تہافت الفلاسفہ ( عربی زبان: تهافت الفلاسفة) گیاروہویں صدی عیسوی کے فارسی ماہر الہٰیات امام غزالی کی وجہ شہرت ہے اور اسلامی الہٰیات کے اشعری مکتب کا ابتدائی اسلامی فلسفہ کے ابن سینائی مکتب پر تنقید ہے۔[2] مسلم فلسفیوں جیسے کہ ابن سینا اور فارابی کی اس کتاب میں مذمت کی گئی ہے۔ متن ڈرامائی طور پر کامیاب رہا اور اشعری مکتب کے رجحان کا نمائندہ اسلامی فلسفہ اور کلامی گفتگو کا سنگ میل ثابت ہوا۔

تہافت الفلاسفہ
(عربی میں: تهافت الفلاسفة ویکی ڈیٹا پر (P1476) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
مصنف ابو حامد غزالی  ویکی ڈیٹا پر (P50) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
اصل زبان عربی  ویکی ڈیٹا پر (P407) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
موضوع فلسفہ  ویکی ڈیٹا پر (P921) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
تاریخ اشاعت 1095[1]  ویکی ڈیٹا پر (P577) کی خاصیت میں تبدیلی کریں

مسائل ترمیم

امام غزالی نے فلسفے کے بیس مسئلے منتخب کر کے ان پر ناقدانہ نظر ڈالی۔[2] وہ بیس مسئلے مندرجہ ذیل ہیں:

  1. عالم کے ازلی (ہمیشہ سے ہونے) ہونے کا ابطال(ردّ)۔
  2. عالم کے ابدی (ہمیشہ تک رہنے) ہونے کا ابطال(ردّ)۔
  3. عالم کو خدا کی صفت ماننا۔
  4. فلاسفہ صانع عالم (خدا) کا وجود ثابت کرنے سے عاجز ہیں، اس کی توضیح۔
  5. فلاسفہ دو خداؤں کے محال ہونے پر دلیل قائم کرنے سے عاجز ہیں۔
  6. فلاسفہ جو خدا کی صفات کی نفی کرتے ہیں، اس کا ابطال(ردّ)۔
  7. فلاسفہ جو کہتے ہیں کہ اول (خدا) کی ذات جنس اور فصل میں منقسم نہیں ہو سکتی۔ اس کا ابطال(ردّ)۔
  8. فلاسفہ جو یہ کہتے ہیں کہ اول (خدا) موجود بسیط بلا مائیت ہے، اس کا ابطال(ردّ)۔
  9. فلاسفہ کہتے ہیں کہ اول (خدا) جسم نہیں ہے۔
  10. دہریت کی توضیح اور اس بات کی وضاحت کہ اس قول کے قائلین کے لیے صانع عالم کی نفی لازم ہے۔
  11. فلاسفہ یہ ثابت کرنے سے عاجز ہیں کہ اول (خدا) اپنے غیر کو جانتا ہے۔
  12. فلاسفہ یہ ثابت کرنے سے عاجز ہیں کہ اول (خدا) اپنی ذات کو جانتا ہے۔
  13. فلاسفہ کے اس قول کا ابطال کہ اول (خدا) جزغیات (متغیرہ حادثہ) کا عالم نہيں ہے۔
  14. فلاسفہ جو یہ کہتے ہیں کہ فلک ذی حیات ہے اور اپنے ارادے سے حرکت کرتا ہے، اس کا بطلال(ردّ)۔
  15. فلاسفہ نے جن اغراض کا ذکر کیا ہے کہ وہ فلک کی محرک ہیں، ان کا ابطال(ردّ)۔
  16. فلاسفہ جو کہتے ہیں کہ نفوس فلک کو اس عالم کی تمام جزئیات حادثہ کا علم ہے، اس کا بطال(ردّ)۔
  17. فلاسفہ جو خرق عادت کو محال کہتے بتاتے ہیں، اس کا ابطال(ردّ)۔
  18. فلاسفہ اس بات پر کہ نفس انسانی جوہر قائم بنفسہ ہے جو نہ جسم ہے اور نہ عرض، عقلی دلیل قائم کرنے سے عاجز ہیں، اس کی توضیح۔
  19. فلاسفہ نفوس بشریہ پر فنا کو محال بتاتے ہیں، اس کا ابطال(ردّ)۔
  20. فلاسفہ کو بعث بعد الموت اور حشر اجساد سے انکار ہے نیز اس بات سے بھی کہ جنت دوذخ میں جسمانی لذات و تکالیف سے دوچار ہوں گے، اس کا بطال(ردّ)۔[3]

ملاحظات ترمیم

  1. https://archive.org/details/frank-griffel-al-ghazalis-philosophical-theology — صفحہ: 101
  2. ^ ا ب ابن سینا، 20 اپریل 2009 میں اصل سے آرکائیو شدہ، اخذ شدہ بتاریخ 30 دسمبر 2007 
  3. شبیر احمد غوری۔ "عہد حاضر کا تہافت الفلاسفہ"۔ معارف رضا۔ 32 (4): 10۔ 25 دسمبر 2018 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 09 جولا‎ئی 2017  "آرکائیو کاپی"۔ 13 جولا‎ئی 2017 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 09 جولا‎ئی 2017 

حوالہ جات ترمیم