تحریک نظام مصطفیٰ
پاکستان میں 1977ء میں ہونے والے انتخابات میں مبینہ دھاندلی کے خلاف حزب اختلاف کی طرف سے ایک تحریک کا آغاز کیا گیا۔"1977ء کے عام انتخابات میں ہونے والی دھاندلی کا یہ نتیجہ تھا کہ اپوزیشن جماعتوں نے اسے یکسر مسترد کر دیا۔ پورے ملک میں دفعہ 144 اور ڈی پی آر کے نفاذ سے جمہوریت کا گلا گھونٹ دیا گیا۔ کسی کی عزت و آبرو محفوظ نہ رہی۔ 7 مارچ 1977ءکو قومی اسمبلی کے انتخابات کے موقع پر ”جُھرلو“ کا وہ گھناؤنا مظاہرہ کیا گیا جس میں پوری قوم کے سر ندامت سے جھک گئے۔ ان پے در پے زیادتیوں سے پاکستانی قوم کا پیمانہ لبریز ہو کر چھلک اُٹھا۔ آخر کار یہ تمام تر جدوجہد تحریک نظام مصطفی کے نام سے سیلاب کی طرح ملک کے طول و عرض میں بہہ نکلی۔ پاکستان کا ہر شہری، دیہاتی، جوان، بوڑھے، بچے، عورتیں سراپا احتجاج بن کر سڑکوں پر نکل آئے۔، ہر ایک کی زبان پر ایک ہی نعرہ تھا ”نظام مصطفی کا نفاذ“ اور ایک ہی مطالبہ تھا، حکومت مستعفی ہو جائے۔ اس جائز اور متفقہ مطالبہ کے سامنے سرِ تسلیم خم کرنے کی بجائے نہتے اور مجبور عوام کو ظلم و تشدد کا نشانہ بنایا گیا۔ اقتدار کی کرسی سے چمٹے ہوئے اس عفریت نے عوام کے خون سے اپنی پیاس بجھانا شروع کردی۔ جب بھٹو حکومت کی درندگی و ظلم آسمانی حدوں کو چھونے لگا تو علماءامت نے اس ظلم و تشدد کو بند کرنے کے لیے صدائے احتجاج بلند کی اور وہ محراب و منبر سے اُٹھ کر بنفس نفیس میدان عمل میں نکل آئے۔ 31 مارچ 1977ءکو نظام مصطفی کے علمبردار علماءنے نہتے و بے گناہ شہریوں پر ظلم و تشدد کے خلاف مسلم مسجد لاہور سے نماز ظہر کے بعد ایک پُرامن احتجاجی جلوس نکالنے کا اعلان کیا۔ یہ جلوس نئی انارکلی سے گذر کر جی پی او سے ہوتا ہوا مسجد شہدا شاہراہ قائد اعظم پر اختتام پزیر ہونا تھا"[1]