تحری (غالب گمان) جب کسی موقع پر حقیقت معلوم کرنا دشوارہو جائے توسوچے اورجس جانب گمان غالب ہوعمل کرے اس سوچنے کا نام تحری ہے۔[1]

شریعت اور تحری

ترمیم

غالب گمان پر عمل کرنے کی وجہ یہ ہے کہ شریعت میں غالب گمان کو اختیار کرنے کی اصل موجود ہے جیسا کہ اگر کوئی آدمی کسی ایسی جگہ نماز پڑھنا چاہے جہاں سے قبلے کی سمت معلوم نہ ہو سکے تو اس کے لیے حکم ہے کہ وہ جس سمت کے بارے میں غالب گمان رکھے کہ ادھر قبلہ ہے اسی طرف منہ کر کے نماز پڑھ لے اس کی نماز ہو جائے گی۔ غالب گمان کو اختیار کرنے کے سلسلے میں احادیث بھی مروی ہیں۔ چنانچہ صحیحین میں عبداللہ ابن مسعود کی ایک روایت ہے جس کے الفاظ یہ ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا " جب تم میں سے کسی کو نماز میں شک واقع ہو جائے تو اسے چاہیے کہ وہ صحیح رائے قائم کر کے (یعنی کسی ایک پہلو پر غالب گمان کر کے ) نماز پوری کر لے" نیز جامع الاصول میں بھی نسائی سے ایک حدیث تحری ( غالب گمان) پر عمل کرنے کے صحیح ہونے کے بارے میں منقول ہے۔

شک سے نجات

ترمیم

امام محمد نے اپنی کتاب موطا میں تحری کی افادیت کے سلسلے میں یہ کہتے ہوئے کہ " تحری کے سلسلے میں بہت آثار وارد ہیں " بڑی اچھی بات یہ کہی ہے کہ " اگر ایسا نہ کیا جائے یعنی تحری کو قابل قبول نہ قرار دیا جائے تو شک اور سہو سے نجات ملنی بڑے مشکل ہوگی اور پھر شک و شبہ کی صورت میں اعادہ بڑی پریشانی کا باعث بن جائے گا۔"

احادیث کا خلاصہ

ترمیم

شیخ عبدالحق محدث دہلوی نے اس موقع پر مسئلہ مذکورہ کا تجزیہ کرتے ہوئے کہا ہے کہ " اس موقع پر حاصل کلام یہ ہے کہ اس مسئلہ کے سلسلہ میں تین احادیث منقول ہیں۔ پہلی حدیث کا مطلب یہ ہے کہ نماز میں جب بھی کسی کو شک واقع ہو جائے تو وہ نماز کو از سر نو پڑھے دوسری حدیث کا ماحصل یہ ہے کہ جب کسی کو نماز میں شک واقع ہو جائے تو اسے چاہیے کہ صحیح بات کو حاصل کرنے کے لیے تحری کرے۔ یعنی غالب گمان پر عمل کرے۔ تیسری حدیث کا مفہوم یہ ہے کہ " جب نماز میں شک واقع ہو تو یقین پر عمل کرنا چاہیے یعنی جس پہلو پر یقین ہو اسی پر عمل کیا جائے" امام ابوحنیفہ نے ان تینوں حدیثوں کو اپنے مسلک میں جمع کر دیا ہے اس طرح کہ انھوں نے پہلی حدیث کو تو مرتبہ شک واقع ہونے کی صورت پر محمول کیا ہے، دوسری حدیث کو کسی ایک پہلو پر غالب گمان ہونے کی صورت پر محمول کیا ہے اور تیسری حدیث کو کسی بھی پہلو پر غالب گمان نہ ہونے کی صورت پر محمول کیا ہے۔ شیخ عبد الحق فرماتے ہیں کہ " امام اعظم" کے مسلک کے کمال جامعیت اور انتہائی محقق ہونے کی دلیل ہے۔[2]

حوالہ جات

ترمیم
  1. بہارشریعت،ج3، حصہ 17،ص661
  2. مشکوۃ شریف:جلد اول:حدیث نمبر 979