تبادلۂ خیال:پاک-افغان تعلقات
افغانستان کی پاکستان میں مداخلت کی تاریخ
ترمیمپی ٹی ایم بضد ہے کہ میچ میں اگر افغانیوں نے چند پاکستانیوں کو مار بھی دیا تو کون سی قیامت آگئی۔ پاکستان اپنے کیے کی سزا بھگت رہا ہے جو اس نے افغانستان میں آج تک کیا!
پاکستان نے کیا یا افغانستان نے؟
آئیں آج آپ کو اس کا تسلی بخش جواب دیں۔
30 ستمبر 1947ء کو افغانستان دنیا کا واحد ملک بنا جس نے اقوام متحدہ میں پاکستان کی رکنیت کے خلاف ووٹ دیا۔
ستمبر 1947ء میں ہی افغان حکومت نے کابل میں افغان جھنڈے کے ساتھ ” پشتونستان” کا جعلی جھنڈا لگا کر آزاد پشتونستان تحریک کی بنیاد رکھی۔
47ء میں ہی افغان ایلچی نجیب اللہ نے نوزائیدہ مسلمان ریاست پاکستان کو فاٹا سے دستبردار ہونے اور سمندر تک جانے کے لیے ایک ایسی راہداری دینے کا مطالبہ کیا جس پر افغان حکومت کا کنٹرول ہو بصورت دیگر جنگ کی دھمکی دی۔ قائداعظم محمد علی جناح صاحب نے اس احمقانہ مطالبے کا جواب تک دینا پسند نہ کیا۔
1948ء میں افغانستان نے ” قبائل ” کے نام سے ایک نئی وزارت کھولی جس کا کام صرف پاکستان کے قبائلیوں کو پاکستان کے خلاف اکسانا تھا۔
48ء میں افغانستان میں پاکستان کے خلاف پرنس عبدلکریم بلوچ کے دہشت گردی کے ٹریننگ کمیپ بنے۔
1949ء میں روس کی بنائی ہوئی افغان فضائیہ کے طیاروں نے پاکستان کے قبائلی علاقوں میں ایسے پمفلٹ گرائے جن میں قبائلی عوام کو پشتونستان کی تحریک کی حمایت کرنے پر ابھارنے کی کوشش کی گئی تھی۔
12 اگست 1949ء کو فقیر ایپی نے باچا خان کے زیر اثر افغانستان کی پشتونستان تحریک کی حمایت کا اعلان کیا۔ افغان حکومت نے پرجوش خیر مقدم کیا۔
31 اگست 1949ء کو کابل میں افغان حکومت کے زیر اہتمام ایک جرگہ منعقد کیا گیا جس میں باچا خان اور مرزا علی خان عرف فقیر ایپی دونوں نے شرکت کی۔ اس جرگے میں ہر سال “31 اگست” کو یوم پشتونستان منانے کا فیصلہ کیا گیا۔ اسی جرگہ میں پاکستان کے وجود کو تسلیم کرنے سے انکار کر دیا گیا۔
افغانستان کی پشت پناہی میں فقیر ایپی نے 1949ء میں پاکستان کے خلاف پہلی گوریلا جنگ کا آغاز کیا۔ اس کے جنگجو گروپ کا نام غالباً “سرشتہ گروپ” تھا۔ اس کی دہشت گردانہ کاروائیاں وزیرستان سے شروع ہو کر کوہاٹ تک پھیل گئیں۔ فقیر ایپی نے چن چن کر ان پشتون عمائدین کو قتل کیا جنہوں نے ریفرنڈم میں پاکستان کے حق میں رائے عامہ ہموار کی تھی۔
49ء میں افغانستان نے اپنی پوری فورس اور لوکل ملیشیا کے ساتھ چمن کی طرف سے پاکستان پر بھرپور حملہ کیا۔ جس کو نوزائیدہ پاک فوج نے نہ صرف پسپا کیا بلکہ افغانستان کے کئی علاقے چھین لیے۔ جو افغان حکومت کی درخواست پر واپس کر دئیے گئے۔
1954ء میں ایپی فقیر کے گروپ کمانڈر ” مہر علی ” نے ڈپٹی کمشنر بنوں کے سامنے ہتھیار ڈالتے ہوئے پاکستان سے وفاداری کا اعلان کیا جس کے بعد اس تحریک کا خاتمہ ہوا۔
50ء میں افغانستان نے انڈیا کے ساتھ دوستی کا معاہدہ کیا جس کا ایک نقاطی ایجنڈہ تھا کہ پاکستان کو کسی بھی طرح گھیر کر ختم کرنا ہے۔
ستمبر 1950 میں افغان فوج نے بغیر وارننگ کے بلوچستان میں دوبندی علاقے میں بوگرہ پاس پر حملہ کردیا۔ جس کا مقصد چمن تا تاکوئٹہ ریلوے لنک کو منقطع کرنا تھا۔ ایک ہفتے تک پاکستانی و افغانی افواج میں جھڑپوں کے بعد افغان فوج بھاری نقصان اٹھاتے ہوئے پسپا ہوگئی۔ اس واقعہ پر وزیر اعظم لیاقت علی خان نے افغان حکومت سے شدید احتجاج کیا۔
16 اکتوبر 1951 کو ایک افغان قوم پرست دہشتگرد “سعد اکبر ببرج” مردود نے پاکستان کے پہلے وزیراعظم قائد ملت لیاقت علی خان کو راولپنڈی میں گولی مار کرشہید کردیا۔ یہ قتل افغان حکومت کی ایماء پر ہوا تاہم عالمی دباو سے بچنے کے لیے کسی بھی انوالومنٹ سے انکار کردیا۔ لیاقت علی خان کی شہادت پاکستان میں دہشتگردی اور ٹارگٹ کلنگ کا پہلا واقعہ تھا یعنی پاکستان میں دہشتگردی کا آغاز افغانستان نے کیا۔
6 جنوری 1952 کو برطانیہ کے لیے افغانستان کے ایمبیسڈر “شاہ ولی خان” نے بھارت کے اخبار “دی ہندو” کو انٹرویو دیتے ہوۓ یہ ہرزہ سرائی کی کہ “پشتونستان میں ہم چترال، دیر، سوات، باجوڑ، تیراہ، وزیرستان اور بلوچستان کے علاقے شامل کرینگے”
26 نومبر 1953 کو افغانستان کے کےنئے سفیر “غلام یحیی خان طرزی” نے ماسکو روس کا دورہ کیا جس میں روس (سوویت اتحاد) سے پاکستان کے خلاف مدد طلب کی۔ جواباً انہوں نے افغانستان کو مکمل مدد کی یقین دہانی کروائی۔
28 مارچ 1955 میں افغانستان کے صدر “داؤد خان” نے روس کی شہ پا کر پاکستان کے خلاف انتہائی زہر آمیز تقریر کی جس کے بعد 29 مارچ کو کابل، جلال آباد اور کندھار میں افغان شہریوں نے پاکستان کے خلاف پرتشدد مظاہروں کا آغاز کردیا جس میں پاکستانی سفارت خانے پر حملہ کرکے توڑ پھوڑ کی گئی اور پاکستانی پرچم کو اتار کر اس کی بے حرمتی کی گئی۔ جس کے بعد پاکستان نے افغانستان کے ساتھ سفارتی تعلقات منقطع کردیے اور سفارتی عملے کو واپس بلا لیا۔
55ء میں سردار داؤود وغیرہ نے پاکستان کے بارڈر پر بہت بڑے بڑے کھمبے لگائے جن پر اسپیکر لگا کر پاکستان کے خلاف پروپیگنڈہ کیا جاتا تھا۔ یہ غالباً افغانستان کی پاکستان کے خلاف پشتونوں کو بھڑکانے کے لیے پہلی ڈس انفارمیشن وار تھی جس میں ٹیکنالوجی کو استعمال کیا گیا۔ اس کی جدید ترین شکل ڈیوہ اور مشال ریڈیو ہیں جنہوں نے پی ٹی ایم کو جنم دیا۔
مئی 1955ء میں افغان حکومت نے افغان فوج کو متحرک ہونے کا حکم دے دیا۔ جس پر جنرل ایوب خان نے نے بیان جاری کیا کہ ” اگرافغانستان نے کسی قسم کی جارحیت کا ارتکاب کیا تو اسے وہ سبق سکھایا جائے گا جو وہ کھبی نہ بھول سکے”۔ جس کے بعد وہ رک گئے۔ انہی دنوں افغانستان کے لیے روس کے سفیر “میخائل وی۔ ڈگٹائر” نے جنگ کی صورت میں افغانستان کو مکمل عسکری امداد کی یقین دہانی کرائی۔
نومبر1955ء میں چند ہزار افغان مسلح قبائلی جنگجووں نے گروپس کی صورت میں 160 کلومیٹر کی سرحدی پٹی کے علاقے میں بلوچستان پر حملہ کر دیا۔ پاک فوج سے ان مسلح افغانوں کی چھڑپیں کئی دن تک جاری رہیں۔
مارچ 1960ء میں افغان فوج نے اپنی سرحدی پوزیشنز سے باجوڑ ایجنسی پر مشین گنوں اور مارٹرز سے گولی باری شروع کر دی۔ جس کے بعد پاکستانی ائیر فورس کے 26 طیاروں نے افغان فوج کی پوزیشنز پر بمباری کی۔
28 ستمبر 1960 کو افغان فوج نے چند ٹینکوں اور انفینٹری کی مدد سے باجوڑ ایجنسی پر حملہ کردیا۔ پاکستان آرمی نے ایک مرتبہ پھر افغان فوج کو بھاری نقصان پہنچاتے ہوۓ واپس دھکیل دیا۔
1960ء کے دوران پاکستانی فضائیہ کی افغان فوج پر بمباری وقفے وقفے سے جاری رہی۔
1960ء میں ہی افغانستان میں پاکستان کے خلاف شیر محمد مری کے دہشت گردی کے ٹریننگ کیمپس بنے۔
مئی 1961ء میں افغانستان نے باجوڑ، جندول اور خیبر پر ایک اور محدود پیمانے کا حملہ کیا۔ اس مرتبہ اس حملے کا مقابلہ فرنٹیر کور نے کیا اور اس دفعہ بھی پاکستانی فضائیہ کی بمباری نے حملے کا منہ موڑ دیا۔ افغان حکومت نے حملے کی حقیقت سے انکار کردیا۔
جولائی 1963ء میں ایران کے بادشاہ رضاشاہ پہلوی کی کوششوں سے پاکستان و افغانستان نے اپنی سرحدیں کھول کر تعلقات بحال کر لیے۔ اس کے بعد دو سال تک امن رہا۔
1965ء میں انڈیا نے پاکستان پر حملہ کیا تو افغانستان نے موقع غنیمت جان کر دوبارہ مہند ایجنسی پر حملہ کر دیا۔ لوگ حیران رہ گئے کہ انڈیا نے افغانستان کی طرف سے کیسے حملہ کر دیا ہے۔ بعد میں پتہ چلا کہ یہ افغانیوں نے کیا ہے۔ اس حملے کو مقامی پشتونوں نے پسپا کر دیا۔
1970ء میں افغانستان نے اے این پی والوں کے ” ناراض پشتونوں” اور بلوچوں کے ٹریننگ کیمپس بنائے۔ عدم تشدد کے نام نہاد علمبردار اجمل خٹک اور افراسیاب خٹک ان کیمپس کا حصہ تھے۔
1971ء میں جب کے جی بی انڈیا کے ساتھ ملکر پاکستان کو دولخت کر رہی تھی تو اس کے ایجنٹ افغانستان میں بیٹھا کرتے تھے۔ اس وقت افغانی اعلانیہ کہا کرتے تھے کہ دو ہونے کے بعد اب پاکستان کے چار ٹکڑے ہونگے۔
1972ء میں اے این پی کے اجمل خٹک نے افغانستان کی ایماء پر دوبارہ پشتونستان تحریک کو منظم کرنے پر کام شروع کر دیا۔
تاہم اس وقت تک افغانستان کو اندازہ ہوچکا تھا کہ پشتونستان تحریک بری طرح سے ناکام ہوچکی ہے اس لیے اس نے اب بھارت کے ساتھ مل کر “آزاد بلوچستان” تحریک کو بھڑکانا اور بلوچ علیحدگی پسندوں کی عسکری تربیت شروع کردی۔ تاہم پشتونستان کے نام پر بھی افغان تخریب کاریاں جاری رہی۔
افغانستان کی طرف سے مسلسل سازشوں اور پاکستان مخالف سرگرمیوں کے بعد بالآخرپاکستان کے وزیراعظم ذوالفقار بھٹو نے پہلی مرتبہ جواباً افغانستان کے خلاف منظم خفیہ سرگرمیاں شروع کرنے کا فیصلہ کیا۔
1973ء میں پشاور میں افغان نواز عناصر نے پشتونستان تحریک کے لیے “پشتون زلمی” کے نام سے نئی تنظیم سازی کی۔
1974ء میں افغانستان نے ” لوئے پشتونستان” کا ڈاک ٹکٹ جاری کیا۔ تصویر پوسٹ کے ساتھ ہے۔
فروری 1975ء میں افغان نواز تنظیم “پشتون زلمی” نے خیبرپختونخواہ کے گورنر حیات خان شیرپاو کو بم دھماکے میں شہید کردیا۔ (بحوالہ کتاب “فریب ناتمام” از جمعہ خان صوفی)
28 اپریل 1978ء میں روسی پروردہ کمیونسٹ جماعت “پیپلز ڈیموکریٹک پارٹی افغانستان” نے روسی اسلحے اور چند روسی طیاروں کی مدد سے کابل میں بغاوت برپا کردی جسے “انقلاب ثور” کا نام دیا گیا۔ اس کے نتیجے میں صدر داؤد سمیت ہزاروں افغانوں کو بیدردی سے ہلاک کردیا گیا اور افغانستان پر کمیونسٹ حکومت قائم کردی گئی۔ کمیونسٹ صدر نجیب نے اقتدار سنبھالتے ہی ” لوئے پشتونستان” کی عام حمایت کا اعلان کردیا۔
1979ء میں افغان عوام کمیونسٹ حکومت کے خلاف پوری طاقت سے کھڑے ہوگئے اور کمیونسٹ نجیب ہزاروں افغانوں کا قتل عام کرنے کے باوجود عوامی انقلاب کو روک نہ سکا۔ اپنی حکومت کو خطرے میں دیکھ کر نجیب نے روس کو افغانستان پر حملہ کرنے کی دعوت دے دی۔ 24 دسمبر 1979ء کو روس نے افغانستان پر حملہ کردیا۔ روسی پورے افغانستان کو روندتے ہوئے تورخم بارڈر تک پہنچ گئے اور اعلان کیا کہ وہ دریائے سندھ کو اپنا بارڈر بنائیں گے۔ یعنی بلوچستان اور کے پی کو لے لینگے۔
روسی و افغان کمیونسٹ افواج نے افغانستان میں قتل و غارت کا وہ بازار گرم کیا جسکی تاریخ میں مثال نہیں ملتی۔پاکستان نے اس موقع پر تیس لاکھ سے زیادہ افغانوں کو پناہ اور تحفظ دیا اور روس کے خلاف برسرپیکار افغان مجاہدین کی مکمل مدد کی۔
1980ء میں افغانستان میں پیپلز پارٹی کی الذولفقار نامی دہشت گرد تنظیم کے ٹریننگ کیمپس بنے۔ اسی تنظیم نے مبنیہ طور پر پاکستان کے صدر جنرل ضیاء الحق کو پاک فوج کے سترہ جرنیلوں سمیت شہید کر دیا۔
79ء سے 89ء تک روسی فضائیہ نے کئی مرتبہ پاکستانی سرحدی علاقوں پر بمباری کی۔ کے جی بی اور افغان ایجنسی خاد نے اے این پی کی مدد سے پاکستان میں دہشتگردی کی متعدد کارروائیاں کیں جن کے نتیجے میں سینکڑوں پاکستانی زیادہ تر پشتون شہید ہوۓ۔
2006ء سے اب تک افغانستان کی نئی ایجنسی این ڈی ایس بھارتی ایجنسی را کے ساتھ ملکر پاکستان میں ٹی ٹی پی سمیت کوئی پچاس کے قریب مختلف دہشت گرد تنظیموں کو سپورٹ کر رہی ہے۔ ان تمام تنظیموں کی مشترکہ کارائیوں میں اب تک 60،000 پاکستانی اپنی جانیں گنوا چکے ہیں بڑی تعداد پشتون، تین لاکھ سے زائد زخمی ہوئے اور ہزاروں اب بھی آئی ڈی پیز کی شکل میں بے گھر ہیں۔ پاکستان کو کم از کم 100 ارب ڈالر کا نقصان ہوچکا ہے۔
ان پندرہ سالوں میں افغانستان نے پاکستان میں جو دہشت گردانہ حملے کرائے ان کا احاطہ کرنا ایک مضمون میں ممکن نہیں۔
اسی عرصے میں امریکہ نے افغانستان میں فاٹا اور بلوچستان کی سرحدوں پر ڈیوہ اور مشال کے نام سے اپنی خصوصی ریڈیو سروس کا آغاز کیا جن کا تقریباً سارا عملہ افغانیوں پر مشتمل ہے یا لوئے پشتونستان کے علمبرداروں پر۔ ان ریڈیو چینلز نے ان دونوں علاقوں میں پشتونوں کو پاکستان اور افواج پاکستان کے خلاف بھڑکانا شروع کردیا۔
افغانستان نے پاکستان میں جو دہشت گردانہ حملے کیے ان میں سب سے بڑا حملہ 16 دسمبر 2014 کو اے پی ایس پر کیا گیا جس میں بھارتی را اور افغان این ڈی ایس کے پلان پر7 افغان دہشتگردوں نے پشاور میں آرمی پبلک سکول پر حملہ کیا جس میں 150 بچوں اور اساتذہ کو بیدردی سے شہید کردیا۔
جون 2016ء میں افغان نیشنل آرمی نے تورخم بارڈر پر گیٹ لگانے والی پاک فوج پر حملہ کر دیا اور پاک فوج کے میجر علی جواد خان کو شہید کر دیا۔ پاک فوج کے جوابی حملے میں افغان فورسز اپنی چیک پوسٹیں اور قلعہ تک چھوڑ کر فرار ہوگئیں۔
بعد میں زخمی فوجیوں کا علاج کرنے پاکستان سے درخواست کی جو پاکستان نے قبول کر لی۔
5 مئی 2017ء کو بھارت کی شہ پاکر افغان نیشنل آرمی نے چمن، بلوچستان پر بھاری ہتھیاروں سے حملہ کردیا جس میں 2 پاکستانی فوجی اور 9 پاکستانی سویلینز ( پشتون) شہید جبکہ 40 کے قریب زخمی ہوۓ۔ جواباً پاک فوج کے حملے میں 50 افغان فوجی ہلاک اور 5 ملٹری پوسٹس تباہ ہوئیں۔
اس کے علاوہ ہر چند دن کے وقفےکے بعد دہشتگرد افغان سرزمین سے پاکستانی سرحدی پوسٹوں پر مسلسل حملے کررہے ہیں۔
فاٹا، بلوچستان اور کے پی کے میں آپریٹ کرنے والی تمام دہشت گرد تنظمیوں کے مراکز افغانستان میں ہیں اس بات سے کسی کو انکار نہیں ہوسکتا۔
دوسری جانب ڈیوہ اور مشال کی مسلسل محنت رنگ لے آئی۔ اور عین اس وقت جب افغانستان کی بہت بڑی پراکسی کو شکست دینے کے بعد فاٹا میں دوبارہ آباد کاری اور تعمیر نو کا عمل جاری تھا 2018ء میں ایک بار پھر وزیرستان سے پشتونوں کی نئی تحریک لانچ کی گئی پی ٹی ایم کے نام سے۔ افغان صدر اور افغان پارلیمنٹ نے ان کی اعلانیہ حمایت کی۔ افغانیوں نے افغانستان سمیت دنیا بھر میں اس تحریک کے حق میں مظاہروں کا سلسلہ شروع کردیا۔ یوں اس کو پشتونوں کی عالمی تحریک کے طور پر پیش کرنے کی کوشش کی۔
اسی تحریک میں ” پاکستان مردہ باد” ۔۔ ” اسرائیلی آرمی زندہ باد” ۔۔ ” دہشت گردی کے پیچھے وری” ۔۔ ” لرو بر یو پشتون ( لوئے پشتونستان ) اور پاکستان سے آزادی کے نعرے لگانے شروع کر دئیے گئے۔ افغان شعراء نے اس کے حق میں شاعری کی، غزلیں لکھیں، افغان مصوروں نے تحریک کے لیے مفت میں آرٹ تخلیق کرنا شروع کیا۔ جس کو سوشل میڈیا پر وائرل کیا گیا۔ پونی والی تاجک ٹوپی جو اس سے پہلے پاکستانی پشتون علاقوں میں نہ کبھی کسی نے دیکھی نہ پہنی کو تحریک کی علامت بنا کر مفت تقسیم کیا گیا۔
وہ افغانی جو پاکستان میں رہتے ہیں یا جنہوں نے پاکستانی یونیورسٹیوں میں پڑھ کر اردو سیکھ لی ہے نے جعلی اکاؤنٹس بنا کر بہت بڑے پیمانے پر اس نئی تحریک کو سپورٹ کرتے ہوئے پاکستان مخالف پراپیگینڈا شروع کردیا۔
پی ٹی ایم مخالفین یا پاکستان کے حامیوں کو نشانہ بنایا جانے لگا۔ ملک ماتوڑکے، ملک عباس اور ایس پی طاہر داؤڑ اس کی چند مثالیں ہیں۔
ایس پی طاہر داؤڑ کو این ڈی ایس کا اہلکار ورغلا کر افغانستان لے گیا اور پھر افغان حکومت نے اس کو قتل کرنے کے بعد اس کی لاش پاکستان کے حوالے کرنے سے انکار کر دیا۔ وہ لاش پی ٹی ایم کے حوالے کی گئی۔
چند دن پہلے جب پاک فوج نے انڈین طیارے گرائے تو تمام افغان سوشل میڈیا نے انڈیا کے ساتھ اظہار یکجہتی کیا اور جنگ کی صورت میں انڈیا کا ساتھ دینے کا اعلان کیا۔
افغانستان میں ہی این ڈی ایس اور ملا تور کے زیر قیادت ایک خفیہ میٹنگ کا انکشاف ہوا جس میں ٹی ٹی پی نے انڈین جہاز گرانے پر پاکستان سے بدلہ لینے کا فیصلہ کیا۔
فاٹا طلباء کے لیے مفت داخلوں کا اعلان کیا۔ جو طلباء اس جھانسے میں آکر افغانستان گئے انکا ابھی تک کوئی پتہ نہیں چلا۔
دو دن پہلے پکتیکا میں وزیرستان کے اٹھ لوگوں کو محض اس لیے شہید کر دیا گیا کہ وہ پاکستانی تھے۔ ایک دو سال پہلے بھی ایک افغانی فوجی نے اسی طرح پاکستانی پشتونوں کو قتل کر دیا تھا جو مزدوری کرنے افغانستان گئے تھے اور پھر اس کی ویڈیو بنا کر شیر کر دی تھی۔
بقول حسن خان صاحب کے” کسی کا صرف پاکستانی پشتون ہونا افغان فوج کو اس کے قتل کا لائسنس دے دیتا ہے” ۔۔
یہ ہے افغانستان کی پاکستان میں دہشت گردیوں اور دراندازیوں کی تاریخ جنہوں نے نہ کبھی پاکستان کو سکھ کا سانس لینے دیا نہ پشتونوں کو۔
اگر پی ٹی ایم کو افغانستان کی یہ دراندازیاں نظر نہیں آرہیں تو مان لیجیے کہ پی ٹی ایم درحقیقت سرشتہ گروپ، پشتون زلمی اور ٹی ٹی پی کی تازہ قسط ہے۔ افغانیوں، اچکزئیوں اور پی ٹی ایم والوں سےسوال کر کے دیکھ لیں ۔ سوشل میڈیا سے لی گئی ایک تحریر۔--امین اکبر (تبادلۂ خیال • شراکتیں) 09:47، 2 جولائی 2019ء (م ع و)
ایک تحریر
ترمیمفیس بک سے لی گئی ایک تحریر۔ اقوام متحدہ میں واحد ملک جس نے پاکستان کے وجود کی مخالفت کی تھی وہ افغانستان ہی تھا ـ وجود اور وسائل کے لحاظ سے دیکھا جائے تو افغانستان پاکستان کا انڈیا سے بڑا دشمن ہے ، اس نے پاکستان کو مٹانے کے لئے اپنی استطاعت سے بڑھ کر کوشش کی ، پہلے یہ بارڈر پر چھیڑ چھیڑ کرتے ہیں پھر کوشش کرتے ہیں کہ پشتوں بیلٹ میں ہمارے خلاف کوئی تحریک چلا کر وہاں کے قبائلیوں کو اندر سے وار کرنے پر آمادہ کریں ـ
1947 میں پاکستان کے بارے میں تھرڈ جون پلان آتے ہی افغانستان نے پشتون بیلٹ کو پاکستان میں شامل ھونے سے روکنے کے لئے سعی و جہد شروع کر دی تھی ، اس وقت کے بادشاہ ظاھر شاہ کے دوست نجیب اللہ نے پشتونستان تحریک کی پلاننگ کی وہ پشتون بیلٹ کو ساتھ ملا کر الگ سے ایک پشتون اکائی بنانا چاہتا تھا ، افغانستان میں پشتون ایک بڑی قوم ہے مگر افغانستان میں تاجک اور ازبیک سمیت دیگر کئ قومیں بھی آباد ہیں جن کے ساتھ پشتونوں کی چپقلش کی اپنی تاریخ ھے ، افغانستان میں پشتون اس بڑی تعداد میں ھونے کے باوجود ہمیشہ پسا ھو طبقہ ہی رھا ھے اور حکومت پر گرفت ہمیشہ دوسرے گروپس کو حاصل رھی ھے تعلیم یافتہ فارسی اسپیکنگ بیوروکریسی پر غالب رھے اور بزنس پر بھی قابض رھے جبکہ پشتون مزدور طبقہ ھی رھا ، زار کا زمانہ ھو یا سوفیت یونین کا دور ، فارسی اسپیکنگ بزنس مین اور افغان فارسی اسپیکنگ بیوروکریسی روس کے بہت قریب رھے اور اپنی جڑیں مضبوط کرنے میں لگے رھے افغانستان کی معیشت انہی تاجکوں ازبکوں اور فارسی اسپیکنگ جبکہ پشتونوں کے حالات ہمیشہ دگرگوں رہے ،ان کے علاقوں میں ترقی بھی نہ ہوئی اور تعلیم کا حال بھی بہت برا رھا ـ یہ تعداد کے لحاظ سے افغانستان کے پنجابی ہیں مگر وسائل پر قبضہ ہمیشہ تاجک ھزارہ ، ازبک اور دیگر فارسی بولنے والی قوموں کا رھا ، افغانستان نے پشتونوں کو ہمیشہ یہی پٹی پڑھائی کہ آپ کی ترقی پاکستان کے پشتون علاقوں کے افغانستان کے ساتھ الحاق سے جڑی ہوئی ہے ، پشتون علاقوں کے افغانستان کے ساتھ الحاق کے ساتھ پشتونوں کے لئے دنیا جنت بن جائے گی وغیرہ وغیرہ ـ ۲۱ جون ۱۹۴۷ میں اعلانِ بنوں کے نام سے باچا خان ، نجیب اللہ دستِ راست ظاھر شاہ اور دوسرے لوگوں نے اعلان کیا کہ وہ اس ریفرینڈم کے نتائج کو تسلیم نہیں کرتے جو انگریز وائسرائے لارڈ ماؤنٹ بیٹن نے N W F P ع میں کرایا تھا اور جس میں ۹۹ فیصد پشٹونوں نے پاکستان میں شمولیت کا عندیہ دیا تھا ، جبکہ فاٹا کو اس ریفرنڈم سے الگ رکھ کر ایک آزاد حیثیت دے دی گئ اور فیصلہ ان کے ہاتھ میں دے دیا گیا ، قائد اعظم نے فاٹا کے تمام قبائل کے سرداروں اور عمائدین سے ملاقاتیں کیں اور انہیں یہ یقین دلایا کہ پاکستان ان کے مسائل سے بخوبی آگاہ ھے جن کو حل کیا جائے گا ، فاٹا نے بھی اپنی مرضی کے ساتھ پاکستان کے ساتھ الحاق کا فیصلہ کیا ـ لہذا اگر قائد زندہ رھتے تو یہ فاٹا شاید پاکستان کا سب سے زیادہ ترقی یافتہ علاقہ ھوتا کیونکہ یہاں کے لوگ نہایت ذھین ،معاملہ فہم اور قوتِ فیصلہ رکھنے والے زرخیز ذھن کے مالک اور پاکستان کے ایسے وفادار تھے کہ پاکستان کو کبھی اس بارڈر پر فوج رکھنے کی ضرروت محسوس نہ ھوئی اور یہ خود ہی پاک فوج کا بہترین متبادل تھے ـ اگست ۱۹۴۷ میں قائد اعظم نے بیان دیا کہ پاکستان ہمیشہ اپنے بھائی افغانستان کو ساتھ لے کر چلے گا ، وہ افغانستان جس کے ساتھ ہماری دلی ہمدردیاں ہیں اور ہم ان کو اپنے جسد کی طرح عزیز رکھتے ہیں ،، اس خیر سگالی کے پیغام کے باوجود ستمبر ۱۹۴۷ میں ہی افغانستان وہ واحد ملک تھا جس کے نمائندے اور وزیر مہتاب علی شاہ جو فارسی اسپیکنگ کمیونٹی سے تعلق رکھتا تھا اس نے اقوامِ متحدہ میں پاکستان کے وجود کے خلاف ووٹ دیا ـ
شاہ ظاھر شاہ کا دستِ راست سردار نجیب اللہ نومبر ۱۹۴۷ میں شاہ کا ایلچی بن کر کراچی آتا ھے جو اس وقت پاکستان کا دارالخلافہ تھا ، کراچی میں اسٹیٹ گیسٹ کے طور پر اس کا پرتپاک اور شاندار استقبال کیا جاتا ھے گویا وہ ایک ایلچی نہیں بلکہ خود بادشاہ یا صدر مملکت ھو، قائدِ اعظم خود اس سے ملتے ہیں ، مگر یہ سانپ اصل میں پاکستان کو دھمکانے کے لئے آیا تھا ، اس نے قائدِ اعظم کے سامنے نہایت رعونت کے ساتھ تین مطالبات رکھے ، اور انداز الٹی میٹم والا تھا کہ یہ تم کو کرنا ہی ھو گا، ورنہ ہم تمہارے خلاف فوجی کاروائی بھی کر سکتے ہیں ـ یہ مطالبات نجیب اللہ نے باقاعدہ ریڈیو کابل سے براہ راست خطاب میں بیان کیئے کہ ھم نے یہ تین مطالبات پاکستان کے سامنے رکھے ہیں جن کو پورا کر کے ہی پاکستان ہم سے تعلقات کی امید کر سکتا ھے ورنہ ہم اس کے وجود کو نہ تو تسلیم کریں گے اور نہ اس کی گارنٹی دیں گے
۱۔ فاٹا کو آزاد کر کے افغانستان کے حوالے کر دیا جائے ـ
۲ ـ چمن سے جنوب میں گوادر تک جو اس وقت عمان کے زیر تسلط علاقہ تھا ہمیں ۱۰۰ میل چوڑا کوریڈور فراھم کیا جائے جس پر افغانستان کا مکمل کنٹرول ھو، اور جس میں افغانی قانون اور کرنسی لاگو ہو یوں اس کے ذریعے ہمیں سمندر تک رسائی دی جائے ـ
۳ ـ کراچی کی بندرگاہ پر افغان فری زون قائم کیا جائے جو پاکستان کے قانون سے مبرا ھو اور جس پر مکمل افغانی کنٹرول ھو تا کہ ہم اپنی درآمدات و برآمدات کے لئے اس کو بلا روک ٹوک استعمال کر سکیں ـ
جس قدر یہ مطالبات توھین آمیز اور آمرانہ ذہنیت کے حامل تھے اسی طرح ان کو پیش کرنے کا انداز بھی اشتعال انگیز تھا ، یہ صاف صاف بھتہ لینے والی لینگویج تھی ـ ایک نیا ملک جس کے پاس وسائل کی کمی ھے ،جس کی بیوروکریسی ابھی اپنے آپ کو سنبھالنے میں لگی ھے اور جس کو ھند سے ابھی اپنے اثاثہ جات تک نہیں ملے ، مہاجرین کا سیلاب تھا جس کو کسی طرح ہینڈل کرنے کی کوشش کی جا رھی تھی ، پاکستان کے پاس ہتھیار نام کی کوئی چیز نہیں تھی ،الغرض ایک مسلمان ملک ھوتے ہوئے افغانستان ایک نومولود مسلم ملک کو دھمکا کر اور ہراساں کر کے اس سے اپنے ناجائز مطالبات مذاکرات سے نہیں بلکہ دھونس اور دھمکی سے ڈان کے لہجے میں پیش کرتا ہے ـ لوگ کہتے ہیں کہ انڈیا افغانستان کو پاکستان کے خلاف استعمال کرتا ھے جبکہ حقیقت یہ ھے کہ افغانستان اپنی دشمنی نکالنے کے لئے انڈیا کو استعمال کرتا ھے ،وہ انڈیا سے پہلے کا پاکستان کا دشمن ہے ـ
قائد اعظم نے بڑے صبر کے ساتھ ان کی یاوہ گوئی کو سنا اور نہایت نرم لہجے میں ان کو دوٹوک جواب دے دیا کہ سوری ان میں سے کوئی بات بھی قابلِ عمل نہیں ہے ـ نجیب اللہ صاحب واپس تشریف لے گئے اور ریڈیو کابل سے براہ راست دھمکی آمیز خطاب کیا ـ ۱۹۴۸ میں ایک دفعہ پھر پاکستان کو یو این او کا رکن بنانے کی قرار داد پیش کی گئ افغانستان نے پھر اس کی مخالفت کی مگر اس دفعہ امریکہ اور دیگر بڑے ممالک کے دباؤ پر پاکستان کو رکن بنا لیا گیا ـ
1949 میں افغان لویا جرگہ بلا کر پاکستان کے وجود کا انکار کیا گیا اور کہا گیا کہ لویا جرگہ نے فیصلہ کیا ھے کہ وہ ڈیورنڈ لائن معاہدہ جو برطانیہ کے ساتھ کیا گیا تھا اس کو ہم منسوخ کرتے ہیں اور اب وہ تمام علاقے جن میں پشتون بستے ہیں ان کو پاکستان کا حصہ نہیں سمجھتے یعنی وہ افغان علاقے ہیں ـ یہ مجرد بدمعاشی تھی ، سفارتی اور اخلاقی لحاظ سے اس اعلان کی کوئی اھمیت نہیں تھی لہذا نہ تو پاکستان نے اس کو قبول کیا اور نہ ہی بین الاقوامی برادری نے اس کو کوئی اہمیت دی ـ
اس کے بعد ۱۹۴۹ میں ایک افغان مرزا علی خان جو پہلے خان عبدالغفار خان کے ساتھ دیکھا جاتا تھا اور پھر کچھ عرصے کے لئے زیر زمین چلا گیا تھا ، اچانک نمودار ھوا اور اس نے پاکستان کے خلاف مسلح کارروائیاں شروع کر دیں ، اس کی کاروائیاں وزیرستان سے شروع ھو کر کوھاٹ تک تھیں وہ چن چن کر ان عمائدین کو ٹارگٹ کرتا جنہوں نے ریفرنڈم میں پاکستان کے حق میں رائے عامہ ہموار کی تھی ـ یہ توچی کے علاقے میں زخمی ھوا اور خوست میں اپنی طبعی موت مرا جبکہ اس کے دو بیٹے گلزار علی اور میرزمان بھی اس کے ساتھ ھوتے تھے ایک فوج کے ہاتھوں مارا گیا دوسرے کا کوئی پتہ نہ چلا ،۔
اس کے بعد ستمبر 1949 میں افغانستان نے اپنی پوری فورس اور لوکل ملیشیا کے ساتھ چمن کی طرف سے پاکستان پر بھرپور حملہ کیا ـ سپن بولدک سے لے کر پاکستان کے اندر ۳۰ کلومیٹر کا علاقہ وقتی طور پر کنٹرول میں کر لیا کیونکہ پاکستان نے اس علاقے میں کوئی فوج یا فورس نہیں رکھی تھی ـ پاکستانی فورسز کو علاقے میں بھیجا گیا ، 6 دن تک مسلسل دست بدست جنگ کے بعد افغانوں کو پاکستانی علاقے سے کھدیڑ دیا گیا اور مزید چھ دن میں اسپن بولدک بھی پاکستانی فورسز کے قبضے میں آ گیا ، یہ ٹوٹے پھوٹے آلات اور قدیم اسلحے سے لیس پاک فوج تھی جس نے گُھس بیٹھیوں کو تہس نہس کر دیا ـ اس کے بعد کبھی بھی افغان فوج میں پاکستان کا سامنا کرنے کی جرآت نہ ھوئی اور وہ سازشیں اور دھشتگردانہ کاروئیاں کرتے رھے ـ ان چھ دنوں میں افغان میڈیا بالکل ویسی ہی زبان بولتا رھا جیسی ایٹمی دھماکوں کے بعد انڈین قیادت بولتی رھی جب تک کہ ہم نے جوابی دھماکے کر کے ان کی بولتی بند نہ کر دی ، افغان میڈیا کے بقول چمن سے آگے کراچی ان کی منزل تھی اور وہ دنیا کو نوید سنا رھے تھے کہ بہت جلد پاکستان کا دارالخلافہ ان کے قبضے میں ھو گا ـ
مگر جب پاکستان نے اسپن بولدک بھی لے لیا تو یہی لوگ منتیں ترلے کرنے لگے اور کئ عمائدین کو درمیان میں ڈال کر علاقہ واپس لینے کی کوششیں شروع کر دیں ـ اسپن بولدک واپس لینے کے بعد افغانستان نے ۱۹۵۰ میں انڈیا کے ساتھ دوستی کا معاہدہ کیا جس کا ایک نقاطی ایجنڈہ تھا کہ پاکستان کو کسی بھی طرح گھیر کر ختم کرنا ہے ـ ۱۹۵۵ میں سردار داؤود وغیرہ نے پاکستان کی بارڈر پر بہت بڑے بڑے کھمبے لگائے جن پر اسپیکر لگا کر پاکستان کے خلاف پروپیگنڈہ کیا جاتا اور پاکستانی علاقے کے پشتونوں کو مخاطب کیا جاتا ، پاکستان نے افغانی سفیر کو بلا کر ان کو سمجھایا کہ آپ اپنے لوگوں کو مخاطب فرمائیں پاکستان کے عوام کو اس طرح مخاطب کرنا قابلِ قبول نہیں ، اس کے جواب میں افغانی جتھے نے کابل میں پاک ایمبیسی پر حملہ کیا اور اس کو فتح کر کے اپنا جھنڈا لہرا دیا ـ پاکستان نے اپنا سفارتی عملہ واپس بلا لیا اور ۲ سال تک کابل کے ساتھ سفارتی تعلقات منقطع رکھے ـ
اس کے بعد ستمبر 1960 میں افغانوں نے ایک قبائیلی لشکر ترتیب دے کر باجوڑ ایجنسی پر حملہ کیا ،، ان کو مغالطہ یہ دیا گیا تھا کہ جونہی تم بارڈر کراس کرو گے قبائیلی پشتون تمہارے شانہ بشانہ کھڑے ھونگے ، اور یہ مغالطہ اب بھی لوگوں کو دیا جاتا ھے ،مگر حقیقت یہ ھے کہ چند مٹھی بھر لوگ ہیں جن کا اپنا ایجنڈہ ھے ۹۹ فیصد قبائلی پاکستان سے ماں کی طرح ٹوٹ کر پیار کرتے ہیں ـ پاکستان کی اس علاقے میں کوئی فوج نہیں تھی ، پاکستانی فضائی امداد کے پہنچے تک سالارزئی قبیلہ 14 دن تک سدِ سکندری بن کر ان حملہ آوروں کے سامنے کھڑا رھا ، اس جنگ میں پاک فضائیہ نے بہترین کارکردگی دکھائی ہمارے لوگوں نے سی ون تھرٹی طیاروں کو اس طرح موڈیفائی کیا کہ ان کارگو جہازوں کو بمبار بنا دیا ، اور نہایت نچلی پروازیں کر کے اس لشکر پر کارپٹ بمباری کی ، یہ وہ بمباری تھی جو بین الاقوامی طور پر بڑی مشہور ھوئی اور بعض ائیرفورس اکیڈیمیز مین بطور اسٹریٹیجی پڑھائی جاتی رھی ـ اس معرکے میں پاکستان فضائیہ نے حصہ لیا جبکہ زمینی طور پر افرادی قوت ساری سالار زئی قبیلے کی استعمال ھوئی جنہوں نے ۱۵۰ افغانیوں کو گرفتار بھی کر لیا جبکہ مرنے والوں کی بہت بڑی تعداد تھی جن کو پاک فضائیہ نے کارپٹ بمننگ کا کا نشانہ بنایا ،
بیگن دلی کے علاقے میں پاکستان کی یہ ائیر وارفیئر ایم ایم عالم والے واقعے کی طرح بین الاقوامی طور پر ائیر کالجز میں پڑھائی جاتی رھی ، اس کے بعد افغانوں نے کبھی ایسی کارورائی کرنے کی جرأت نہیں کی ـ پشتونوں کو خود افغانستان میں جو حقوق حاصل ہیں وہ ان کے ملک سے فرار ھو کر پاکستان میں بسنے اور واپس بھیجے جانے کی بات پر خودکشی کی دھمکیاں دینے سے واضح ھے ، افغانی پشتونوں کے لئے پاکستان دبئ یا یورپ سے کم نہیں ، فارسی حکومتوں نے ہمیشہ پشتونوں کو دو نمبر شہری ہی سمجھا ھے ، اور انہی کبھی دل سے قبول نہیں کیا ـ ایک پشتون کو صدر بنا لینے سے افغانستان کے پشتونوں کو حقوق نہیں مل گئے ـ وہ وہاں شودر کی طرح ڈیل کیئے جاتے ہیں جن کے بس مخصوص کام ہیں جو فارسی النسل کرنے کو تیار نہیں ـ۔--امین اکبر (تبادلۂ خیال • شراکتیں) 15:05، 16 اپریل 2018ء (م ع و)
مداخلت کون کرتا ہے ۔۔۔۔ پاکستان یا افغانستان؟
ترمیمجب بھی افغانستان کا مسئلہ زیر بحث آتا ہے، ہمارے قوم پرست اور دانشور یہی رونا روتے نظر آتے ہیں کہ پاکستان کی طرف سے افغانستان میں مداخلت نہیں ہونی چاہیے۔ کہنے اور سننے میں تو یہ نہایت مناسب بات ہے لیکن کیا اس کا حقیقت سے بھی کوئی واسطہ ہے؟ ۔۔۔۔۔۔۔۔ ہرگز نہیں ! تاریخ کے وہ Known Facts جو پوری دنیا کو معلوم ہیں لیکن ہمارے قوم پرست ان کی طرف سے آنکھیں بند رکھتے ہیں، نئی نسل کی یاد دہانی کے لیے پھر سے پیش خدمت ہیں۔ افغانستان نام کا ملک قدیم تاریخ میں کوئی وجود نہیں رکھتا تھا۔ اسے اپنے وقت کی دو سپر پاورز یعنی روس اور برطانیہ نے انیسویں صدی میں اپنے درمیان ایک بفر زون کے طور پر بنایا تھا۔ اس وقت پاکستان موجود ہی نہیں تھا لیکن پھر بھی یہ ہمارا قصور ہے 😌 افغانستان کی برطانوی ہند کے ساتھ سرحد کا تعین انیسویں صدی کے اواخر اور بیسویں صدی کے آغاز میں ہوا (1893 - 1919) لیکن یہاں بھی ذمہ دار پاکستان ہے 😂 پہلی جنگ عظیم کے بعد لیگ اَو نیشنز میں افغانستان نے کبھی ڈیورنڈ لائن کا مسئلہ نہیں اٹھایا ۔۔۔۔ پاکستان نے منع کیا تھا 😜 دوسری جنگ عظیم کے بعد افغانستان 19 نومبر 1946 کو اقوام متحدہ کا باقاعدہ رکن بنا لیکن اس نے یہاں بھی ڈیورنڈ لائن کا معاملہ نہیں اٹھایا ۔۔۔۔ پاکستان نے روکا تھا 😉 عبدالغفار خان عرف باچا خان تین دہائیوں سے کانگریس اور گاندھی کا دم بھر رہے تھے لیکن اعلان آزادی ہند (3 جون پلان) سے پہلے انہوں نے کبھی ڈیورنڈ لائن کو مٹا کر افغانستان کو برٹش انڈیا میں شامل کرنے یا انگریزوں کی طرف سے پنجاب کو کاٹ کر بنائے گئے شمال مغربی سرحدی صوبے کو برٹش انڈیا سے الگ کر کے افغانستان میں شامل کرنے کا مطالبہ نہیں کیا۔ یہ مطالبہ پہلی بار قرارداد بنوں میں 21 جون 1947 کو سامنے آیا جب کانگریس باچا خان کو لفٹ کرائے بغیر تقسیم ہند کے منصوبے کو تسلیم کر چکی تھی۔ گویا متحدہ ہندوستان کی درجنوں قومیتوں میں رہنا قبول تھا لیکن پاکستان کی چار پانچ قومیتوں کے ساتھ نہیں 😂 وہ افغانستان جو دہائیوں سے ڈیورنڈ لائن کو سرحد تسلیم کر چکا تھا، اسے قیام پاکستان کے بعد یاد آیا کہ پاکستان کو تسلیم نہ کر کے ڈیورنڈ لائن کو متنازعہ بنایا جانا چاہیے، شاید اس طرح کشمیر کی جنگ میں الجھا نوزائیدہ ملک انہیں کچھ علاقہ دے دے گا۔ اس مقصد کے لیے افغان حکومت نے پشتون قوم پرستوں اور علیحدگی پسندوں کو ہتھیار فراہم کرنے سلسلہ شروع کیا جس میں فقیر ایپی بھی شامل تھا۔ (بحوالہ افغانستانز پولیٹیکل سٹیبیلٹی از ڈاکٹر احمد شائق قاسم)۔ ان علیحدگی پسندوں کی مدد کے لیے افغان فوج سرحد پار سے گولہ باری بھی کرتی رہتی تھی جس کے جواب میں پاکستانی فضائیہ نے ایک افغان چوکی پر بمباری کی تو 26 جولائی 1949 کو افغان حکومت نے دعویٰ کر دیا کہ ڈیورنڈ لائن سرحد نہیں بلکہ ایک "تصوراتی اور خیالی لکیر" ہے۔ چونکہ اس وقت پاکستان اور بھارت دونوں ڈومینین سٹیٹس کے تحت تاج برطانیہ کے تحت تھے لہٰذا برطانوی حکومت نے افغانستان کو یاد دلایا کہ بین الاقوامی قوانین، ویانا کنونشن اور یو این چارٹر کے تحت ڈیورنڈ لائن ہی پاکستان اور افغانستان کی سرحد ہے اور اس کے بارے میں افغان دعوے محض رطب و یابس ہیں۔ شاید یہ پاکستان کی مداخلت تھی 😌 افغان حکومت نے 1952 میں نہ صرف پاکستان کے شمال مغربی سرحدی صوبے بلکہ بلوچستان کے متعلق بھی دعویٰ کر دیا کہ یہ اس کا حصہ ہیں .... If wishes were horses, beggars would ride اس وقت پاکستان نے افغانستان میں کون سی مداخلت کی تھی؟ پچاس کی پوری دہائی میں افغانستان نے پشتون علیحدگی پسندوں کی حمایت اور مدد جاری رکھی۔ اس کام میں اسے بھارت کی آشیرواد بھی حاصل تھی۔ جب پئیرٹی کے اصول کے تحت مغربی پاکستان کو ون یونٹ بنایا گیا تو 30 مارچ 1955 کو افغان حکومت کے ایما پر کابل میں پاکستانی سفارتخانے، جلال آباد اور قندھار کے کونسلیٹس پر حملہ کر دیا گیا۔ اس کے جواب میں پاکستان نے بارڈر بند کر دیا جو اس برس ستمبر میں دوبارہ کھولا گیا۔ اس کے بعد بھی افغان حکومت اپنی حرکتوں باز نہ آئی یہاں تک 1960 میں پاکستان نے افغانستان کے لیے کراچی پورٹ کی سہولت ختم کر دی۔ یہ بھی شاید پاکستان کی افغانستان میں مداخلت تھی۔ افغان ہٹ دھرمی کے باعث حالات اس قدر کشیدہ ہوئے کہ 1961 میں دونوں ممالک کے درمیان سفارتی تعلقات منقطع ہو گئے۔ یہ انقطاع 1963 سے 1965 کے درمیان بتدریج ختم ہوا۔ مشرقی پاکستان کی علیحدگی کے بعد افغانستان کو پاکستان کی پوزیشن کمزور نظر آئی تو ایک بار پھر اس نے قوم پرستوں کی مردہ تحریک میں جان ڈالنے کی کوششوں کا آغاز کر دیا۔ ایک طرف "پختون زلمے" کے دہشت گردوں کی افغانستان میں تربیت اور انہیں اسلحے کی فراہمی شروع کی گئی تو دوسری جانب بلوچ علیحدگی پسندوں کو بھرپور مدد فراہم کی گئی۔ اس کام میں افغانستان کے ساتھ ساتھ بھارت اور سوویت یونین بھی شامل تھے۔ کوئی دانشور بتا دے کہ اس وقت تک پاکستان نے کسی ایک افغانی کو بھی کسی قسم کی تربیت دی تھی یا اسے افغان حکومت و ریاست کے خلاف ہتھیار اٹھانے پر آمادہ کیا تھا؟ جب 9 فروری 1973 کو اسلام آباد کے عراقی سفارتخانے پر پاکستانی فورسز نے آپریشن کر کے روسی اسلحے کی بھاری کھیپ برآمد کی تو معلوم ہوا کہ پختون اور بلوچ علیحدگی پسندوں کو افغانستان کے ساتھ ساتھ سوویت یونین بھی سپورٹ کر رہا ہے۔ جب ان دہشت گردوں کے خلاف بھٹو حکومت نے فوجی آپریشن شروع کیا تو ان کے بڑے رہنماؤں نے فرار ہو کر افغانستان ہی میں پناہ لی تھی۔ یہ وہ پہلا موقع تھا جب بھٹو مرحوم نے یہ فیصلہ کیا کہ آئے روز کی افغان دخل اندازی کو روکنے کے لیے افغانستان کے اسلام پسندوں کی مدد کی جائے جو سوویت یونین کے زیر اثر افغان حکومت کو اندرونی طور پر مصروف رکھ سکیں۔ یہ افغان پالیسی جسے وزیر اعظم بھٹو، سیکرٹری خارجہ آغا شاہی اور فوجی قیادت نے طویل صلاح مشورے کے بعد وضع کیا تھا، آج بھی کار آمد ہے کیونکہ ہمیں مشرقی سرحد پر ایک بڑے دشمن کا سامنا ہے اور ہم اس دشمن کو اپنی مغربی سرحد پر بھی اثر رسوخ قائم کرنے کی کھلی اجازت نہیں دے سکتے۔ سردار داؤد کو انقلاب ثور میں قتل کر دیا جائے، نور محمد ترکئی، حفیظ اللہ امین، ببرک کارمل اور ڈاکٹر نجیب ایک دوسرے کو مارتے کاٹتے رہیں تو کیا یہ پاکستان کی مداخلت ہے؟ کارمل اور نجیب لاکھوں افغانوں کو قتل کر دیں تو کیا یہ پاکستان کا جرم ہے؟سوویت یونین افغانستان میں فوج اتار کر ہماری سرحد پر آ بیٹھے تو کیا یہ پاکستان کی مداخلت ہے؟ سوویت اور افغان سرکاری افواج پاکستان پر حملے کریں اور پینتیس لاکھ افغان مہاجرین یہاں آ بیٹھیں تو کیا یہ ہماری مداخلت ہے؟ افغانستان میں بھارتی رسوخ کے نتیجے میں کیا ہو سکتا ہے، اس کا عملی نمونہ گزشتہ بیس برس میں دیکھا گیا ہے جب افغان خفیہ ایجنسیوں، نام نہاد نیشنل آرمی، عبد الرزاق اچکزئی اور حمد اللہ محب جیسے بھارتی اور امریکی گماشتوں نے پاکستان میں عدم استحکام پیدا کرنے کی ہر ممکن کوشش کی ہے لیکن یہ مداخلت نہ تو قوم پرستوں کو نظر آتی ہے اور نہ دانشوروں کو۔ ان کے نزدیک بھارت جو افغانستان کا ہمسایہ بھی نہیں، وہ افغان حکومت اور اداروں میں نفوذ کر کے اپنا ایجنڈا پورا کرے تو جائز ہے لیکن اگر پاکستان جو افغانستان کے ساتھ طویل سرحد رکھنے والا پڑوسی اور افغانستان کی داخلی صورتحال سے سب سے زیادہ متاثر ہونے والا فریق ہے، وہ اپنے مفادات کی حفاظت کرے تو یہ مداخلت ہے۔رانا اظہر --امین اکبر (تبادلۂ خیال • شراکتیں) 17:52، 25 جون 2021ء (م ع و)
بیرونی روابط کی درستی (دسمبر 2021)
ترمیمتمام ویکیپیڈیا صارفین کی خدمت میں آداب عرض ہے،
ابھی میں نے پاک-افغان تعلقات پر بیرونی ربط میں ترمیم کی ہے۔ براہ کرم میری اس ترمیم پر نظر ثانی کر لیں۔ اگر آپ کے ذہن میں کوئی سوال ہو یا آپ چاہتے ہیں کہ بوٹ ان روابط یا صفحے کو نظر انداز کرے تو براہ کرم مزید معلومات کے لیے یہ صفحہ ملاحظہ فرمائیں۔ میری تبدیلیاں حسب ذیل ہیں:
- http://news.yahoo.com/nato-leader-visits-afghanistan-053700378.html میں https://web.archive.org/web/20150713171153/http://news.yahoo.com/nato-leader-visits-afghanistan-053700378.html شامل کر دیا گیا
نظر ثانی مکمل ہو جانے کے بعد آپ درج ذیل ہدایات کے مطابق روابط کے مسائل درست کر سکتے ہیں۔
As of February 2018, "External links modified" talk page sections are no longer generated or monitored by InternetArchiveBot. No special action is required regarding these talk page notices, other than ویکیپیڈیا:تصدیقیت using the archive tool instructions below. Editors have permission to delete these "External links modified" talk page sections if they want to de-clutter talk pages, but see the RfC before doing mass systematic removals. This message is updated dynamically through the template {{sourcecheck}}
(last update: 15 July 2018).
- If you have discovered URLs which were erroneously considered dead by the bot, you can report them with this tool.
- If you found an error with any archives or the URLs themselves, you can fix them with this tool.
شکریہ!—InternetArchiveBot (بگ رپورٹ کریں) 14:01، 15 دسمبر 2021ء (م ع و)