوئی بات بھی نہیں کرتا اور نہ انکے بارے میں کچھ لکھا جاتا ہے کہ نئی نسل کو آگہی ہو کہ کیسے اس الیکشن نے پاکستان کی تباہی کی بنیاد رکھی، کیسے اس نے پاکستان کو دولخت کرنے میں جلتی پر تیل کا کردار ادا کیا اور باقی ماندہ پاکستان پر اک ایسی رجیم مسلّط کردی جس نے یہاں کبھی جمہوریت کو پنپنے ہی نہیں دیا۔ 1965کےصدارتی الیکشن میں پہلی دھاندلی خود فیلڈ مارشل ایوب خان نےکی جو پہلے الیکشن۔بالغ رائےدہی کی بنیاد پر کروانےکا اعلان کر کے مُکر گئے یہ اعلان 9اکتوبر1964 کو ہوا مگر مادر ملت فاطمہ جناح کےامیدوار بننے اور ایوب خان کے خلاف میدان میں اترنے کے بعد یہ اعلان صدرِ پاکستان کا نہیں ایوب خان کا انفرادی ‏اعلان ٹھہرا اور سازش کےتحت یہ ذمہ داری حبیب اللہ خان پر ڈالی گئی ۔یہ پاکستان کی پہلی پری پول دھاندلی تھی۔ کابینہ اجلاس میں تو وزراء نےخوشامد کی انتہا کردی حبیب اللّہ خان نےفاطمہ جناح کو ایبڈو کرنےکی تجویز دی ، اگر یہ تجویز منظور کر کے مس فاطمہ جناح کو غدّار قرار دے دیا جاتا تو پاکستان کی تاریخ کا بھیانک سانحہ ہوتا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ وحید خان نےجو وزیر اطلاعات اور کنویشن لیگ کےجنرل سیکرٹری تھےتجویز دی کہ ایوب ‏کو تاحیات صدر قرار دینےکیلئے ترمیم کی جائے ایوب خان کےمنہ بولے بیٹے ذوالفقار بھٹو نے مس جناح کو بڑھیا اور ضدی کے القابات سے نوازا۔ دوسری طرف جماعت اسلامی کے مولاناابوالاعلی مودودی ، سندھ سےجی ایم سید اور صوبہ سرحد سےخان عبدالغفار خان نے جبکہ مشرقی پاکستان سے شیخ مجیب نےکھل کر فاطمہ جناح کی حمایت کی۔ ‏پنجاب کےتمام سجادہ نشینوں نے سوائے پیر مکھڈ صفی الدین کےفاطمہ جناح کےخلاف فتویٰ دیا۔ ایوب خان کی انتظامی مشینری نے دھاندلی کا منصوبہ ترتیب دیا اور الیکشن تین طریقوں سےلڑنےکا فیصلہ کیا پہلا مذھبی سطح پر جس کےانچارج پیر آف دیول شریف تھے جنہوں نےمس جناح کےخلاف فتوے نکلوائے

  • دوسرا انتظامی سطح پر

چونکہ 62 کےآئین کے تحت ایوب خان کو یہ سہولت میسرتھی کہ وہ تب تک صدر رہ سکتےتھےجب تک انکاجانشین نہ منتخب ہو جائے ۔لہذا اک حاضر سروس طاقتور صدر کے حق میں پوری سرکاری مشینری استعمال کی گئی۔ جسکا نتیجہ یہ ہےکہ آج بھی الیکشن سرکاری ملازمین کےدباؤ سےجیتےجاتے ہیں

  • تیسری سطح پر*

مس جناح کےحامیوں پر جھوٹے مقدمات درج کئےگئے ۔عدالتوں سے ‏انکے خلاف فیصلے لئے گئے اور یہی عدلیہ کےتابوت میں پہلی اور آخری کیل ثابت ہوئی جو آج تک ٹھکی ھوئی ہے سندھ کےتمام جاگیردار گھرانے ایوب خان کےساتھ ھو گئے تھے۔ بھٹو فیملی ،جتوئی فیملی ،محمدخان جونیجو فیملی ،ٹھٹھہ کے شیرازی ،خان گڑھ کےمہر نواب شاہ کےسادات ،بھرچونڈی۔۔رانی پور ‏ہالا👈کے اکثر پیران کرام، ایوب خان کے ساتھ تھے سوائے کراچی میں گہری جڑیں رکھنےوالی جماعت اسلامی ،اندرون سندھ کےجی ایم سید_ حیدرآباد کےتالپور برادران ،بدین کے فاضل راہو اور رسول بخش پلیجو مس جناح کےحامی تھے ۔تاریخ کا جبر دیکھیں یہی لوگ بعد میں پاکستان کےغدار بھی ٹہراےُ گئے پنجاب کےتمام گدّی نشین اور صاحبزادگان و سجادہ نشین سوائےپیر مکھڈ۔صفی الدین باقی سب ایوب خان کےساتھ ھو گئےتھے سیال شریف کےپیروں نےتو فاطمہ جناح کےخلاف فتوی بھی دیا تھا۔ پیر آف دیول نےداتادربار پر مراقبہ کیا اور فرمایا کہ داتا صاحب نےحکم دیا ہےایوب خان کو کامیاب کیاجائے ‏ورنہ خدا پاکستان سےخفا ہوجائے گا۔ آلو مہارشریف کےصاحبزادہ فیض الحسن نےعورت کےحاکم ہونے کےخلاف فتوی جاری کیا مولانا عبدالحامد بدایونی صدر جمعیت علماء پاکستان نےفاطمہ جناح کی نامزدگی کو شریعت سےمذاق اورناجائز قرار دیا مولانا حامدسعیدکاظمی کےوالد علامہ احمد سعید کاظمی نے ‏ایوب خان کو ملت اسلامیہ کی آبرو قرار دیا یہ وہ لوگ تھے جو دین کےخادم ہیں لاھور کےمیاں معراج الدین نے فاطمہ جناح کےخلاف جلسہ منعقد کیاجس سےمرکزی خطاب عبدالغفار پاشا اور وزیر بنیادی جمہوریت نےخطاب کیا معراج الدین نے فاطمہ جناح پر اخلاقی بددیانتی کا الزام لگایا موصوف موجودہ بیمار ‏وزیر صحت یاسمین راشد کےسسر تھے۔ گجرانوالہ کےغلام دستگیر نے مس جناح کی تصویریں کتیا کےگلے میں ڈال کر پورے گجرانوالہ میں جلوس نکالے میانوالی کی ضلع کونسل نےفاطمہ جناح کےخلاف قرار داد منظور کی۔ مولانا غلام غوث ہزاروی سابق ناظم اعلی مجلس احرار اور مرکزی رہنماء جمعیت علمائےاسلام ‏نےکھل کر ایوب خان کی حمایت کا اعلان کیا اور دعا بھی کی۔ پیر آف زکوڑی نےفاطمہ جناح کی نامزدگی کو اسلام سےمذاق قرار دیکر عوامی لیگ سے استعفی دیا۔اور ایوب کی حمایت کا اعلان کیا دوسری طرف جماعت اسلامی کےامیر مولانا سید ابوالاعلی مودودی کا ایک جملہ زبان زد عام ہوگیا ایوب خان میں ‏اسکے سوا کوئی خوبی نہیں کہ وہ مرد ہیں اورفاطمہ جناح میں اسکے سوا کوئی کمی نہیں کہ وہ عورت ہیں۔ بلوچستان میں مری سرداروں اور جعفر جمالی ظفر اللہ جمالی کے والد صاحب کوچھوڑ کر سب فاطمہ جناح کےخلاف تھے قاضی محمد عیسی جسٹس فائز عیسی کےوالد مسلم لیگ کا بڑا نام ‏بھی فاطمہ جناح کےمخالف اور ایوب خان کےحامی تھے انہوں نےکوئٹہ میں ایوب خان کی مہم چلائی حسن محمود نےپنجاب اور سندھ کے۔روحانی خانوادوں کو ایوب کی حمایت پرراضی کیا پورا مشرقی پاکستان غدار ٹہرا کہ وہ سب مس جناح کےساتھ تھے خطۂ پوٹھوہار کے۔تمام بڑے گھرانے اور سیاسی لوگ ایوب خان کےساتھ تھے ‏برئگیڈئر سلطان والد چودھری نثار، ملک اکرم دادا امین اسلم، ملکان کھنڈا۔کوٹ فتح خان۔ پنڈی گھیب۔تلہ گنگ۔ایوب کےساتھ تھے اسکی وجہ یہاں کے سب لوگ فوج سے وابستہ تھے سوائےچودھری امیر۔اور ملک نواب خان کے جن کو الیکشن کےدو دن بعد قتل کردیا گیا۔ شیخ مسعود صادق نےایوب خان کی لئےوکلاء ‏کی حمایت کا سلسلہ شروع کیا کئی لوگوں نےانکی حمایت کی ،پنڈی سے راجہ ظفرالحق بھی ان میں شامل تھے اسکے علاوہ میاں اشرف گلزار بھی فاطمہ جناح کےمخالفین میں شامل تھے صدارتی الیکشن۔1965 کے دوران گورنر امیر محمد خان صرف چند لوگوں سے پریشان تھے ان میں سرفہرست سید ابوالاعلی مودودی، ‏شوکت حیات ،خواجہ صفدر والد خواجہ آصف چودھری احسن والد اعتزازاحسن، خواجہ رفیق والد سعدرفیق، کرنل عابد امام والد عابدہ حسین اور علی احمد تالپور شامل تھے یہ لوگ آخری وقت تک فاطمہ جناح کےساتھ رہے صدارتی الکشن کےدوران فاصمہ جناح پر پاکسان توڑنےکا الزام بھی لگا یہ الزام ZA-سلہری نے ‏اپنی ایک رپورٹ میں لگایا جسمیں مس جناح کی بھارتی سفیر سےملاقات کا حوالہ ديا گیا تھا یہ بیان کہ قائداعظم تقسیم کےخلاف تھے یہ وہی تقسیم تھی جسکا پھل کھانےکیلئےآج سب اکٹھےہوئے تھے یہ اخبار ہرجلسےمیں لہرایا گیا ۔ایوب اسکو لہرا لہرا کر مس جناح کوغدار کہتے رہے پاکستان کا مطلب کیا ‏لاالہ الااللّہ جیسی نظم لکھنے والے اصغرسودائی ایوب خان کے قصیدے اور ترانے لکھتے تھے اوکاڑہ کےایک شاعر ظفراقبال نےچاپلوسی کےریکارڈ توڑ ڈالے یہ وہی ظفراقبال ہیں جو بعد میں اپنےکالموں میں سیاسی راہنماؤں کا مذاق اڑاتے رہے۔ سرورانبالوی و دیگر کئی شعراء اسی کام میں مصروف تھے دوسری طرف حبیب جالب، ‏ابراھیم جلیس میاں بشیر فاطمہ جناح کےجلسوں کے شاعر تھے۔ جالب نے ان جلسوں سے اپنے کلام میں شہرت حاصل کی میانوالی جلسے کے دوران جب گورنر امیرخان کےغنڈوں نےفائرنگ کی توفاطمہ جناح ڈٹ کر کھڑی ہوگئیں اسی حملےکی یادگار

  • بچوں پہ چلی گولی۔*
  • ماں دیکھ کے یہ بولی* نظم ہے

فیض صاحب خاموش حمائتی تھے ‏چاغی۔لورالائی،سبی ،ژوب، مالاکنڈ،باجوڑ، دیر،سوات، سیدو، خیرپور، نوشکی،دالبندین، ڈیرہ بگٹی، ہرنائی، مستونگ، چمن، سبزباغ، سے فاطمہ جناح کو کوئی ووٹ نہیں ملا۔ سارا اردو اسپیکنگ طبقہ جو جماعت اسلامی کی طاقت تھا فاطمہ جناح کی حمایت کرتا رہا انکو کراچی سے 1046 ایوب خان کو837 ووٹ ملے ‏مشرقی پاکستان مس جناح کےساتھ تھا فاطمہ جناح کو ڈھاکہ سے353 اور ایوب خان کو 199ووٹ ملے جسکی سزا اسٹیبلشمنٹ نےیہ دی کہ انہیں دو نمبر شہری اور پاکستان سےالگ ہونےپر مجبور کردیاگیا ٹوبہ ٹیک سنگھ میں ایوب خان اور مس فاطمہ کے ووٹ برابر تھے مس جناح کےایجنٹ ایم حمزہ تھے اور اے-سی جاویدقریشی جو بعد میں چیف سیکرٹری بنے ‏مس جناح کوکم ووٹوں سےشکست اکیلی عورت فوج ،بیوروکریٹ، پیروں، وڈیروں، جاگیر داروں سےمقابلہ کر رہی تھی

جہلم سے ایوب کے82 اور مس جناح کے67 ووٹ تھے

اس الیکشن میں جہلم کےچودھری الطاف فاطمہ جناح کےحمائتی تھے مگر نواب کالاباغ کے دھمکانےکے بعد پیچھے ہٹ گئے یہاں تک کہ جہلم کےنتیجے پر دستخط کیلئے ‏مس جناح کےپولنگ ایجنٹ گجرات سے آئے اسطرح کی دھونس اور دھاندلی عام رہی اس الیکشن میں مس فاطمہ جناح نہیں ہاری بلکہ جمہوریت ہار گئی_ پاکستان ہار گیا۔۔۔۔جو محبِ وطن اور جان نثار تھے غدّار ٹہرے اور اسمبلیوں اور ایوانوں سے ان کا خاتمہ ہو گیا۔ ابن الوقت اور چاپلوسی کرنے والے معتبر ٹہرے اور آج بھی اسمبلیوں میں انہی ‏کی اولادیں موجود ہیں اس کے بعد پاکستان کی عوام نےکوئی نیا لیڈر پیدا نہیں کیا

  • حوالےکیلئے دیکھئے

ڈکٹیٹرکون۔۔ایس-ایم-ظفر میرا سیاسی سفر۔۔حسن محمود فاطمہ جناح۔۔ابراھیم جلیس مادرملت۔۔ظفرانصاری۔ فاطمہ جناح۔۔حیات وخدمات۔۔وکیل انجم اور کئی پرانی اخبارات 👈پڑھیں اور جانےآپنا ماضی ریاض خالق کی وال سے--امین اکبر (تبادلۂ خیالشراکتیں) 19:47، 12 جنوری 2022ء (م ع و)

اصل تاریخ جو ہماری نسل سے چھپا لی گئی

ترمیم

پاکستان میں پہلی دھاندلی 1965 کے صدارتی الیکشن میں فوج ،بیوروکریٹس، پیروں اور وڈیروں کےگٹھ جوڑ سے ہوئی جس کے بعد حق سچ کا ساتھ دینے والے کتنے ہی لوگ جنہوں نے پاکستان کیلئےسب کچھ قربان کردیا تھا غدار کہلائے۔اور کیسے کیسے لوگ معتبر بن بیٹھے ۔ صدارتی الیکشن۔1965 وہ سیاہ دن تھا جب کتّا کنویں میں گرا تھا جسے آج تک نہیں نکالا جاسکا بس ضرورتاً چند ڈول پانی نکال کر ہر کوئی اپنا راستہ ہموار کر لیتا ہے۔ فساد کی ماں 1965 کے صدارتی الیکشن پر اب کوئی بات بھی نہیں کرتا اور نہ انکے بارے میں کچھ لکھا جاتا ہے کہ نئی نسل کو آگہی ہو کہ کیسے اس الیکشن نے پاکستان کی تباہی کی بنیاد رکھی، کیسے اس نے پاکستان کو دولخت کرنے میں جلتی پر تیل کا کردار ادا کیا اور باقی ماندہ پاکستان پر اک ایسی رجیم مسلّط کردی جس نے یہاں کبھی جمہوریت کو پنپنے ہی نہیں دیا۔ 1965کےصدارتی الیکشن میں پہلی دھاندلی خود فیلڈ مارشل ایوب خان نےکی جو پہلے الیکشن۔بالغ رائےدہی کی بنیاد پر کروانےکا اعلان کر کے مُکر گئے یہ اعلان 9اکتوبر1964 کو ہوا مگر مادر ملت فاطمہ جناح کےامیدوار بننے اور ایوب خان کے خلاف میدان میں اترنے کے بعد یہ اعلان صدرِ پاکستان کا نہیں ایوب خان کا انفرادی ‏اعلان ٹھہرا اور سازش کےتحت یہ ذمہ داری حبیب اللہ خان پر ڈالی گئی ۔یہ پاکستان کی پہلی پری پول دھاندلی تھی۔ کابینہ اجلاس میں تو وزراء نےخوشامد کی انتہا کردی حبیب اللّہ خان نےفاطمہ جناح کو ایبڈو کرنےکی تجویز دی ، اگر یہ تجویز منظور کر کے مس فاطمہ جناح کو غدّار قرار دے دیا جاتا تو پاکستان کی تاریخ کا بھیانک سانحہ ہوتا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ وحید خان نےجو وزیر اطلاعات اور کنویشن لیگ کےجنرل سیکرٹری تھےتجویز دی کہ ایوب ‏کو تاحیات صدر قرار دینےکیلئے ترمیم کی جائے ایوب خان کےمنہ بولے بیٹے ذوالفقار بھٹو نے مس جناح کو بڑھیا اور ضدی کے القابات سے نوازا۔ دوسری طرف جماعت اسلامی کے مولاناابوالاعلی مودودی ، سندھ سےجی ایم سید اور صوبہ سرحد سےخان عبدالغفار خان نے جبکہ مشرقی پاکستان سے شیخ مجیب نےکھل کر فاطمہ جناح کی حمایت کی۔ ‏پنجاب کےتمام سجادہ نشینوں نے سوائے پیر مکھڈ صفی الدین کےفاطمہ جناح کےخلاف فتویٰ دیا۔ ایوب خان کی انتظامی مشینری نے دھاندلی کا منصوبہ ترتیب دیا اور الیکشن تین طریقوں سےلڑنےکا فیصلہ کیا پہلا مذھبی سطح پر جس کےانچارج پیر آف دیول شریف تھے جنہوں نےمس جناح کےخلاف فتوے نکلوائے

  • دوسرا انتظامی سطح پر

چونکہ 62 کےآئین کے تحت ایوب خان کو یہ سہولت میسرتھی کہ وہ تب تک صدر رہ سکتےتھےجب تک انکاجانشین نہ منتخب ہو جائے ۔لہذا اک حاضر سروس طاقتور صدر کے حق میں پوری سرکاری مشینری استعمال کی گئی۔ جسکا نتیجہ یہ ہےکہ آج بھی الیکشن سرکاری ملازمین کےدباؤ سےجیتےجاتے ہیں

  • تیسری سطح پر*

مس جناح کےحامیوں پر جھوٹے مقدمات درج کئےگئے ۔عدالتوں سے ‏انکے خلاف فیصلے لئے گئے اور یہی عدلیہ کےتابوت میں پہلی اور آخری کیل ثابت ہوئی جو آج تک ٹھکی ھوئی ہے سندھ کےتمام جاگیردار گھرانے ایوب خان کےساتھ ھو گئے تھے۔ بھٹو فیملی ،جتوئی فیملی ،محمدخان جونیجو فیملی ،ٹھٹھہ کے شیرازی ،خان گڑھ کےمہر نواب شاہ کےسادات ،بھرچونڈی۔۔رانی پور ‏ہالا👈کے اکثر پیران کرام، ایوب خان کے ساتھ تھے سوائے کراچی میں گہری جڑیں رکھنےوالی جماعت اسلامی ،اندرون سندھ کےجی ایم سید_ حیدرآباد کےتالپور برادران ،بدین کے فاضل راہو اور رسول بخش پلیجو مس جناح کےحامی تھے ۔تاریخ کا جبر دیکھیں یہی لوگ بعد میں پاکستان کےغدار بھی ٹہراےُ گئے پنجاب کےتمام گدّی نشین اور صاحبزادگان و سجادہ نشین سوائےپیر مکھڈ۔صفی الدین باقی سب ایوب خان کےساتھ ھو گئےتھے سیال شریف کےپیروں نےتو فاطمہ جناح کےخلاف فتوی بھی دیا تھا۔ پیر آف دیول نےداتادربار پر مراقبہ کیا اور فرمایا کہ داتا صاحب نےحکم دیا ہےایوب خان کو کامیاب کیاجائے ‏ورنہ خدا پاکستان سےخفا ہوجائے گا۔ آلو مہارشریف کےصاحبزادہ فیض الحسن نےعورت کےحاکم ہونے کےخلاف فتوی جاری کیا مولانا عبدالحامد بدایونی صدر جمعیت علماء پاکستان نےفاطمہ جناح کی نامزدگی کو شریعت سےمذاق اورناجائز قرار دیا مولانا حامدسعیدکاظمی کےوالد علامہ احمد سعید کاظمی نے ‏ایوب خان کو ملت اسلامیہ کی آبرو قرار دیا یہ وہ لوگ تھے جو دین کےخادم ہیں لاھور کےمیاں معراج الدین نے فاطمہ جناح کےخلاف جلسہ منعقد کیاجس سےمرکزی خطاب عبدالغفار پاشا اور وزیر بنیادی جمہوریت نےخطاب کیا معراج الدین نے فاطمہ جناح پر اخلاقی بددیانتی کا الزام لگایا موصوف موجودہ بیمار ‏وزیر صحت یاسمین راشد کےسسر تھے۔ گجرانوالہ کےغلام دستگیر نے مس جناح کی تصویریں کتیا کےگلے میں ڈال کر پورے گجرانوالہ میں جلوس نکالے میانوالی کی ضلع کونسل نےفاطمہ جناح کےخلاف قرار داد منظور کی۔ مولانا غلام غوث ہزاروی سابق ناظم اعلی مجلس احرار اور مرکزی رہنماء جمعیت علمائےاسلام ‏نےکھل کر ایوب خان کی حمایت کا اعلان کیا اور دعا بھی کی۔ پیر آف زکوڑی نےفاطمہ جناح کی نامزدگی کو اسلام سےمذاق قرار دیکر عوامی لیگ سے استعفی دیا۔اور ایوب کی حمایت کا اعلان کیا دوسری طرف جماعت اسلامی کےامیر مولانا سید ابوالاعلی مودودی کا ایک جملہ زبان زد عام ہوگیا ایوب خان میں ‏اسکے سوا کوئی خوبی نہیں کہ وہ مرد ہیں اورفاطمہ جناح میں اسکے سوا کوئی کمی نہیں کہ وہ عورت ہیں۔ بلوچستان میں مری سرداروں اور جعفر جمالی ظفر اللہ جمالی کے والد صاحب کوچھوڑ کر سب فاطمہ جناح کےخلاف تھے قاضی محمد عیسی جسٹس فائز عیسی کےوالد مسلم لیگ کا بڑا نام ‏بھی فاطمہ جناح کےمخالف اور ایوب خان کےحامی تھے انہوں نےکوئٹہ میں ایوب خان کی مہم چلائی حسن محمود نےپنجاب اور سندھ کے۔روحانی خانوادوں کو ایوب کی حمایت پرراضی کیا پورا مشرقی پاکستان غدار ٹہرا کہ وہ سب مس جناح کےساتھ تھے خطۂ پوٹھوہار کے۔تمام بڑے گھرانے اور سیاسی لوگ ایوب خان کےساتھ تھے ‏برئگیڈئر سلطان والد چودھری نثار، ملک اکرم دادا امین اسلم، ملکان کھنڈا۔کوٹ فتح خان۔ پنڈی گھیب۔تلہ گنگ۔ایوب کےساتھ تھے اسکی وجہ یہاں کے سب لوگ فوج سے وابستہ تھے سوائےچودھری امیر۔اور ملک نواب خان کے جن کو الیکشن کےدو دن بعد قتل کردیا گیا۔ شیخ مسعود صادق نےایوب خان کی لئےوکلاء ‏کی حمایت کا سلسلہ شروع کیا کئی لوگوں نےانکی حمایت کی ،پنڈی سے راجہ ظفرالحق بھی ان میں شامل تھے اسکے علاوہ میاں اشرف گلزار بھی فاطمہ جناح کےمخالفین میں شامل تھے صدارتی الیکشن۔1965 کے دوران گورنر امیر محمد خان صرف چند لوگوں سے پریشان تھے ان میں سرفہرست سید ابوالاعلی مودودی، ‏شوکت حیات ،خواجہ صفدر والد خواجہ آصف چودھری احسن والد اعتزازاحسن، خواجہ رفیق والد سعدرفیق، کرنل عابد امام والد عابدہ حسین اور علی احمد تالپور شامل تھے یہ لوگ آخری وقت تک فاطمہ جناح کےساتھ رہے صدارتی الکشن کےدوران فاصمہ جناح پر پاکسان توڑنےکا الزام بھی لگا یہ الزام ZA-سلہری نے ‏اپنی ایک رپورٹ میں لگایا جسمیں مس جناح کی بھارتی سفیر سےملاقات کا حوالہ ديا گیا تھا یہ بیان کہ قائداعظم تقسیم کےخلاف تھے یہ وہی تقسیم تھی جسکا پھل کھانےکیلئےآج سب اکٹھےہوئے تھے یہ اخبار ہرجلسےمیں لہرایا گیا ۔ایوب اسکو لہرا لہرا کر مس جناح کوغدار کہتے رہے پاکستان کا مطلب کیا ‏لاالہ الااللّہ جیسی نظم لکھنے والے اصغرسودائی ایوب خان کے قصیدے اور ترانے لکھتے تھے اوکاڑہ کےایک شاعر ظفراقبال (آفتاب اقبال کے والد) نےچاپلوسی کےریکارڈ توڑ ڈالے یہ وہی ظفراقبال ہیں جو بعد میں اپنےکالموں میں سیاسی راہنماؤں کا مذاق اڑاتے رہے۔ سرورانبالوی و دیگر کئی شعراء اسی کام میں مصروف تھے دوسری طرف حبیب جالب، ‏ابراھیم جلیس میاں بشیر فاطمہ جناح کےجلسوں کے شاعر تھے۔ جالب نے ان جلسوں سے اپنے کلام میں شہرت حاصل کی میانوالی جلسے کے دوران جب گورنر امیرخان کےغنڈوں نےفائرنگ کی توفاطمہ جناح ڈٹ کر کھڑی ہوگئیں اسی حملےکی یادگار

  • بچوں پہ چلی گولی۔*
  • ماں دیکھ کے یہ بولی* نظم ہے

فیض صاحب خاموش حمائتی تھے ‏چاغی۔لورالائی،سبی ،ژوب، مالاکنڈ،باجوڑ، دیر،سوات، سیدو، خیرپور، نوشکی،دالبندین، ڈیرہ بگٹی، ہرنائی، مستونگ، چمن، سبزباغ، سے فاطمہ جناح کو کوئی ووٹ نہیں ملا۔ سارا اردو اسپیکنگ طبقہ جو جماعت اسلامی کی طاقت تھا فاطمہ جناح کی حمایت کرتا رہا انکو کراچی سے 1046 ایوب خان کو837 ووٹ ملے ‏مشرقی پاکستان مس جناح کےساتھ تھا فاطمہ جناح کو ڈھاکہ سے353 اور ایوب خان کو 199ووٹ ملے جسکی سزا اسٹیبلشمنٹ نےیہ دی کہ انہیں دو نمبر شہری اور پاکستان سےالگ ہونےپر مجبور کردیاگیا ٹوبہ ٹیک سنگھ میں ایوب خان اور مس فاطمہ کے ووٹ برابر تھے مس جناح کےایجنٹ ایم حمزہ تھے اور اے-سی جاویدقریشی جو بعد میں چیف سیکرٹری بنے ‏مس جناح کوکم ووٹوں سےشکست اکیلی عورت فوج ،بیوروکریٹ، پیروں، وڈیروں، جاگیر داروں سےمقابلہ کر رہی تھی

جہلم سے ایوب کے82 اور مس جناح کے67 ووٹ تھے

اس الیکشن میں جہلم کےچودھری الطاف فاطمہ جناح کےحمائتی تھے مگر نواب کالاباغ کے دھمکانےکے بعد پیچھے ہٹ گئے یہاں تک کہ جہلم کےنتیجے پر دستخط کیلئے ‏مس جناح کےپولنگ ایجنٹ گجرات سے آئے اسطرح کی دھونس اور دھاندلی عام رہی اس الیکشن میں مس فاطمہ جناح نہیں ہاری بلکہ جمہوریت ہار گئی_ پاکستان ہار گیا۔۔۔۔جو محبِ وطن اور جان نثار تھے غدّار ٹہرے اور اسمبلیوں اور ایوانوں سے ان کا خاتمہ ہو گیا۔ ابن الوقت اور چاپلوسی کرنے والے معتبر ٹہرے اور آج بھی اسمبلیوں میں انہی ‏کی اولادیں موجود ہیں اس کے بعد پاکستان کی عوام نےکوئی نیا لیڈر پیدا نہیں کیا

  • حوالےکیلئے دیکھئے

ڈکٹیٹرکون۔۔ایس-ایم-ظفر میرا سیاسی سفر۔۔حسن محمود فاطمہ جناح۔۔ابراھیم جلیس مادرملت۔۔ظفرانصاری۔ فاطمہ جناح۔۔حیات وخدمات۔۔وکیل انجم اور کئی پرانی اخبارات --امین اکبر (تبادلۂ خیالشراکتیں) 12:47، 6 فروری 2022ء (م ع و)

واپس "پاکستان کے صدارتی انتخابات، 1965ء" پر