دنیا کا پہلا فلسفی - تھے لیز آف مائیلیٹس (Thales of Miletus)

بھری گرمیوں کا دن تھا، دو متحارب بادشاہوں کی فوجیں آپس میں برسرِ پیکار تھیں، اس دن سینکڑوں لاشیں گر چکیں تھیں۔ یہ دونوں فوجیں پچھلے پندرہ سالوں سے آپس میں خون کی ندیاں بہا رہی تھیں کبھی جنگ رک جاتی تھی اور کبھی خون آشام تلواریں ہزاروں جوانوں کو موت کی ابدی نیند سلا دیتی تھیں۔ اور پچھلے پانچ سالوں سے تو بغیر کسی وقفے سے جنگ اور موت کے دیوتا ہی ان کی پرستشوں کے محور تھے۔ کہ یکا یک آسمان نے اپنا رنگ بدلنا شروع کیا۔ ایک عفریت تھی کہ سورج دیوتا کو نگلے جا رہی تھی۔ روزِ روشن، آہستہ آہستہ تاریکی میں بدلنا شروع ہوا، دیکھتے ہی دیکھتے وہ عفریت مکمل طور پر سورج دیوتا کو نگل گئی، لوگوں کو دن دیہاڑے ستارے نظر آنے لگے اور بھری دوپہر میں یوں محسوس ہونے لگا کہ آدھی رات ہے۔ ان متحارب لشکروں نے اپنے سورج دیوتا کا یہ حشر ہوتے دیکھا تو تلواریں، نیزے، بھالے پھینک، سجدے میں گر گئے اور مناجات پڑھنے لگے۔ سورج دیوتا کو آہستہ، آہستہ اس عفریت سے رہائی ملی اور وہ دوبارہ اپنی کرنوں سے دنیا کو ضیاء پاش کرنے لگا۔ لیکن اب دونوں لشکروں کے دل بدل چکے تھے، انھوں نے لڑنے سے انکار کر دیا، انھوں نے کہا کہ دیوتا ان کی خونریزیوں کی وجہ سے ان سے ناراض ہو گئے تھے، اسی وجہ سے سورج دیوتا کو یہ سزا ملی، لہذا یہ موت کا کھیل بند کر کے امن سے رہنا چاہئیے۔ جب پیادے ہی لڑنے کو تیار نہ تھے تو شاہ و وزیر بھلا کیا کرتے سو ان دونوں بادشاہوں نے آپس میں امن کا معاہدہ کیا اور عوام ہنسی خوشی رہنے لگے۔

یہ کوئی دیومالائی کہانی نہیں ہے بلکہ قدیم تاریخ کا ایک ایسا منفرد واقعہ ہے جس کا انتہائی صداقت سے تعین ہو چکا ہے۔ یہ ہمارے مروجہ اور مستعمل کیلنڈر کے مطابق 28 مئی 585قبل مسیح کا دن تھا جس دن سورج گرہن لگا اور یہ دونوں فوجیں قدیم سلطنتوں لیڈیا اور میڈیا کی تھیں، موجودہ دور میں یہ دونوں علاقے، بالترتیب ترکی اور ایران کے حصے بنتے ہیں کہ جو ازمنہء قدیم سے ہی آپس میں برسرِ پیکار رہے ہیں۔ یہ تو شاید مظاہر فطرت کا پہلا واقعہ تھا جسنے ان لوگوں کی پر خون دنیا میں امن پیدا کر دیا۔ لیکن اس واقعے کی اہمیت ایک اور وجہ سے اس بھی زیادہ اہم ہے۔ جس وقت یہ جنگ سورج گرہن کی وجہ سے رکی، اسی وقت لوگوں نے میدانِ جنگ سے ملحقہ ایک شہر میں ایک آدمی کو گھیرے ہوا تھا اور حیران و پریشان تھے کہ اس شخص کو اس سورج گرہن کا کیسے پتہ چل گیا کہ یہ دیوتا بھی نہیں اور اس نے کافی عرصہ پہلے اس سورج گرہن کی پیشن گوئی کر دی تھی۔ ناسا کے سائنسدانوں نے نہ صرف اس سورج گرہن والے واقعے کی تاریخ پر مہرِ تصدیق ثبت کردی ہے، بلکہ اس بات کو بھی مانا ہے کہ ایشیائے کُوچک کے ان علاقوں میں جہاں پر یہ لڑائی جاری تھی، یہ ایک مکمل سورج گرہن تھا۔ یہ پیشن گوئی کرنے والا شخص، تھے لیز تھا جو متفقہ طور پر دنیا میں پہلا فلسفی مانا جاتا ہے۔

علمِ نجوم جو بعد میں ترقی کرکے علمِ ہیت بنا، دنیا کے قدیم ترین علموں میں سے ہے۔ بابل اور مصر کے لوگ آج سے ہزاروں سال پہلے اس کے عالم تھے۔ اس کی ابتدا تو شاید اس وقت ہوئی ہوگی جب انسان نے اپنی تاریک راتوں میں سفر کرنے کے لیے ستاروں کی طرف دیکھا ہوگا اور سینکڑوں، ہزاروں سالوں کے مشاہدے نے اسے سکھلا دیا کہ آسمان میں کچھ ستارے ایسے بھی ہیں، جو ہمیشہ ایک ہی سمت کا تعین کرتے ہیں اور انسے دوسری سمتوں کا تعین بآسانی ہو سکتا ہے، لیکن اس علم کو ترقی اس وقت ملی جب یہ معبدوں کے پروہتوں کے ہاتھ میں آیا۔ اس زمانے کے لوگ اور بہت سارے مظاہرِ فطرت کے ساتھ چاند، سورج اور ستاروں کی بھی پرستش کرتے تھے اور پروہت چونکہ دیوتاؤں کے نائب پوتے تھے اور ان کی بات ہی دیوتاؤں کی بات ہوتی تھی، لہذا یہ ان پروہتوں کی مجبوری تھی کہ وہ اپنے آپ کو اپنے دیوتاؤں کے حالات سے با خبر رکھیں۔ بابل اور مصر کے لوگ آج سے ہزاروں سال پہلے علم نجوم میں کافی ترقی یافتہ تھے۔ ان پروہتوں نے جب اتنہائی بلند و بالا معبدوں کے اونچے اونچے چبوتروں پر بیٹھ کر تاریک راتوں میں آسمان کے ستاروں کا سینکڑوں سالوں تک مشاہدہ کیا اور انکا ریکارڈ رکھنا شروع کیا تو زائچے بن گئے، انھوں نے نہ صرف ستاروں کی گردش اور مختلف موسموں میں ان کی آسمان میں پوزیشن کو نوٹ کیا بلکہ وہ اس بات پر بھی قادر ہو گئے کہ ستاروں کی پوزیشن کے متعلق پیشن گوئیاں کر سکیں اور اسی سے وہ پروہت سورج گرہن اور چاند گرہن کے متعلق پیشن گوئیاں کیا کرتے تھے۔ یہ ایک انتہائی سائینٹفک علم تھا جو مشاہدہ پر مشتمل تھا لیکن ان پروہتوں نے اس پر طلسم و اسرار کے دبیز پردے ڈالے ہوئے تھے۔ وہ عوام کو گرہنوں کی پیشن گوئی کرکے نہ صرف مرعوب کرتے تھے بلکہ ان کو یہ کہہ کر کہ دیوتا ان سے ناراض ہو گئے ہیں، قربانیوں اور مناجات پر مجبور بھی کردیتے تھے۔

تھے لیز ایشیائے کوچک کے بحیرہ روم کے ساحل پر ایک یونانی نوآبادی آئیونیا کے شہر مائیلیٹس کا باشندہ تھا۔ اس کے نسل کے بارے میں مورخ آجتک متفق نہیں ہو سکے، بہت سارے مؤرخین کا کہنا ہے کہ وہ یونانی الاصل تھا لیکن قدیم اور نامور یونانی مؤرخ ہیروڈوٹس کا کہنا ہے کہ وہ فونیشی الاصل یعنی ایشیائی تھا۔ تھے لیز 624 ق-م میں مائیلیٹس میں پیدا ہوا اور 546 ق۔ م میں وہیں وفات پا گیا۔ تھے لیز کا عہد تاریخ کا ایک انتہائی اہم دور ہے، یہ وہ زمانہ تھا جب علم کا مرکز ایشیا سے مغرب کی طرف منتقل ہو رہا تھا۔ قدیم اور عظیم مصری تہذیب اپنی آخری سانسیں لے رہی تھی اور میسوپوٹیمیا کی تہذیب، ایرانی فاتحین کے ہاتھوں تخت و تاراج ہو رہی تھی، گو ابھی دم خم باقی تھا۔ آئیونیا کی شہری ریاستوں کے مصر اور بابل کے ساتھ دوستانہ اور تجارتی روابط تھے اور انہی خوشگوار تعلقات کی وجہ سے تھے لیز کو اپنی جوانی میں ان علاقوں کے سفروں کا مواقع ملے۔ بابل کے سفر کے دوران اس نے وہاں سے علم نجوم یا علم ہیت سیکھا تھا۔ اس کا مصر کا سفر بہت یادگار ہے۔ مصر کی تہذیب ہزاروں سال پرانی ہے اور جب تھے لیز نے اہرامِ مصر دیکھے تو ان کو تعمیر ہوئے بھی تقریباً دو ہزار سال ہو چکے تھے۔ مصر میں تھے لیز نے جیومیڑی اور ریاضی کا علم حاصل کیا۔ مصر میں اس کا ایک واقعہ تو بہت ہی مشہور ہے۔ مصر میں قیام کے دوران اس کے علم کا شہرہ ہو چکا تھا۔ اہلِ مصر نے اس سے پوچھا کہ تم بتاؤ ہمارے اہرام کی اونچائی کتنی ہے کہ یہ بات ان کے لیے ایک چیستان تھی۔ تھے لیز نے کہا یہ تو کوئی بڑی بات نہیں ہے۔ اس نے ان سے کہا کہ ریگستان میں ایک چھڑی گاڑ دو، جب چھڑی کا سایہ اس کی اصل لمبائی کے برابر ہو گیا تو تھے لیز نے کہا اب اہرام کا سایہ ماپ لو، وہ بھی یقینا ان کی اصل اونچائی کے برابر ہوگا، یہ بظاہر سامنے کی بات نظر آتی ہے لیکن تھے لیز نے یہ بات کرکے یقیناّ اہلیانِ مصر کو ششدر کر دیا ہوگا۔ مصر میں اس کے قیام کے دوران اس کی دریائے نیل کی طغیانی جس پر مصر کا دارومدار آج بھی ہے، کے بارے میں تحقیقات بھی کافی مشہور ہیں۔

تھے لیز کی کوئی تحریر باقی نہیں ہے اور بعض مؤرخین کے نزدیک اس نے کوئی کتاب لکھی بھی نہیں تھی، اس بات پر بہرحال مؤرخین و فلاسفہ کا اختلاف ہے۔ تھے لیز کے فلسفے کو دوام ارسطو نے اپنی مختلف کتب میں بیان کرکے بخشا ہے۔ ارسطو نے نہ صرف اس کے فلسفے پر بحث کی ہے بلکہ اس کے حالاتِ زندگی کا بھی ذکر کیا ہے۔ اپنی کتاب سیاسیات میں ارسطو نے اس کے علمِ نجوم میں مہارت کا قصہ بیان کیا ہے۔ ہوا یوں کہ لوگ اس کو غربت کا طعنہ مارا کرتے تھے کہ یوں تو بڑے عالم فاضل بنے پھرتے ہو اور بھوکوں مر رہے ہو، اسنے کہا، اچھا اگر یہ بات ہے تو پھر دیکھنا۔ اس نے علم ہیت میں اپنی مہارت سے اندازہ لگایا کہ اس سال گرما میں موسم کچھ اس طرح کا ہوگا کہ زیتون کی فصل بہت اچھی ہوگی، لہذا اسنے مائیلیٹس اور اس کے ملحقہ علاقوں کے زیتون کا تیل نکالنے والے تمام کارخانے اپنے نام بُک کروالیے۔ یہ سردیوں کا موسم تھا، کارخانے بند پڑے تھے اور اس کے مقابل کوئی بولی لگانے والا بھی نہیں تھا، لہذا اسے بڑے مناسب داموں پر یہ کارخانے مل گئے۔ جب موسمِ گرما میں زیتون کی فصل آئی تو وہ واقعی بہت شاندار تھی، اب ہر کسی کو تیل نکالنے کے لیے کارخانے درکار تھے، تھے لیز نے اپنی من مرضی کے نرخوں پر وہ کارخانے چلائے اور کثیر سرمایہ کمایا اور لوگوں سے کہا کہ دیکھو اگر فلسفی اور علما دولت کمانا چاہئیں تو بہت کما سکتے ہیں لیکن ان کے مقاصد اور طرح کے ہوتے ہیں، یہ تو ارسطو کی بیان کردہ کہانی تھی، اس واقعہ پر ایک ستم ظریف فلسفی نے یہ اضافہ کیا کہ اس تمام قصے میں نہ تو علمِ نجوم میں مہارت درکار تھی اور نہ زیتون کی بہت اچھی فصل کی، بلکہ یہ تو سیدھا سادا تاجرانہ اجارہ داری کا واقعہ ہے۔ اس کا ایک اور واقعہ بھی مشہور ہے ایک دفعہ شام کو وہ کہیں جا رہا تھا اور چلتے چلتے آسمان میں ستاروں کا مشاہدہ بھی کر رہا تھا کہ ایک گڑھے میں گر گیا، اس پر وہاں پر موجود لڑکیوں نے اس کی خوب سبکی کی کہ آسمانوں کی خبر تو رکھتا ہے اور پاؤں کی خبر نہیں۔

تھے لیز کو دنیا میں متفقہ طور پر پہلا فلسفی اور سائنس دان مانا جاتا ہے اور اس کے ساتھ، فزکس جیومیٹری اور ریاضی کا موجد بھی، جیومیٹری کو مصریوں نے بہت پہلے ترقی دی تھی اور تھے لیز نے یہ علم انہی سے سیکھا تھا لیکن اس وقت تک یہ علم بغیر کسی قواعد و ضوابط کے تھا، تھے لیز نے سائنسی بنیادوں پر جیومیٹری کے قواعد و ضوابط منظم کیے اور تھیورم پیش کیے جو بعد میں اقلیدس نے بیان کیے اور آج تک ساری دنیا میں پڑھائے جاتے ہیں۔ فلسفے اور سائنس کا بانی اس لحاظ سے کہ وہ پہلا آدمی تھا جس نے اس کائنات کے وجود میں آنے کی وجوہات کی علمی اور عقلی توجیہات بیان کیں۔ اس سے پہلے جب بھی کوئی سوال پوچھتا تھا کہ دنیا کیسے وجود میں آئی تو ہر طرف سے یہی جواب ملتا تھا کہ اس دیوی اور دیوتاؤں نے بنایا ہے۔ اس نے آفرینشِِ کائنات کے بارے میں مادی اسباب کا فلسفہ بیان کیا اور کہا کہ دنیا پانی سے وجود میں آئی ہے۔ اس نے اور بھی نظریات پیش کیے جو آج کی دنیا کو بچکانہ معلوم ہوتے ہیں مثلاّ یہ کہ زمین چپٹی ہے اور پانی کی سطح پر تیر رہی ہے اور کائنات دیوی دیوتاؤں سے بھری ہوئی ہے، لیکن تھے لیز کا تاریخ انسانیت میں یہ کارنامہ نہیں ہے کہ اس نے پانی کو بنیاد مانا بلکہ یہ ہے کہ اس نے علوم کو خرافاتی پردوں کی دبیز تہوں سے نکال کر خرد کی بات کی اور انسان کو یکایک خرافات اور اسطوریات کی دنیا سے نکال کر خرد افروز تحریک کی بنیاد رکھی۔ بقولِ غالب، میں چمن میں کیا گیا گویا دبستان کھل گیا۔ تھے لیز کے بعد یکے بعد دیگرے بہت سارے فلسفی آسمانِ علم و عقل پر نمودار ہوئے اور اپنے اپنے نظریات پیش کیے۔ جن میں سب سے پہلے اس کا شاگردِ رشید اناکسی مینڈر تھا، اس نے کہا کہ یہ کائنات پانی نے نہیں بنی بلکہ ایک لامحدود زندہ شے ہے۔ یہی اناکسی مینڈر تھا جس نے ڈارون سے دو ہزار سال پہلے نظریہِ ارتقا پیش کیا اور اس کی ایک دلیل یہ دی کہ انسان کا بچہ پیدا ہوتے ہی، دوسرے حیوانات کی طرح اپنی خوراک تلاش نہیں کر سکتا اور اس کا دودھ پینے کا عرصہ بھی زیادہ ہوتا ہے،اس لیے اگر انسان شروع ہی سے ایسا ہوتا تو کبھی زندہ نہ رہ سکتا تھا، لہذا وہ حیوانوں ہی کی ترقی یافتہ شکل ہے۔ اس کے بعد اناکسی منیس نے کہا کہ گو کائنات کا اصول مادی ہے لیکن یہ ہوا سے بنی ہے۔ ہیریقلیتس نے کہا نہیں یہ کائنات آگ سے بنی ہے۔ ایمپے دکلیس نے عناصرِ اربعہ کا نظریہ پیش کیا اور کہا کہ کائنات آگ، ہوا، مٹی اور پانی سے مل کر بنی ہے اور یہی عناصرِ اربعہ کا نظریہ ہے جو آج تک مسلم صوفیوں میں مقبول ہے۔

ایک مفکر، سائنس دان، ریاضی دان، ماہر علمِ نجوم اور جیومیڑی ہونے کے ساتھ ساتھ، تھے لیز انجینیئر اور سیاست دان بھی تھا۔ ان دنوں مائیلیٹس ایک بہت بڑا تجارتی شہر تھا اور وہاں غلاموں کی بہت بڑی آبادی موجود تھی اور امیر و غریب طبقے کی کشمکش عروج پر تھی۔ پہلے عوام نے شہر پر قبضہ کیا اور طبقہ اشرافیہ کے بیوی بچوں کو قتل کر دیا۔ اس کے بعد اشرافیہ نے شہر کو فتح کیا اور غلاموں کو زندہ جلا دیا۔ اسی طرح کے حالات ایشیائے کوچک کی دیگر یونانی شہری ریاستوں کے تھے۔ اس پر مستزاد یہ کے ایرانیوں نے میسوپوٹیمیا کے علاقے فتح کرنے کے بعد اپنا رخ مغرب کی طرف کیا ہوا تھا اور یہ شہری ریاستیں ان کی مستقل زد میں تھیں۔ انہی حالات کو مدِ نظر رکھتے ہوئے، تھے لیز نے شہری ریاستوں کی ایک فیڈریشن کا نظریہ پیش کیا جس کو پزیرائی نہ ملی۔

نطریے کو پزیرائی ملی ہو یا نہ، لیکن تھے لیز کو اپنی زندگی میں ہی بہت پزیرائی مل گئی تھی۔ عمر کے آخری حصے میں اسے عوام کی جانب سے سوفوس یا فلسفی اور حکیم کا خطاب مل چکا تھا۔ قدیم یونانیوں نے سقراط سے پہلے کہ سات دانشور آدمیوں کی فہرست میں اسے نمبر ایک کے درجے پر رکھا ہوا تھا۔ تھے لیز کے بہت سارے مقولے بھی مشہور ہیں۔ جیسے کسی نے اس سے پوچھا کہ خدا کیا ہے، اس نے کہا جس کی نہ ابتدا ہے اور نہ انتہا۔ لوگوں نے پوچھا، انسان امن و سکون اور انصاف کے ساتھ کیسے رہ سکتا ہے، تھے لیز نے کہا، اس طرح کہ ہم ہر وہ کام چھوڑ دیں جس کا دوسروں کو الزام دیتے ہیں۔ کسی نے کہا سب سے مشکل کام کیا ہے، اسنے کہا اپنے آپ کو جاننا۔ اور سب سے زیادہ آسان کام، کسی نے فورا پوچھا۔ "مشورہ دینا"، تھے لیز نے جواب دیا۔

پس نوشت

اس تحریر کا بنیادی مقصد تھے لیز کا تعارف ہے۔ نہ کہ اس کے فلسفے پر بحث۔ جو احباب تھے لیز اور دیگر فلسفیوں کے فلسفے پر تفصیلی بحث پڑھنا چاہتے ہوں وہ مندرجہ ذیل لنکس سے استفادہ کر سکتے ہیں لیکن افسوس کے یہ تمام انگلش میں ہیں کہ اردو میں تو ابھی فلسفے پر بہت کم کتب دستیاب ہیں چہ جائیکہ ویب پر معلومات ہوں۔

http://www.iep.utm.edu/t/thales.htm

http://en.wikipedia.org/wiki/Thales

Bibliography:

-Greek Thinkers. Vol. 1: A History of Ancient Philosophy by Theodor Gomperz (translated from German by Laurie Magnus, 4 Volumes). -The Story of Civilization. Vol. 2: The Life of Greece by Will Durant (11 volumes). -The Story of Philosophy by Will Durant -History of Western Philosophy by Bertrand Russel -Collins Dictionary of Philosophy -Encyclopedia Britannica 1970 ed. -Funk & Wagnalls New Encyclopedia 1978 ed. مختصر تاریخ فلسفہء یونان از ڈاکٹر ویلہلم نیسل- جرمن سے ترجمہ از خلیفہ عبد الحکیم تاریخ فلسفہ از کلیمنٹ-سی-جے-ویب، انگلش سے ترجمہ از احسان احمد روایاتِ فلسفہ از علی عباس جلالپوری