Distortionتحریف:

‘           راغب’’نے ‘‘مفردات میں لکھا ہے:‘‘و تحریف الکلام ان تجعلہ علٰی حرف من الاحتمال یمکن حملہ علٰی الوجھین’’کلام کو اس طرح قرار دینا تحریف ہے کہ دو معنوں پر حمل کرنا ممکن ہو۔

اس بنیاد پر لفظ تحریف ،تحریف لفظی میں ظہور نہیں رکھتا یعنی تغییر و تبدیلی عبارت کے معنی میں نہیں ہے بلکہ راغب کے بتائے ہوئے معنی کے مطابق لفظ تحریف ،تحریف معنوی میں ظہور رکھتا ہے ان ہی معنوں میں قرآن کریم میں یہودیوں کے لیے ارشاد ہوتا ہے:‘‘یحرفون الکلمہ عن موضعہ’’یہودیوں میں سے کچھ ایسے ہی جو لفظوں کو ان کی جگہ سے ہٹاکر تحریف کرتے ہیں۔یعنی آیت اس بات پر دلالت کررہی ہے کہ یہودی کو تو محفوظ رکھتے ہیں مگر لفظوں کو اِدھر اْدھر کرکے اس کو دوسرے معنی پہنادیتے ہیں۔

ارشاد باری تعالیٰ ہے:

أَفَتَطْمَعُونَ أَنْ يُؤْمِنُوا لَكُمْ وَقَدْ كَانَ فَرِيقٌ مِنْهُمْ يَسْمَعُونَ كَلَامَ اللَّهِ ثُمَّ يُحَرِّفُونَهُ مِنْ بَعْدِ مَا عَقَلُوهُ وَهُمْ يَعْلَمُونَ  (البقرۃ: 75)’’

تو کیا تم طمع رکھتے ہو کہ وہ تمھارے لیے ایمان لے آئیں گے، حالانکہ یقینا ان میں سے کچھ لوگ ہمیشہ ایسے چلے آئے ہیں جو اللہ کا کلام سنتے ہیں، پھر اسے بدل ڈالتے ہیں، اس کے بعد کہ اسے سمجھ چکے ہوتے ہیں اور وہ جانتے ہیں۔

تفسیر ابن کثیر اور قرطبی کے مطابق اس جگہ لفظ تحریف لفظی اور معنوی دونوں قسم کی تحریف کو شامل ہے۔ انھوں نے تورات کے الفاظ بھی بدل ڈالے تھے، مگر زیادہ تر غلط تاویلوں سے معانی تبدیل کرنے کی کوشش کرتے تھے۔ موجودہ یہود نے تورات کی ان آیات کو بدل ڈالا جن میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اوصاف کا ذکر تھا اور اپنے دل سے حرام کو حلال اور حلال کو حرام ٹھہرا لیا۔

أَمْ تُرِيدُونَ أَنْ تَسْأَلُوا رَسُولَكُمْ كَمَا سُئِلَ مُوسَى مِنْ قَبْلُ وَمَنْ يَتَبَدَّلِ الْكُفْرَ بِالْإِيمَانِ فَقَدْ ضَلَّ سَوَاءَ السَّبِيلِ (البقرہ: 108)’’

یا تم ارادہ رکھتے ہو کہ اپنے رسول سے سوال کرو، جس طرح اس سے پہلے موسیٰ سے سوال کیے گئے اور جو کوئی ایمان کے بدلے کفر کو لے لے تو بے شک وہ سیدھے راستے سے بھٹک گیا۔

جس شخص نے بھی رسول اللہ ﷺپر جھوٹ باندھا، خواہ آپ ﷺ کی حیاتِ مبارکہ میں ہو یا آپ ﷺ کی وفات کے بعد کسی زمانہ میں، اللہ تعالیٰ نے اس کو مخفی نہیں رہنے دیا، بلکہ اس کا حال لوگوں کے سامنے ضرور واضح کر دیا۔ آپ ﷺپر جھوٹ باندھنے کی بدترین صورت آپﷺ کی حدیثِ مبارکہ میں تحریف و تبدیلی کا ارتکاب کرنا ہے۔امام محدث سفیان بن عیینہ﷫ کا فرمان ہے کہ "مَا سَتَرَ اللهُ أَحَدًا یَکذِبُ فِي الحَدِیْثِ"

’’ جو بھی حدیث میں کذب بیانی کرتا ہے، اللہ تعالیٰ نے اس کی پردہ پوشی نہیں کی۔‘‘

محدث عبد اللہ بن مبارک ﷫ فرماتے ہیں:

لَو هَمَّ رَجُل فِي السَّحَرِ أَن یَّکذِبَ فِي الحَدِیْثِ، لَأصْبَحَ وَالنَّاسُ یَقُولُونَ: فُلاَن کَذَّاب

اگر کوئی شخص سحری کے وقت حدیث شریف میں جھوٹ بولنے کا قصد کر لے تو صبح کے وقت ہی لوگ یہ کہہ رہے ہوں گے کہ فلاں (حدیث میں جھوٹ بولنے والا) شخص کذاب ہے۔

مَنْ کَذَبَ عَلَيَّ مُتَعَمِّدًا فَلْیَتَبَوَّأ مَقعَدَه مِنَ النَّارِ»

’’جو کوئی مجھ پر عمداً جھوٹ باندھے وہ اپنا ٹھکانا جہنم میں بنا لے۔‘‘

(ڈاکٹر مفتی نوید احمد خان) (مدرس جامعہ سراجیہ ابی زر ٹانک)