تبادلۂ خیال زمرہ:ویکیپیڈیا انعامی مقابلہ پہلا مرحلہ

                                     ““““ غالب کی مشکل پسندی “““““
      “      اس پہ بن جائے کچھ ایسی کہ بن آئے نہ بنے  ““

نفسیات کے نقطہ نظر سے دیکھا جائے تو انسانی ذہن بہت سے پہچیدہ مسائل کی آماجگاہ نظر آتا ہے ۔ان کا تجزیہ کرنا اور مسائل کا حل ڈھونڈنا ایک عام آدمی کے بس کی بات نہیں۔ اسی لئے عام آدمی کے تجزیوں کو اہمیت نہیں دی جاتی لیکن جب یہی بات ہمیں کسی شاعر کی شاعری‘ مصور کے فن پارے یا کسی ادیب کی تحریر میں نظر آتی ہے تو ہمحیران رہ جاتے ہیں اور ہمیں لگتا ہے اس نے ہماری دل کی بات کہ دی ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ انسانی ذہن تک رسائی بہت مشکل ہے مگر نفسیات کو سمجھنا اور اسے ایک فن پارا تشکیل دے دینا خالصتا“ فن کی معراج ہے۔ اردو دان طبقہ بجا طور پر ‘ غالب “ کو اردو غزل کا سب سے بڑا شاعر تسلیم کرت ہیں ۔غالب نفسیاتی لحاظ سے مشکل پسند شاعر تھے۔ان کی غزلیں ان کی اپنی نفسیاتی زندگی کی تصویریں ہیں۔شاید اسی نفسیاتی پیچیدگی نے غالب میں مشکل پسندی کوٹ کوٹ کر بھر دی۔شعر کا مضمون ہو یا الفاظ کی تراکیب ‘ اسلوب بیان ہو یا بحرون کا چناؤ غالب نے نہایت آسانی سے اس مشکل پسندی کو برتا۔غالب کے کلام کا جائزہ ہمیں بتاتا ہے کہ الفت ذات اور محبوب کی چاہ نے ان کے شعروں میں مشکل پسندی کے خد و خال ابھارے۔اور وہ اپنی علمیت کا احساس دلاتے چلے گئے۔ ابتدائے شاعری ہی میں شعور اور لا شعور میں پیدہ ہونے والے سوالات سے شعر کی تخلیق‘ فارسی تراکیب کا استعمال‘ غالب اپنی علمیت کا سکی جمانے کی کوشش کرتے نظر آتے ہیں۔ان کی ابتدائی شاعری میں بیدل کا رنگ نظر آتا ہے مگر جب وہ میر کی شاعری سے متاثر ہوئے تو سادگی اور سہل پسندی کی انتہا پر پہنچ گئے۔کبھی وع کہے تھے کہ ان کا اصل کلام تو فارسی ہے مگر جب اردو کلام میں ان کا نام ہر جگہ گونجنے لگا تو غالب کو فارسی کی مشکل پسندی سے میر کی سہل نگاری کی طرف سفر کرنا پڑا۔اور یوں اردو غزل کو اردو کا سب سے بڑا شاعر مل گیا۔اس دور میں جب ہر طرف مشکل پسندی کا دور دورہ تھا غالب زمانے کی روش سے ہٹ کر چلے مگر رمز کا مارا دل مشکل گوئی کو ترک کر نہ سکا۔ ایک تنقید نگار کاکہنا ہے کہ غالب کی شاعری کا ارتقا بہت تیزی سے ہوا وہ بہت سے شاعروں سے متاثر ہوئے مگر میر کی طرف سب سے آخر میں آئے۔غالب کی نمایاں خصوصیت میں سے ایک یہ بھی ہے کہان کی شاعری کو جس دور میں بھی تنقید کی نظطر سے دیکھا گیا وہ ہر معیار پر پورا اترا۔ادبی تحریکوں نے اپنی کسوٹیوں پر پرکھا جدید تخلیقی تصورات بھی بہت نمایاں رہے مگر ان کی شہرت کو کوئی داغ نہ لگا سکا۔اردو ادب کی تاریخ میں ان کی اہمیت مسلم ہے۔غالب کا ادبی دشمن بھی ان کی عظمت اور اولیت کا معترف ہے۔اپنے عصر سے دور حاضر تک انکی شہرت بڑھتی ہی رہی کبھی کم نہ ہوئی۔ آگرہ میں 27 دسمبر 1797 میں اسد اللہ پیدا ہوئے 13 سال کی عمر میں شادی ہوئی۔خاندانی عظمت اور نسلی برتری کا احساس ہمیشہ غالب رہا آمدنی کا کوئی خاص ذریعہ نہ تھا پھر بھی آن بان سے رہے۔مے نوشی اور جوئے کے شوقین تھے گرفتار بھی ہوئے مغل دربار سے بھی وابستہ رہے۔۔گھریلو زندگی ہمیشہ نہ سلجھنے کا نہ سلجھانے کا معمہ بنی رہی۔جس کا اظہار انکے لطائف اور شاعری میں بھی ہوتا ہے مفلوک الحال‘مقروض‘خود پسندی‘ حسن پرست ‘ نفسیاتی مسائل کو موضوع سخن بنانا‘محرومیوں کے ساتھ ساتھ زندہ دلی کی تصویریں پیش کرنا اس عظیم شاعر کے مقام کو متعین کرتے ہیں یہی وہ مقام ہے جہاں ہر اردو شاعر پہنچنے کا آرزومند ہےمگر یہ مقام “غالب“کے سوا کسی کو نہ مل سکا۔غزل ‘خطوط‘ مکالمے بھی ان کی اہمیت کو ظاہر کرتے ہیں۔ان کی شاعری میں جہاں سادگی اور موضوعات میں تنوع نظر آتا ہے وہیںخیال کی بلندی اور تراکیب کا اچھوتا پن نھی نمایاں ہے ان کی مشکل پسندی میں بھی ایک سہل پرستی ہے جو ہر قاری کو اپنا گرویدہ کر لیتی ہے۔

                اردو ادب کا یہ عظیم شاعر 15 فروری 1869 کو دار فانی سے کوچ کر گیا۔    
                                       -----------------
      درد منت کش دوا نہ ہوا
     میں نہ اچھا ہوا‘برا نہ ہوا
       کتنے شیریں ہیں تیرے لب کہ رقیب
        گالیاں کھا کے بے  مزا  نہ ہوا
           کچھ تو پڑھیے  کی لوگ کہتے
          آج غالب غزل سرا نہ ہوا

نکتہ چیں ہے غم دل اس کو سنائے نہ بنے کیا بنے بات جہاں بات بنائے نہ بنے میں بلاتا تو ہوں اس کو مگر اے جزبہ دل اس پہ بن جائے کچھ ایسی کہ بن ائے نہ بنے عشق پر زور نہیں ہے یہ وہ آتش غالب کہ لگائے نہ لگے اور بجھائے نہ بنے ارم فاطمہّ( انعامی مقابلہ 2015)

زمرہ:ویکیپیڈیا انعامی مقابلہ پہلا مرحلہ سے متعلق گفتگو کا آغاز کریں

گفتگو شروع کریں
واپس "ویکیپیڈیا انعامی مقابلہ پہلا مرحلہ" پر