تعلیم نسواں، خواتین کی خواندگی اور عورتوں کی تعلیم وہ جامع اصطلاحات ہیں جو بہ طور خاص آبادی میں شامل خواتین اور لڑکیوں کی تعلیم پر زور دیتے ہیں۔ یہ تعلیم مختلف درجات اور سطحوں کی ہو سکتی ہے۔ مثلًا کچھ آبادیوں میں، جو اب اگر چہ دنیا میں بہت کم ہیں، مگر وہاں پر لڑکیوں کو اسکولی تعلیم ممنوع ہے۔ کچھ جگہ پر روایتی تعلیم کی جگہ پر لڑکیاں گھر ہی میں کچھ پڑھنا لکھنا سیکھ لیتی ہیں جو ایک خاص مقصد کے لیے مفید ہو سکتا ہے۔ یہ مقصد مذہبی تعلیم ہو سکتا ہے یا پھر گھریلو ضروریات کی تکمیل سے متعلق ہو سکتا ہے، جیسے کہ پکوان کی کتابیں یا خیاطی سے متعلق کتابیں۔ کچھ کتابیں لڑکیوں میں معمولی درجے کا سہی، مگر ضروری ہنر پیدا کرتی ہیں، جیسے کہ حنا یا مہندی ڈالنے سے متعلق تعلیم۔ کچھ گھریلو میں روایتی تعلیم نسواں کا تصور صرف اسکول کی تعلیم پر ہی محیط ہوتا ہے۔ اس میں کالج کی سطح کی تعلیم شامل نہیں ہوتی۔ اس کی بنیادی طور پر دو وجوہ ہو سکتے ہیں۔ ایک تو یہ کہ لوگ لڑکی کو گھر میں روزگار کمانے والا فرد نہیں بنانا چاہتے۔ دوسرے یہ تصور ہوتا ہے کہ محدود خواندگی کے باوجود وہ لڑکیاں جو اپنی اسکولی تعلیم مکمل کرتی ہیں، آگے چل کر اپنے خود کے بچوں کی پرورش اور ان کو اسکولی تعلیم کے دوران مدد کر سکتی ہیں۔ کچھ جگہوں پر عورتوں کو خاص طرز کی پیشہ ورانہ تعلیم پر زور دیا جاتا ہے۔ یہ تعلیم عمومًا تدریس کے شعبے سے متعلق ہوتی ہے۔ کیوں کہ یہ تصور ہوتا ہے کہ تدریسی عمل خواتین کی سرشت میں اور تدریس کا شعبہ عورتوں کے لیے اس اعتبار سے محفوظ ہے کہ اس میں انھیں کم سے کم گھومنا پھرنا پڑتا ہے، استحصال کا امکان اور پیشوں کے مقابلے کم ہوتا ہے اور آمدنی عمومًا طے شدہ انداز میں مل جاتی ہے۔ یہ صورت حال عام طور سے اسکول سے تعلق رکھتی ہے۔ اکثر اسکولی تدریسی عملہ زیادہ تر خواتین پر مشتمل ہوتا ہے۔ حالاں کہ تقریبًا یہی صورت حال کا لجوں کی بھی ہے۔ تاہم اسکول کے مقابلے میں عورتوں کی شرکت کالجوں کی تدریس میں کم ہے۔ کم ہی خواتین ایم فل یا پی ایچ ڈی کی سطح تک پہنچتی ہیں۔ صحت کے شعبے میں اگر دیکھا جائے تو اکثر دیکھا گیا ہے کہ اوسط درجے کی تعلیم یافتہ مگر تیمار داری کے شعبے میں پڑھی لکھی خواتین کی کثیر تعداد نرسوں کی شکل میں موجود ہے۔ طبی شعبے میں اعلٰی تعلیم حاصل کرنے والی خواتین دل چسپی رکھتی ہیں۔ تاہم تخصیصی طور امراض طفل یا امراض نسواں پر ان طبی پیشہ خواتین کی توجہ زیادہ ہوتی ہے۔

تعلیم نسواں کی اہمیت اقبال کی نظر میں

ترمیم

شاعر مشرق محمد اقبال عورت کو تمدن کی جڑ قرار دیتے ہیں۔ ان کی رو سے اگر دیکھا جائے تو یہ جڑہں یعنی ”عورتوں” کی صرف نگہداشت اور دیکھ بھال تعلیم کے ذریعہ ہی ہو سکتی ہے۔ اگر عورت کو تعلیم دی جائے گی تو تمدن کا درخت بار آور ہوگا وہ پھولے گا، پھلے گا، ورنہ نہیں۔[1]

مزید دیکھیے

ترمیم

حوالہ جات

ترمیم