تبادلۂ خیال:ڈیرہ غازی خان

اس کی اردو کچھ آگے پیچھے ہو گئی ہے۔ کوئی جو ڈیرہ غازی خان سے واقفیت رکھتا ہے رضاکارانہ اسے درست کر سکتا ہے تو کر دے۔

  • میرا خیال ہے کہ اس کا کچھ حصہ م ٹ یعنی مشینی ٹرانسلیشن سے کیا گیا ہے جس کی وجہ سے گرائمر گڑبڑ ہو گئی ہے۔ خیر میں چند دنوں میں اسے ٹھیک کر دیتا ہوں--قیصرانی 22:47, 9 جولا‎ئی 2009 (UTC)

درستگی

ترمیم

درستگی ہر ممکن حد تک کر دی ہے۔ صاحبِ مضمون نے انتہائی اہم تاریخی حقائق کو جس شانِ بے نیازی سے گوندھا ہے، محوِ حیرت ہوں کہ دنیا کیا سے کیا ہو "گئی ہے"۔ سکندرِ اعظم کی حکومت ڈیرہ غازی خان میں نہ صرف قائم کرا دی بلکہ اس کی شادی بھی مقامی راجہ کی بیٹی سے کرا دی اور مزے کی بات کہ سکندرِ اعظم کی حکومت کی برطرفی، چندر گپت موریہ کی بغاوت، سلطان جلال الدین خوارزم کا دریائے سندھ عبور کرنا، تاتاریوں کا ڈیرہ غازی خان تک پہنچنا، الغرض کیا کیا شاہکار کھلائے گئے ہیں۔--قیصرانی 19:51, 7 اگست 2011 (UTC)

بیرونی روابط کی درستی (دسمبر 2020)

ترمیم

تمام ویکیپیڈیا صارفین کی خدمت میں آداب عرض ہے،

ابھی میں نے ڈیرہ غازی خان پر بیرونی ربط میں ترمیم کی ہے۔ براہ کرم میری اس ترمیم پر نظر ثانی کر لیں۔ اگر آپ کے ذہن میں کوئی سوال ہو یا آپ چاہتے ہیں کہ بوٹ ان روابط یا صفحے کو نظر انداز کرے تو براہ کرم مزید معلومات کے لیے یہ صفحہ ملاحظہ فرمائیں۔ میری تبدیلیاں حسب ذیل ہیں:

نظر ثانی مکمل ہو جانے کے بعد آپ درج ذیل ہدایات کے مطابق روابط کے مسائل درست کر سکتے ہیں۔

As of February 2018, "External links modified" talk page sections are no longer generated or monitored by InternetArchiveBot. No special action is required regarding these talk page notices, other than ویکیپیڈیا:تصدیقیت using the archive tool instructions below. Editors have permission to delete these "External links modified" talk page sections if they want to de-clutter talk pages, but see the RfC before doing mass systematic removals. This message is updated dynamically through the template {{sourcecheck}} (last update: 15 July 2018).

  • If you have discovered URLs which were erroneously considered dead by the bot, you can report them with this tool.
  • If you found an error with any archives or the URLs themselves, you can fix them with this tool.

شکریہ!—InternetArchiveBot (بگ رپورٹ کریں) 19:00، 31 دسمبر 2020ء (م ع و)

ڈیرہ غازی خان کے ممتاز خاندان اور افراد – ایک مختصر جائزہ

ترمیم

آج ڈیرہ غازی خان کے سیاسی اور سماجی افق پر بلوچ سردار چھائے ہوئے ہیں، لیکن پاکستان بننے کے وقت تک ایسا نہیں تھا۔ اس وقت ڈیرہ غازی خان شہر اور مضافات کے کئی غیر بلوچ لوگوں کا ضلع کی سیاسی اور سماجی زندگی میں گہرا عمل دخل تھا۔ شہر کی حد تک تو ایسا 1970 کی دہائی تک رہا۔ ڈیرہ غازی خان کی پہلی سیٹلمنٹ رپورٹ (1876) کے مطابق ضلع میں سب سے زیادہ اراضی بلوچوں کے پاس تھی۔ ان کی ملکیت کا کل رقبہ ایکڑوں میں 1،928،404 تھا۔ دوسرے نمبر پر جٹ آتے تھے جن کی کل ملکیت 484،982 ایکڑ تھی۔ پھر ہندو آتے تھے جن کی کل ملکیت 220،066 ایکڑ تھی۔ سیدوں کی ملکیت 108،648 ایکڑ تھے۔ ارائیں 16،993 ایکڑ اور قریشی 12،922 ایکڑ اراضی کے مالک تھے۔ مختلف مزاروں کے مجاوروں کے پاس 41،224 ایکڑ رقبہ تھا۔ ضلع کے پٹھان 28،685 ایکڑ اراضی کے مالک تھے۔ ضلع کے سابق حکمران خاندانوں کی ملکیت رقبہ اس طرح تھا: کلہوڑہ خاندان 4،150 ایکڑ، نہر خاندان 2،889 ایکڑ۔ جبکہ لودھیوں کے پاس صرف 147 ایکڑ تھے۔ رپورٹ کے مطابق سیٹلمنٹ کے وقت سب سے ممتاز خاندان سرائی تھا، جسے میاں صاحب سرائی کہا جاتا تھا۔ یہ سندھ کے کلہوڑہ حکمرانوں کی نسل سے تھے۔ خاندان کا مرکزی قصبہ حاجی پور تھا۔ خاندان کے سربراہ کو جام صاحب کے نام سے یاد کیا جاتا تھا۔ سندھ پر قبضہ کرنے کے بعد تالپوروں نے کلہوڑا خاندان کو 1772ء میں سندھ سے نکال دیا اور وہ ڈیرہ غازی خان آباد ہوئے۔ حاجی پور کے 35 گائوں کلہوڑہ خاندان کی جاگیر میں شامل تھے۔ یہ جاگیر خاندان کے سب سے بڑے بیٹے کو ملتی تھی اور اسے شاہ نواز خان کا خطاب بھی ملتا تھا۔ سیٹلمنٹ کے زمانے میں بلوچ قبائل شہروں اور قصبوں سے باہر تمنوں کی صورت میں رہتے تھے۔ اور ان کے سرداروں کا شمار ضلع کے ممتاز افراد میں ہوتا تھا۔ سیٹلمنٹ کے وقت باقاعدہ تمن آٹھ تھے۔ سب سے شمالی تمن قیصرانی تھا، جس کا سردار فضل علی خان تھا۔ اس کے بعد شادن لُنڈ کا سوری لُنڈ قبیلہ تھا جس کا سردار فضل علی خان تھا۔ اس کے بعد کھوسہ تمن آتا تھا جس کا سردار سکندر خان کھوسہ تھا۔ کھوسوں کے بعد لغاری آتے تھے جن کا سردار جمال خان تھا۔ لُنڈ قبیلے کی ایک اور شاخ جام پور میں ٹبی لُنڈان میں رہتی تھی جس کا تمندار مرزا خان تھا۔ محمد پور دیوان ان کی ملکیت تھا۔ اس کے بعد گرچانی قبیلہ آتا تھا جس کا تمن دار غلام حیدر خان تھا۔ دریشک جام پور اور راجن پور دونوں تحصیلوں میں آباد تھے۔ ان کا تمن دار میرن خان تھا۔ مزاری راجن پور کے جنوب میں آباد تھے، ان کا تمندار امام بخش خان تھا۔ اسد خان نتکانی کی انگریزوں سے مخاصمت اور بعد میں بہاولپور کی تحصیل احمدپور شرقیہ ہجرت کے بعد تحصیل تونسہ کے سب سے بڑے اور طاقتور قبیلے نتکانی کا تمن ختم ہو گیا تھا جس کی وجہ سے قبیلہ اور اس کے افراد، اس زمانے سے آج تک سیاسی اور سماجی زندگی میں وہ مقام حاصل نہیں کر پائے جس کے وہ مستحق ہیں۔ بزدار قبیلہ پہاڑ میں رہتا تھا اور سیٹلمنٹ کا حصہ نہیں تھا۔ وہوا کے کھتران اس وقت تک ڈیرہ اسماعیل کا حصہ تھے۔۔ وہوا کے علاوہ لِتڑا، جَلُو والی، کُوہَر، کُوتانی ان کی بڑی آبادیاں تھیں۔۔ بعد میں بزدار قبیلے اور کھتران قبیلے کے علاقوں کی ضلع میں شرکت سے تمن دس ہو گئے۔ بلوچ تمن داروں کے علاوہ کئی دوسرے لوگوں کا شمار ضلع کے ممتاز لوگوں میں ہوتا تھا اور انہیں صوبائی دربار میں کرسی ملتی تھی۔ ان میں تحصیل تونسہ کے مسو خان نتکانی، بستی عظیم کے مہر شاہ اور بستی نتکانی/ٹبی قیصرانی کے کوڑا خان قیصرانی شامل تھے۔ ضلع کے ڈسٹرکٹ گزیٹیئر (1898) کے مطابق مہر شاہ کے علاوہ پنج گرائوں کے شاہ محمد شاہ اور مَٹی مہوئی کے صادق محمد خان کھوسہ بھی تحصیل کی اہم شخصیتیں تھیں۔ نتکانی قبیلے کے بستی ہَیرو شرقی کے مقدم سردار خان تنگوانی اور سوکڑ کے امام بخش خان ملغانی کا شمار بھی اہم شخصیات میں ہوتا تھا۔ بعد میں تونسہ کے خواجگان بھی اس صف میں شامل ہو گئے۔ تحصیل ڈیرہ غازی خان میں تمنداروں کے علاوہ ممتاز لوگوں میں پیر عادل کے احمد شاہ، مرہٹہ کے دِینن شاہ، اور شہر کے غلام مصطفےٰ، علی بخش، اور عبدالرحیم سدوزئی شامل تھے۔ اس کے علاوہ پیر محمد پوپل زئی، جھوک اترا کے میاں فتح محمد ڈاہا، سخی سرور کے نور مجاور، اور قادر بخش احمدانی کو بھی دربار میں کرسی ملتی تھی۔ ڈیرہ غازی خان کے ڈسٹرکٹ گزیٹیئر کے مطابق بستی ملانہ کے ملک مٹھہ بھی ایک دولتمند زمین دار تھے۔ گزیٹیئر کے مطابق ڈیرہ غازی خان کی حکمران فیملی کے محمد خان مرانی بھی شہر میں رہتے تھے۔ ہندوئوں میں کُنج لال اور روشن لال تھے جو شام جی اور لال جی کے مندروں کے رکھوالے تھے۔ درباری لال ایک دولت مند بینکر تھے اور حکیم بالا رام ایک معروف طبیب۔ جام پور تحصیل میں کوڑا خان جتوئی اور بستی پناہ علی کے میاں عاقل محمد کو کرسی ملتی تھی۔ لُنڈی پتافی کے احمد خان پتافی بھی ایک بڑے زمیندار تھے۔ ڈسٹرکٹ گزیٹیئر کے مطابق ہَیرو کے برخور دار خان، کوٹلہ مغلاں کے مرزا عبداللہ، اور جام پور کے ملک غلام نبی بھی تحصیل کے اہم زمین دار تھے۔ سیٹلمنٹ کے وقت احمد خان پتافی اور کوڑا خان جتوئی کا شمار ضلع کے سب سے بڑے زمین داروں میں ہوتا تھا۔ کوڑا خان جتوئی وہ شخصیت ہیں جنہوں نے تقریباً 500 مربع اراضی ضلع کے طلبا کی تعلیم کیلئے وقف کی۔ افسوس کہ بعد میں حرص و ہوس کے پجاریوں نے اس اراضی پر، جو کہ ضلع مظفر گڑھ کی حدود میں واقع ہے، ناجائز قبضہ کر لیا اور کئی دہائیوں تک نادار اور ضرورت مند طلبا کو ان کے حق سے محروم رکھا گیا۔ چند سال ہوئے این جی اوز نے اس اراضی کا مسئلہ اٹھایا، جس کے نتیجے میں اراضی تو واگزار نہیں ہو سکی تاہم اس کی آمدنی کا کچھ حصہ طلبا کی تعلیم پر خرچ کیا جا رہا ہے۔ راجن پور تحصیل میں کلہوڑا فیملی کے علاوہ مہر والا اور کوٹلہ سکھانی کے بزدار کرسی کے حق دار تھے۔ بزداروں کی زمینیں مہرے والا، کوٹلہ سکھانی، کوٹ مٹھن، کوٹلہ نبی شاہ، گجر والی، اور باغون میں پھیلی ہوئی تھیں۔ کلہوڑہ فیملی کی زمینیں جیسا کہ پہلے بتایا جا چکا ہے حاجی پور میں تھیں۔ رانجھا خان نَہر کو اگرچہ کرسی نہیں ملتی تھی مگر اس کا شمار بھی تحصیل کے معزز لوگوں میں ہوتا تھا۔ راجن پور کے اور بڑے زمینداروں میں مخدوم راجن شاہ کی اولاد شامل تھی جن کے نام پر راجن پور کا نام رکھا گیا تھا۔ ڈسٹرکٹ گزیٹیئر کے مطابق رائے بہادر ہتو رام بھی ریٹائرمنٹ کے بعد راجن پور میں رہتے تھے اور اعزازی مجسٹریٹ تھے۔ انہیں یہاں ایک جاگیر بھی ملی تھی۔ مُرغائی کے گُل شاہ، شکار پور کے سدھو رام، کوٹلہ نصیر کے خیر محمد خان دریشک، اور فاضل پور کے صابو خان دریشک بھی تحصیل کے بڑے زمیندار تھے۔ دوسرے بلوچ قبیلے جن کے تمن نہیں تھے مگر وہ بھی اہمیت کے حامل تھے ان میں احمدانی، چانڈیہ، گوپانگ، گُرمانی اور جتوئی شامل تھے۔ ڈیرہ غازی خان شہر کی شیخ فیملی بھی اہم مقام کی حامل تھی اور اس کے سربراہ شیخ فیض محمد ایک طویل عرصہ پنجاب اسمبلی کے رکن رہے اور آزادی کے بعد مغربی پنجاب اسمبلی کے پہلے سپیکر منتخب ہوئے۔ اسی طرح اَخوند فیملی بھی کافی اہمیت کی حامل تھی۔ 1940 کی دہائی کے شہر کے ممتاز افراد میں فیض محمد خان کھوسہ اور شریف خان کھوسہ، فیض احمد خان جسکانی، شیخ سجاد حیدر، ڈاکٹر احمد یار خان قیصرانی، عطا محمد خان بزدار، حاکم خان شامل تھے۔ ہندوستان سے نقل مکانی کر کے آنے والوں میں بھی ممتاز لوگ شامل تھے، جن میں سرور بودلہ، آغا شیر احمد خاموش اور ان کے بھائی آغا اعجاز اکرم، شہزادہ سلطان احمد، چوہدری محمد طفیل ایڈووکیٹ، ڈاکٹر ارشاد نوحی، پاکستان میڈیکل سٹور کے بشیر احمد صاحب اور آفتاب میڈیکل سٹور کے مالک چوہدری بشیر صاحب شامل ہیں۔ راجن پور شہر میں جناب صادق شاہ صاحب بھی ایک معروف شخصیت تھے۔منقول --امین اکبر (تبادلۂ خیالشراکتیں) 16:50، 1 اگست 2021ء (م ع و)

واپس "ڈیرہ غازی خان" پر