پاکستان کے قلات شہر سے بارہ میل شمال مغرب میں ایک گاؤں توگاؤ نام کا آباد ہے۔ جو ضلع چھپر میں ہے۔ اسی گاؤں سے مشرق کی جانب آدھا میل کے فاصلے پر توگاؤ دمب ( ٹیلہ ) ہے۔ توگاؤ ظرف کا زمانہ انجیرہ کے تیسرے زمانے سے تعلق رکھتے ہیں۔ یہ نہایت نفیس، سخت جان خوب اچھی طرھ آگ میں پکائے ہوئے کھنکھناتے ہوئے ظروف ہیں۔ جیسے ابھی بھٹی سے نکل کر آ رہے ہوں۔ رنگدار پانی ان پر چھڑھایا گیا ہے۔ ان جئ تہ پتلی لیکن اکھڑتی نہیں۔ ان کا رنگ سنگترئی ہے۔ بتنوں کی اشکال میں تنوع کم ہے۔ زیادہ کھلے منہ کے پیالے ملے ہیں۔ پینڈا چپٹا ہے اور دیواریں بالکل عمودی تو نہیں۔ لیکن ان کا باہر کا پھیلاؤ برائے نام ہی۔ ان پیالوں کا قطر ساڑھے بارہ سے لے کر چوبیس سینٹی میٹر تک ہے۔ پیندے کے ارد گرد ہلکا سا پائدانی ابھار ہے۔ ان ظروف کے چار مرحلے بتائے جاتے ہیں ۔

پہلا مرحلہ

ترمیم

ان برتنوں کی خصوصیت یہ ہے کہ ان پر ایک قطار میں ایک ہی جانور کی تصویر آگے پیچھے بنائی گئی ہے۔ زیادہ تر بکری، بھیڑیا اور ہرن ہیں، ایک آدھ جگہ کوئی پرندہ ہے اور ایک جگہ انسانی شکلیں ہیں۔ یہ قطار میں کھڑی عورتیں ہیں۔ جنھوں نے فراک پہن رکھا ہے اور پاؤں سے ننگی ہیں۔ دونوں ہاتھوں اپنے جسموں سے دور کرے آپس میں پیوستہ کیے ہوئے ہیں۔ گردن اور سر ناپید ہیں۔ ہو سکتا ہے یہ مرد ہوں جو خٹک دانس نما کوئی کھیل کھیل رہے ہوں۔ تمام سیاہ رنگ میں بنے ہوئے ہیں۔ جب کہ زمین کا رنگ نارنجی سرخ ہے۔ ان تمام انسانوں، جانوروں اور پرندوں کا رخ بائیں جانب ہے

دوسر ا مرحلہ

ترمیم

اس مرحلے پر جو تصویرں ہیں ان میں جانورں کا جسم حذف کر دیا گیا ہے اور صرف گردن اور سینگ نظر آتے ہیں ۔


تیسرا مرحلہ

ترمیم

اس مرحلے کے برتنوں میں جانوروں کے سینگ تجرید میں آکر صرف ایک لکھیر رہے جاتی ہے اور اس کا رخ بھی دائیں طرف کو ہو جاتا ہے۔ اس جانوروں کی تصویریں کم و بیش ختم ہوجاتی ہیں اور متفرق قسم کی ہندسی اور غیر ہندسی اشکال ظاہر ہوتی ہیں۔ کہیں تو پیالے کے اندر سینگوں کی قطاریں چلی گئی ہے اور کہیں اس کے اندر کی جگہ متوازی لکیریں ہیں۔ کہیں پیالوں کے اندر سیڑھی نما ڈیزاین ہے، کہیں چوکھٹے کے اندر گول سیاہ نشان ہیں، کہیں دھاگے لٹکے ہوئے ہیں، کہیں جالی نما نقشہ ہے۔ الغرض اس قدر تنوع ہے کہ پہلے نظر نہیں آتا ہے۔ توگاؤ کی طرح کے چھتیس مقامات اس جگہ کے گرد و نواح میں ملے ہیں۔ ان کی اشیائ کا مزاج جنوبی بلوچستان کے میدانی علاقے سے ملتاجلتا ہے۔ بلکہ وادی سندھ کی تہذیب سے بھی ملتا جلتا ہے۔ جس مطلب صاف ہے کہ وادی سندھ کی تہذیب پاکستان کی مقامی قدیم ثقافتوں کا ہی ایک نقطہ عروج ہے اور اچانک نہیں ابھری اور نہ باہر سے برآمد کی گئی۔ توگاؤ کی ڈھیری کوبی دو کاردی نے 1948 میں دریافت کیا تھا اور کا نام کوئٹہ ثقافت کا نام دیا تھا۔ بعد میں دوسرے ماہرین نے اسے قلات ثقافت کا نام دیا۔ لیکن یہ درحیققت کوئٹہ ثقافت کا ہی ایک حصہ ہے۔ پگٹ کے نذیک کوئٹہ ظروف مغربی ہندوستان کے قدیم ترین ظروف ہیں لہذا کوئٹہ ثقافت پاکستان کی قدیم ترین ثقافت ہے۔ [1]

[1] یحیٰی امجد۔ تاریخ پاکستان قدیم دور ص: 202 تا 205