تحصیل ڈگری
ضلع میرپور خاص کا ایک تعلقہ و شہر
یہاں کی 80 فیصد آبادی کھیتی باڑی، تجارت، صنعت و حرفت، کاروبار و مختلف ہنرمندی و پیشوں سے وابستہ ہیں جبکہ 20 فیصد سرکاری ملازمت کرتے ہیں۔ اس شہر کی 85 فیصد آبادی سندھی، پنجابی اور اُردو بولنے والوں پر مشتمل ہے۔ یہاں پشتون اور بلوچ برادریاں بھی رہائش پزیر ہیں۔ بلوچ اور جٹگال وارڈ نمبر9 کی بلوچ کالونی اور میر فتح ٹائون وارڈ نمبر11 میں یوسف آباد، غریب آباد کالونی اور الٰہ باد کالونی میں پنجابی برادریاں رہتی ہیں۔اس شہر میں اقلیتی برادریاں بھی آباد ہیں۔ ان میں مالہی تعلیم یافتہ ہو کر تعلیمی اداروں سے وابستہ ہیں، مینگواڑ اور کولہی برادری زراعت کے آبائی پیشے سے وابستہ ہے۔اسے وسعت دینے کے لیے انگریزوں نے میرپورخاص سے کھوکھراپار مونا بائو کی سمت میٹر گیج ریلوے لائن بچھائی جس سے 1909ء کے دوران جھڈّو تک ریلوے لائن کا کام مکمل کر کے ریلوے نظام سے مربوط کر دیا گیا۔جس کے بعد ڈگری کے لوگوں کو سفرمیں آسانی ہو گئی۔ڈگری شہر کی جانب ٹرینوں کی آمدورفت گذشتہ ایک دہائی سے بند ہے۔لیکن شہر کے قلب میں واقع محمدی چوک سے 5 سڑکیں مختلف علاقوں کی سمت جاتی ہیں۔ ان میں ٹنڈو غلام علی روڈ، ٹنڈو باگو روڈ، کوٹ غلام محمد روڈ، ٹنڈو جان محمد روڈ شامل ہے۔ 1901ء کے دوران انگریزوں نے سندھ کی غیر آباد زمینوں کو آباد کرنے کے منصوبے کے تحت ڈگری اور اس کے نواحی علاقوں میں مشرقی پنجاب کے کاشت کاروں کو زراعت کی بہتر سہولتیں و مراعات مہیا کیں اور 1910ء تک ان کاشت کاروں کی ڈگری میں آبادکاری کا کام مکمل کیا گیا۔ان میں جاٹ، سکھ اور آرائیوں کی تعداد نمایاں تھی۔ جس کی واضح مثال ڈگری کی دیہہ نمبر 170 اور دیہہ نمبر 190 ہیں جن کے کاشت کار اب بھی انتہائی محنت کش ہیںاورزراعت کے قدیم ُصولوں پر قائم رہ کر بہتر فصلیں حاصل کرتے ہیں۔ قیام پاکستان کے دوران ڈگری سے سکھ کاشت کار مشرقی پنجاب کوچ کر گئے، یہاں کا گنا، مرچ اور کپاس خاصی مشہور ہے۔ سرسوں، کیلا، جوار، گندم اور سبزیوں کی وافر فصل ہوتی ہے جبکہ امرود، بیر، پپیتا، چیکو اور آم تو انتہائی ذائقہ دار ہوتے ہیں۔ڈگری، ہمیشہ ہی سے سیاسی، سماجی سرگرمیوں کا مرکز رہا ہے، اس شہر سے محض 4 کلومیٹر کے فاصلے پر گائوں فقیر غلام علی لغاری واقع ہے۔ یہ سوریہ بادشاہ پیر صبغت اللہ راشدی المعروف پیر صاحب پگارا کے حُر مریدوں کا سب سے بڑا گائوں ہے، انگریزوں کے خلاف جدوجہد آزادی میں نا صرف اس گائوں ، بلکہ اس کے نواحی علاقوں میں رہائش پزیر حُروں نے بھی بھرپور حصہ لیا، لیکن انگریزوں نے اس تحریک کو بغاوت کا نام دے دے کر سندھ میں ماشل لا نافذ کر دیا۔بعد ازاں ’’حُر ایکٹ‘‘ تشکیل دے کر حُروں کو گرفتار اور انھیں سزائیں سُنائی جانے لگیں تو ڈگری کے حُر مجاہدین بھی انگریزوں کے ظلم و ستم کا نشانہ بنے۔ تحریک پاکستان کے دوران نمایاں خدمات انجام دینے والی اہم شخصیت اور قائد اعظم محمد علی جناح کے رفقائے خاص میں شامل بیرسٹر غلام محمد بھرگڑی کا تعلق بھی اسی شہر سے ہے،