سیاست اور سماجیات میں، تقسیم کرو اور حکومت کرو/تقسیم کرو اورفتح پائو (لاطینی divide et impera سے ماخوذ) سیاسی، فوجی اور اقتصادی حکمت عملیوں کا ایک مجموعہ ہے جو اقتدار حاصل کرنے اور اسے برقرار رکھنے کے لیے استعمال کیا جاتا ہے۔ اسے 'تقسیم اور فتح' بھی کہا جاتا ہے۔ اس پالیسی کے تحت موجودہ طاقتوں کو تقسیم اور کم کیا جاتا ہے اور انہیں متحد ہونے سے روکنے کی مسلسل کوششیں کی جاتی ہیں۔


انگریزوں نے ہندوستان کو غلام بنانے اور پھر اسے طویل عرصے تک غلام رکھنے کے لیے اس کا بھرپور استعمال کیا [1] اس کے علاوہ تاریخ اس پالیسی کے کامیاب نفاذ کی مثالوں سے بھری پڑی ہے۔

ہندوستان میں انگریزوں کی تقسیم کی پالیسی کی مثالیں

ترمیم

تمام یورپی سامراجی طاقتوں نے برصغیر پاک و ہند میں 'تقسیم کرو اور حکومت کرو' کی پالیسی کو استعمال کیا۔ فرانسیسی اور انگریزوں نے مختلف ہندوستانی ریاستوں کے درمیان جنگوں میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا۔ اس کے ذریعے وہ ایک دوسرے کی طاقت کا اندازہ لگاتے تھے اور اپنی طاقت بڑھانے میں اس کی مدد لیتے تھے۔ انگریزوں نے مختلف طریقوں سے ہندوستان میں ہندو مسلم، ہندو سکھ، اعلیٰ ذات اچھوت وغیرہ کے درمیان تفریق کو بڑھایا اور ہندوستانیوں کے اتحاد کو پارہ پارہ کردیا۔

مذہبی بنیادوں پر علیحدگی

ترمیم

ہندو مسلم علیحدگی - مسلمانوں کے لیے الگ حلقے، ہندو یونیورسٹیاں - مسلم یونیورسٹیاں وغیرہ۔ ہندو سکھ علیحدگی - کچھ لیڈروں کو بلند کیا گیا جو یہ سمجھتے تھے کہ سکھ ہندو نہیں ہیں۔

زبان کی بنیاد پر علیحدگی

ترمیم

ہندی اور اردو کا مسئلہ بہت مصنوعی طریقے سے تیار کیا گیا۔ اور رفتہ رفتہ انہوں نے اسے مضبوط کیا۔ گریئرسن نے ہندوستان میں بڑے پیمانے پر لسانی سروے کیا۔ اس کا مقصد زبان کی بنیاد پر لوگوں کو تقسیم کرنا تھا۔

ذات پات کی تفریق

ترمیم

1881 میں انگریزوں نے مردم شماری میں ذاتوں کو شمار کیا۔ اس نے اونچ نیچ کے احساس کو آگے بڑھایا۔ بعض ذاتوں کو خصوصی طور پر فوج میں بھرتی کیا گیا۔ فوج کے یونٹوں کا نام مختلف ذاتوں کے نام پر رکھا گیا۔ انہوں نے کچھ ذاتوں کے لیے علیحدہ حلقہ بندیوں کا مطالبہ بھی اٹھایا۔