ڈاکٹر تسنیم احسن جناح اسپتال کی ڈاکٹر ہیں جن کو امریکا کی اینڈوکرائن سوسائٹی کی جانب سے لاریٹ 2023ء ایوارڈ سے نوازا گیا۔ یہ ایوارڈ پوری دنیا میں انڈوکرائین محققین اور معالجین کی کامیابی پر دیا جاتا ہے اور ڈاکٹر امریتا تسنیم احسن پہلی پاکستانی ہیں جنھیں ان کی شاندار خدمات پر یہ اعزاز حاصل ہوا۔ اس ایوارڈ کے لیے رواں برس پوری دنیا میں سے صرف 12 طبی محققین اور معالجین کو چنا گیا تھا امریتا تسنیم احسن پہلی پاکستانی ہیں جو”انٹرنیشنل ایکسیلنس ان اینڈوکرائنالوجی“ ایوارڈ کے لیے منتخب ہوئیں[1] پاکستان کا پہلا پبلک سیکٹر اینڈوکرینالوجی ڈیپارٹمنٹ قائم کرنے کے لیے جناح پوسٹ گریجویٹ میڈیکل سینٹر کراچی میں پہلے ایک چھوٹے کمرے میں او پی ڈی کا آغاز کیا تھا[2] پھر تباہ حال بیرکس میں ڈیپارٹمنٹ قائم کیا۔ اس ڈیپارٹمنٹ کی عمارت کی تعمیر کے لیے چندہ اکٹھا کیا گیا۔ یہ کہنا ہے پروفسیر ڈاکٹر تسنیم احسن کراچی میں جناح پوسٹ گریجویٹ میڈیکل سینٹر سے سنہ 2015ء میں ریٹائر ہوئیں تو تعلیم، تحقیق اور طب کے میدان میں شاندار کارگردگی پر ادارے نے انھیں پروفیسر ایمریٹا کا خطاب دیا، یعنی وہ پروفیسر جن کی خدمات سے ہمیشہ فائدہ اٹھایا جاتا رہے گا۔ پروفیسر ڈاکٹر تسنیم احسن نے ڈا میڈیکل کالج سے طب میں گریجویشن کی اور کراچی میں ہائوس جاب کی[3]

فائل:Ahsan tasneem.JPG
امریکا کی اینڈوکرائن سوسائٹی نے ان کی شاندار خدمات پر لاریٹ ایوارڈ سے نوازا

ڈاکٹر تسنیم احسن نے جب جناح ہسپتال میں اس کا آغاز کیا تو وہاں پر یہ ساری سہولیات دستیاب نہیں تھیں۔ پروفسیر ڈاکٹر تسنیم احسن یاد کرتی ہیں کہ اس زمانے میں سرکاری شعبے میں پاکستان میں اینڈوکرینالوجی کا کوئی تصور ہی نہیں تھا۔ پاکستان کے پبلک سیکٹر میں واحد اینڈوکرینالوجسٹ میں تھی۔ طب کے شعبے میں کام کرتے ہوئے ان کی کوشش تھی کہ کسی طرح اینڈوکرینالوجی کے شعبے کا آغاز کیا جائے۔ ان کا کہنا تھا کہ اس وقت کے ڈائریکٹر نے مجھے ایک چھوٹے سے کمرے میں او پی ڈی شروع کرنے کی اجازت دی۔ ہمارے پاس ایسی کوئی سہولت ہی نہیں تھی۔ مریض خود بھی کوئی ریکارڈ محفوظ نہیں رکھتے تھے جبکہ میں نے کلینک میں ریکارڈ رکھنا شروع کر دیا۔ جب او پی ڈی کا سلسلہ چل نکلا اور اس کے فوائد سامنے آنے شروع ہوئے تو ہمیں ایک ڈیپارٹمنٹ قائم کرنے کی اجازت ملی۔ اس ڈیپارٹمنٹ کو قائم کرنے کے لیے میں نے کسی بھی فنڈز وغیرہ کا مطالبہ نہیں رکھا بس اپنی کارگردگی دکھاتی تھی۔ ان کا کہنا تھا کہ اس وقت کا جناح ہسپتال درحقیقت ایک پرانا فوجی بیرک تھا اور اس کی حالت بھی شکستہ تھی۔ اپنے سٹاف کے ساتھ ان بیرکس کو ڈیپارٹمنٹ کی شکل دینا شروع کر دی۔ مشکلات ہوئیں، تنگ ہوئے مگر وقت کے ساتھ ساتھ سب ٹھیک ہوتا چلا گیا۔ وہ کہتی ہیں کہ انھوں نے ڈیپارٹمنٹ کے لیے دوستوں اور رشتہ داروں سے چندہ اکٹھا کیا۔ س وقت طب سے وابستہ لوگ کہتے تھے کہ اینڈوکرینالوجی میں ایسا کیا ہے جو میڈیسن میں نہیں۔

حوالہ جات

ترمیم