تین طلاق
اسلام میں طلاق ایک سیفٹی والو کی حیثیت رکھتی ہے کہ جب میاں بیوی کا اپس میں اکٹھے رہنا ناممکن ہو جائے اور علیحدگی ناگزیر ہو جائے تو اس حق کو استعمال کیا جا سکتا ہے لیکن یہ بہت اہم اور نازک معاملہ ہے۔ اس فیصلے کو فوری طور پر یا کسی وقتی جذباتی رد عمل کے نتیجے میں کرنے کی بجائے تین ماہ کا وقت رکھا گیا ہے۔ تین ماہ کے اندر مرد اور عورت اچھی طرح سے اپس میں بیٹھ کر غور و فکر اور سوچ و بچار کر لیں کہ ایا وہ اکٹھے رہ سکتے ہیں یا نہیں اور ان کو علاحدہ ہو جانا چاہیے یا نہیں لیکن اگر کوئی شخص تین ماہ کے اس عرصے کو استعمال کرنے کی بجائے ایک ہی ماہ میں تین طلاقیں دے دیتا ہے یا ایک ہی مجلس میں تین طلاق دے دیتا ہے یا یکبارگی منہ سے تین طلاق نکال دیتا ہے تو یہ سخت نافرمانی ہے گناہ ہے بدعت ہے اور ایسا کرنے والا سخت گنہگار ہوتا ہے لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ایا ایسی طلاق واقع ہوتی ہے یا کہ نہیں چنانچہ اس مسئلے میں دو ارا ہیں ایک گروہ کہتا ہے کہ طلاق باوجود نافرمانی کے واقع ہو جاتی ہے اور دوسرا گروہ کہتا ہے کہ واقع نہیں ہوتی یہ ایک ہی طلاق گنی جاتی ہے آئیے دونوں کے دلائل کا جائزہ لیں
طلاق اور قرآن
ترمیمتین طلاق اور قرآن یا أَيُّهَا النَّبِيُّ إِذَا طَلَّقْتُمُ النِّسَاءَ فَطَلِّقُوهُنَّ لِعِدَّتِهِنَّ وَأَحْصُوا الْعِدَّةَ۔ اے نبی! جب تم عورتوں کو (حالت ناگزیر میں) طلاق دو تو انھیں ان کی عدت (طہر) کے وقت طلاق دو اور عدت کو گنو (تین ماہ پورے کرو) وَتِلْكَ حُدُودُ اللَّهِ وَمَنْ يَتَعَدَّ حُدُودَ اللَّهِ فَقَدْ ظَلَمَ نَفْسَهُ اور یہ اللہ کی مقرر کردہ حدیں ہیں اور جو اللہ کی حدوں سے آگے بڑھے تو یقینا اس نے اپنے آپ پر خود ہی ظلم کیا لَا تَدْرِي لَعَلَّ اللَّهَ يُحْدِثُ بَعْدَ ذَلِكَ أَمْرًا تجھے کیا پتہ کہ شاید اللہ اس کے بعد (دوران تین ماہ) کوئی نئی بات (آپس میں صلح اور دل کا میلان) پیدا کر دیتا (لیکن تم نے تین ماہ کی بجایے ایک ہی ماہ میں طلاق دیکر اللہ کی حد کو کراس کیا اور حق رجوع سے محروم ہو کر خود ہی اپنے پر ظلم کر لیا اور اس دوران باہمی میلان کے موقع کو بھی کھو دیا)۔[1]
تفسیر ابن کثیر
ترمیمصحیح بخاری میں ہے کہ سیدنا عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نے اپنی بیوی صاحبہ کو حیض کی حالت میں طلاق دے دی، سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے یہ واقعہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے بیان کیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم ناراض ہوئے اور فرمایا: ”اسے چاہیے کہ رجوع کر لے، پھر حیض سے پاک ہونے تک روکے رکھے، پھر دوسرا حیض آئے اور اس سے نہا لیں پھر اگر جی چاہے طلاق دیں“، یعنی اس پاکیزگی کی حالت میں بات چیت کرنے سے پہلے، یہی وہ عدت ہے جس کا حکم اللہ تعالیٰ نے دیا ہے دوسری روایت میں «فَطَلِّقُوهُنَّ لِعِدَّتِهِنَّ» یعنی طہر کی حالت میں جماع سے پہلے، بہت سے بزرگوں نے یہی فرمایا ہے، سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں یعنی حیض میں طلاق نہ دو، نہ اس طہر میں طلاق دو جس میں جماع ہو چکا ہو بلکہ اس وقت تک چھوڑ دے جب حیض آ جائے پھر اس سے نہا لے تب ایک طلاق دے۔ عکرمہ فرماتے ہیں ” «عدت» سے مراد طہر ہے۔“ «قرء» سے مراد حیض ہے یا حمل کی حالت میں، جب حمل ظاہر ہو، جس طہر میں مجامعت کر چکا ہے اس میں طلاق نہ دے نہ معلوم حاملہ ہے یا نہیں، یہیں سے فقیہ علما نے احکام طلاق لیے ہیں اور طلاق کی دو قسمیں کی ہیں طلاق سنت اور طلاق بدعت۔ عدت کا زمانہ مطلقہ عورت کو خاوند کے گھر گزارنے کا حکم دینا اس مصلحت سے ہے کہ ممکن ہے اس مدت میں اس کے خاوند کے خیالات بدل جائیں، طلاق دینے پر نادم ہو، دل میں لوٹا لینے کا خیال پیدا ہو جائے اور پھر رجوع کر کے دونوں میاں بیوی امن و امان سے گزارا کرنے لگیں، نیا کام پیدا کرنے سے مراد بھی رجعت ہے۔ نان نفقہ، گھربار خاوند کے ذمہ اس صورت میں ہے کہ اسے حق رجعت حاصل ہو جب یہ نہیں تو وہ بھی نہیں "جب عورت کو وہ طلاق مل جائے جس کے بعد وہ اپنے پہلے خاوند پر حرام ہو جاتی ہے، جب تک دوسرے سے نکاح اور پھر طلاق نہ ہو جائے، تو اس صورت میں عدت کا نان نفقہ اور رہنے کا مکان اس کے خاوند کے ذمہ نہیں“۔ [2]
فَإِذَا بَلَغْنَ أَجَلَهُنَّ فَأَمْسِكُوهُنَّ بِمَعْرُوفٍ أَوْ فَارِقُوهُنَّ بِمَعْرُوفٍ۔ پھر جب وہ اپنی میعاد کو پہنچنے لگیں تو انھیں اچھے طریقے سے روک لو یا اچھے طریقے سے ان سے جدا ہو جاؤ [3] عدت والی عورتوں کی عدت جب پوری ہونے کے قریب پہنچ جائے تو ان کے خاوندوں کو چاہیے کہ دو باتوں میں سے ایک کر لیں یا تو انھیں بھلائی اور سلوک کے ساتھ اپنے ہی نکاح میں روک رکھیں یعنی طلاق جو دی تھی اس سے رجوع کر کے باقاعدہ اس کے ساتھ بود و باش رکھیں یا انھیں طلاق دے دیں۔[4]
تفسیر قرطبی
ترمیممسئلہ نمبر 6 ۔ جس نے ایسے طہر میں طلاق دی جس میں اس نے جماع نہ کیا ہو اس کی طلاق نافذ ہو جائے گی اور اس نے سنت کو پا لیا۔ اگر اس نے حائضہ عورت کو طلاق دی اس کی طلاق نافذ ہو جائے گی اور اس نے سنت کی خلاف ورزی کی۔ سعید بن مسیب نے کہا : حیض کی حالت میں طلاق واقع نہ ہوگی کیونکہ یہ طلاق سنت کے خلاف ہے۔ شیعہ کا بھی یہ نقطہ نظر ہے۔ (اس کے برعکس) صحیحین میں ہے حضرت عبد اللہ بن عمر سے مروی ہے کہا : میں نے اپنی بیوی کو طلاق دی جبکہ وہ حالت حیض میں تھی۔ حضرت عمر نے اس کا ذکر رسول اللہ ﷺ سے کیا۔ رسول اللہ ﷺ سخت ناراض ہوئے۔ فرمایا : ” وہ رجوع کرے پھر اسے اپنے پاس روکے رکھے یہاں تک کہ اسے نیا حیض آئے۔ یہ حیض اس حیض کے علاوہ ہو جس میں اس نے پہلے طلاق دی تھی۔ ہھر اگر مناسب سمجھے کہ اسے طلاق دے تو حیض سے پاک ہوتے ہی اسے طلاق دے دے جبکہ ابھی اس سے جماع نہ کیا ہو۔ یہی وہ طلاق ہے جس میں عدت کو ملحوظ خاطر رکھا گیا ہے جس طرح اللہ تعالی نے حکم دیا۔ حضرت عبد اللہ بن عمر نے اسے ایک طلاق دی تھی۔ اسے طلاق شمار کیا گیا اور حضرت عبد اللہ ؓ نے اس سے رجوع کیا جس طرح رسول اللہ ﷺ نے حکم دیا تھا۔ حضرت ابن عمر ؓ سے ایک روایت میں ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : ” یہ ایک ہے“۔ یہ نص ہے اور شیعہ (ودیگر) کے قول کو رد کرتی ہے۔ امام شافعی نے تین طلاقوں کو ایک ہی کلمہ سے واقع کرنے کا جو استدلال کیا ہے وہ اس حدیث سے ہے جسے امام دار قطنی نے سلمہ بن ابی سلمہ بن عبد الرحمان سے اور وہ اپنے باپ سے روایت نقل کرتے ہیں کہ 1۔ عبد الرحمان بن عوف نے اپنی بیوی کو طلاق دی جس کا نام تماضر بنت اصبغ کلبیہ تھا۔ یہی ام ابی سلمہ تھی۔ آپ نے ایک کلمہ کے ساتھ اسے تین طلاقیں دیں ہمیں ایسی خبر نہیں پہنچی جس میں یہ تذکرہ ہو کہ صحابہ نے ان پر عیب لگایا ہو۔ 2۔ سلمہ بن ابی سلمہ اپنے باپ سے روایت نقل کرتے ہیں کہ حضرت حفص بن مغیرہ نے اپنی بیوی حضرت فاطمہ بنت قیس کو رسول اللہ علیم کے زمانہ میں ایک کلمہ کے ساتھ تین طلاقیں دیں۔ نبی کریم ﷺ نے اسے حضرت حفص سے جدا کر دیا۔ ہمیں یہ خبر نہیں پہنچی کہ رسول اللہ لی تم نے اس پر عیب لگایا ہو۔ 3۔ اور حضرت عویمر عجلانی کی حدیث سے استدلال کیا جب انھوں نے اپنی بیوی سے لعان کیا۔ انھوں نے کہا : یا رسول اللہ ! اسے تین طلاقیں دیتا ہوں نبی کریم ﷺ نے اس پر ناراضی کا اظہار نہیں کیا۔۔ مسئلہ نمبر 14 ۔ و تلک حدود اللہ یہ احکام جن کو واضح کیا ہے یہ اللہ تعالیٰ کے بندوں پر احکام ہیں، اللہ تعالی نے ان سے تجاوز سے منع کیا ہے۔ جس نے تجاوز کیا اس نے اپنے نفس پر ظلم کیا اور اپنے آپ کو ہلاکت کے گھاٹ اتارا۔
لاتدرى لعل الله يحدث بعد ذلك امرا
ترمیمیعنی وہ امر جو اللہ تعالیٰ پیدا فرما دے گا۔ اس سے مراد ہے اس کے دل میں بغض کی بجائے محبت، اعراض کی بجائے رغبت اور طلاق کے پختہ عزم کی بجائے شرمندگی پیدا فرمادے گا تو وہ اس سے رجوع کرے گا۔ تمام مفسرین نے کہا : یہاں امر سے مراد رجوع میں رغبت پیدا کرنا ہے۔ پہلے یہ قول گذر چکا ہے۔ ایک طلاق پر ترغیب دینے کا اور تین طلاقوں سے منع کرنا مقصود ہے کیونکہ جب وہ تین طلاقیں دے چکے گا تو فراق پر شرمندگی کے وقت اور رجوع میں رغبت کے وقت اپنے آپ کو نقصان پہنچائے گا اور رجوع کی کوئی صورت نہیں پائے گا۔ [5]
تین کو تین کہنے کے دلائل
ترمیماحادیث نبویہ ﷺ
ترمیم- نافع بن عجیر بن عبد یزید بن رکانہ سے مروی ہے کہ رکانہ بن عبد یزید نے اپنی بیوی سہیمہ کو بتہ طلاق دے دی ۔ پھر نبی ﷺ کو اس کی خبر دی اور کہا : قسم اللہ کی ! میں نے اس سے ایک ہی کا ارادہ کیا تھا ۔ تو رسول اللہ ﷺ نے فرمایا :’’ قسم سے ! تو نے صرف ایک ہی کا ارادہ کیا تھا ؟“ رکانہ نے کہا : اللہ کی قسم ! میں نے صرف ایک ہی کا ارادہ کیا تھا ۔ تو رسول اللہ ﷺ نے اس کی بیوی کو اس پر لوٹا دیا ۔ چنانچہ اس نے اس کو دوسری طلاق حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے دور میں اور تیسری طلاق حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے دور میں دی [6] ف: بتہ اس طلاق کو کہتے ہیں جس میں تین دفعہ طلاق کا لفظ بولا جائے اور یہ واضح نا ہو کہ اس سے مراد قطیعت ہے یا محض تاکید ۔ اس سے یہ پتہ چلتا ہے کہ اگر تین ایک کے برابر ہوتی تو آپ ﷺ اس سے حلف نا لیتے
- حضرت محمود بن لبید رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ کو ایک آدمی کے بارے میں بتایا گیا جس نے اپنی بیوی کو اکٹھی تین طلاقیں دے دی تھیں ۔ آپ غصے کی حالت میں اٹھ کھڑے ہوئے اور فرمایا ’’ کیا میری موجودگی میں اللہ تعالیٰ کی کتاب سے کھیلا جاتا ہے ؟ ‘‘ حتیٰ کہ ایک آدمی کھڑا ہو کر کہنے لگا : اے اللہ کے رسول ! کیا میں اسے قتل نہ کر دوں ؟ [7] ف: اگر تین سے ایک ہی واقع ہوتی ہے تو آپ ﷺ کو اس پر اتنا غصہ نا اتا۔ یہ ومن یتعد حدوداللہ فقد ظلم نفسہ لعل اللہ یحدث بعد ذلک امرا کی تفسیر بھی ہے
- لعان سے جب دونوں فارغ ہوئے تو حضرت عویمر رضی اللہ عنہ نے عرض کیا : یا رسول اللہ ! اگر اس کے بعد بھی میں اسے اپنے پاس رکھوں تو ( اس کا مطلب یہ ہو گا کہ ) میں جھوٹا ہوں ۔ چنانچہ انہوں نے حضور اکرم ﷺ کے حکم سے پہلے ہی اپنی بیوی کو تین طلاق دی ۔ ابن شہاب نے بیان کیا کہ پھر لعان کرنے والے کے لیے یہی طریقہ جاری ہو گیا [8] ف: آپ ﷺ کی موجودگی میں تین اکٹھی طلاق دی گئیں اور اپ خاموش رہے جس سے اسکی تائید ظاہر ہوتی ہے بلکہ اگلی روایت میں ہے کہ آپ نے پھر آن میں جدائی کروا دی اور وہ حاملہ بھی تھی
- راوی نے بیان کیا کہ پھر دونوں میاں بیوی نے لعان کیا اور میں اس وقت آنحضرت ﷺ کی خدمت میں حاضر تھا ۔ پھر آپ نے دونوں میں جدائی کرا دی اور دو لعان کرنے والوں میں اس کے بعد یہی طریقہ قائم ہو گیا کہ ان میں جدائی کرا دی جائے ۔ ان کی بیوی حاملہ تھیں.. [9]
حالت حیض میں طلاق منع ہے لیکن شمار ہوئی
ترمیم- ابن عمر رضی اللہ عنہما نے اپنی بیوی کو حالت حیض میں طلاق دے دی ۔ پھر عمر رضی اللہ عنہ نے اس کا ذکر نبی کریم ﷺ سے کیا ، آنحضرت ﷺ نے اس پر فرمایا کہ چاہیے کہ رجوع کر لیں ۔ (انس نے بیان کیا کہ) میں نے ابن عمر رضی اللہ عنہما سے پوچھا کہ کیا یہ طلاق ، طلاق سمجھی جائے گی ؟ انہوں نے کہا کہ چپ رہ ۔ پھر کیا سمجھی جائے گی ؟ اور قتادہ نے بیان کیا ، ان سے یونس بن جبیر نے اور ان سے ابن عمر رضی اللہ عنہما نے بیان کیا ( کہ آنحضرت ﷺ نے ابن عمر رضی اللہ عنہما سے ) فرمایا : اسے حکم دو کہ رجوع کر لے ( یونس بن جبیر نے بیان کیا کہ ) میں نے پوچھا ، کیا یہ طلاق ، طلاق سمجھی جائے گی ؟ ابن عمر رضی اللہ عنہما نے کہا تو کیا سمجھتا ہے اگر کوئی کسی فرض کے ادا کرنے سے عاجز بن جائے یا احمق ہو جائے ۔ (تو وہ فرض اس کے ذمہ سے ساقط ہو گا ؟ ہرگز نہیں ، مطلب یہ کہ اس طلاق کا شمار ہو گا) [10]
- میں نے ابن عمر رضی اللہ عنہما سے پوچھا تو انہوں نے بتلایا کہ ابن عمر رضی اللہ عنہما نے اپنی بیوی کو طلاق دے دی ، اس وقت وہ حائضہ تھیں ۔ پھر حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے اس کے متعلق نبی کریم ﷺ سے پوچھا تو آنحضرت ﷺ نے حکم دیا کہ ابن عمر رضی اللہ عنہما اپنی بیوی سے رجوع کر لیں ۔ پھر جب طلاق کا صحیح وقت آئے تو طلاق دیں ( یونس بن جبیر نے بیان کیا کہ ابن عمر رضی اللہ عنہما سے ) میں نے پوچھا کہ کیا اس طلاق کا بھی شمار ہوا تھا ؟ انہوں نے بتلایا کہ اگر کوئی طلاق دینے والا شرع کے احکام بجا لانے سے عاجز ہو یا احمق بیوقوف ہو ( تو کیا طلاق نہیں پڑے گی؟) [11]
- عبداللہ بن نمیر نے ہمیں حدیث بیان کی کہ ہمیں عبیداللہ نے نافع سے حدیث بیان کی ، انہوں نے حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت کی ، انہوں نے کہا : میں نے رسول اللہ ﷺ کے عہد مبارک میں اپنی بیوی کو جب وہ حیض کی حالت میں تھی ، طلاق دے دی ۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے یہ بات رسول اللہ ﷺ کو بتائی تو آپ نے فرمایا :’’ اسے حکم دو کہ اس سے رجوع کرے پھر اسے ( اپنے پاس رکھ ) چھوڑے حتی کہ وہ پاک ہو جائے ، پھر اسے دوسرا حیض آئے ، اس کے بعد جب وہ پاک ہو جائے تو مباشرت کرنے سے پہلے اسے طلاق دے یا اسے اپنے پاس رکھے ۔ بلاشبہ یہی وہ عدت ہے جس کا اللہ تعالیٰ نے حکم دیا ہے کہ اس کے مطابق عورتوں کو طلاق دی جائے۔ عبیداللہ نے کہا : میں نے نافع سے پوچھا : طلاق کا کیا کیا گیا ؟ انہوں نے جواب دیا : وہ ایک تھی ، اس کو شمار کیا گیا [12]
- امام زہری کے بھتیجے محمد نے ہمیں اپنے چچا زہری سے حدیث بیان کی کہ ہمیں سالم بن عبداللہ نے خبر دی کہ حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نے کہا : میں نے اپنی بیوی کو اس حالت میں طلاق دی کہ وہ حائضہ تھی ، حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے یہ بات نبی ﷺ کو بتائی تو رسول اللہ ﷺ سخت غصے میں آئے ، پھر فرمایا اسے حکم دو کہ اس سے رجوع کرے تا آنکہ اسے اس حیض کے سوا جس میں اس نے اسے طلاق دی ہے دوسرا حیض شروع ہو جائے ۔ اس کے بعد اگر وہ اسے طلاق دینا چاہے تو اسے ( دوسرے حیض کے بعد ) پاک ہونے کی حالت میں ، مباشرت کرنے سے پہلے طلاق دے ، یہی عدت کے مطابق طلاق ہے جس طرح اللہ نے حکم دیا ہے ۔‘‘ اور حضرت عبداللہ ( بن عمر رضی اللہ عنہما ) نے اسے ایک طلاق دی تھی اور اس کی وہ طلاق شمار کی گئی اور عبداللہ رضی اللہ عنہ نے ، جس طرح رسول اللہ ﷺ نے انہیں حکم دیا تھا ، اس سے رجوع کیا [13]
- زبیدی نے زہری سے اسی سند کے ساتھ یہ حدیث بیان کی ، لیکن انہوں نے کہا : حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہما نے فرمایا : میں نے اس سے رجوع کر لیا اور اس کی وہ طلاق شمار کر لی گئی جو میں نے اسے دی تھی [14]
- ابن سیرین نے کہا : بیس برس تک مجھ سے ایک شخص روایت کرتا تھا کہ سیدنا ابن عمر ؓ نے اپنی عورت کو تین طلاق دیں حالت حیض میں اور میں اس راوی کو متہم نہ جانتا تھا پھر اس نے روایت کیا کہ نبی ﷺ نے حکم دیا کہ رجوع کرے اس عورت سے اور میں اس کی اس روایت کو نہ متہم کرتا تھا اور نہ حدیث کو بخوبی جانتا تھا کہ صحیح کیا ہے یہاں تک کہ میں ابوغلاب یونس بن جبیر باہلی سے ملا اور وہ پکے آدمی تھے سو انھوں نے مجھ سے بیان کیا کہ میں نے ابن عمر ؓ سے پوچھا تو انھوں نے کہا کہ میں نے ایک طلاق دی تھی اور وہ حائضہ تھی اور مجھے رجعت کا حکم دیا پھر میں نے ابن عمر ؓ سے پوچھا کہ وہ طلاق بھی تم نے حساب میں رکھی (یعنی اگر دو طلاق دو تو وہ ملا کر تین پوری ہو جائیں) انھوں نے کہا : کیوں نہیں اگر وہ (شریعت کے علم حاصل کرنے سے) عاجز ہو گیا یا (باوجود علم کے غصے میں عقل کو مغلوب کر کے) احمق ہو گیا (تو طلاق واقع کیوں نا ہوگی) [15]
- یونس بن جبیر نے کہا کہ میں نے سیدنا ابن عمر ؓ سے پوچھا کہ ایک شخص نے اپنی عورت کو طلاق دی حیض میں تو انھوں نے فرمایا کہ کیا تو عبداللہ بن عمر ؓ کو جانتا ہے انہوں نے بھی اپنی عورت کو حیض میں طلاق دی تھی، پھر سیدنا عمر بن خطاب ؓ نبی ﷺ کے پاس گئے اور پوچھا، تو آپ ﷺ نے حکم دیا کہ اس سے رجوع کرے اور پھر سرے سے عدت شروع کرے پھر میں نے ان سے پوچھا کہ جب کسی نے حیض میں طلاق دی تو وہ طلاق بھی شمار کی جائے گی۔ انھوں نے کہا کہ چپ رہ، کیا وہ عاجز ہو گیا ہے یا احمق ہو گیا ہے جو اس کو شمار نہ کرے گا (یعنی ضرور شمار ہو گی) [16]
- قتادہ سے روایت ہے ، انہوں نے کہا : میں نے یونس بن جبیر سے سنا ، انہوں نے کہا : میں نے ابن عمر رضی اللہ عنہما کو یہ کہتے ہوئے سنا : میں نے اپنی بیوی کو حالت حیض میں طلاق دی ، اس پر حضرت عمر رضی اللہ عنہ نبی ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور آپ کو یہ بات بتائی تو نبی ﷺ نے فرمایا :’’ وہ اس سے رجوع کرے ، اس کے بعد جب وہ پاک ہو جائے تو اگر وہ چاہے اسے طلاق دے دے ۔‘‘ ( یونس نے ) کہا : میں نے ابن عمر رضی اللہ عنہما سے پوچھا : کیا آپ اس طلاق کو شمار کریں گے ؟ انہوں نے کہا : اس سے کیا چیز مانع ہے ؟ تمہاری کیا رائے ہے اگر وہ خود ( صحیح طریقہ اختیار کرنے سے ) عاجز رہا اور نادانی والا کام کیا ( تو طلاق کیوں شمار نہ ہو گی ! ) [17]
- عبدالملک نے انس بن سیرین سے روایت کی ، انہوں نے کہا : میں نے حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہما سے ان کی اس بیوی کے بارے میں سوال کیا جسے انہوں نے طلاق دی تھی ۔ انہوں نے کہا : میں نے اسے حالت حیض میں طلاق دی تھی ۔ میں نے یہ بات حضرت عمر رضی اللہ عنہ کو بتائی تو انہوں نے یہی بات نبی ﷺ کو بتائی ۔ اس پر آپ نے فرمایا :’’ اسے حکم دو کہ وہ اس سے رجوع کرے اور جب وہ پاک ہو جائے تو اسے اس کے طہر میں طلاق دے ۔‘‘ کہا : میں نے اس ( بیوی ) سے رجوع کیا ، پھر اس کے طہر میں اسے طلاق دی ۔ میں نے پوچھا : آپ نے وہ طلاق شمار کی جو اسے حالت حیض میں دی تھی ؟ انہوں نے جواب دیا : میں اسے کیوں شمار نہ کرتا ؟ اگر میں خود ہی (صحیح طریقہ اپنانے سے) عاجز رہا تھا اور حماقت سے کام لیا تھا (تو کیا طلاق شمار نہ ہو گی؟) [18]
- سیدنا ابن عمر ؓ کہتے ہیں کہ میں نے اپنی بیوی کو حیض کی حالت میں طلاق دی تو سیدنا عمر ؓ نبی ﷺ کے پاس آئے اور ان کو خبر دی آپ ﷺ نے فرمایا : کہ ” اس کو حکم دو کہ رجوع کرے جب پاک ہو جائے تو پھر طلاق دے۔ “ میں نے پوچھا : کیا وہ طلاق شمار کی گئی تھی ؟ آپ نے فرمایا کیوں نہیں۔[19]
طلاق ہر حال میں واقع ہو جاتی ہے خواہ مذاق سے بھی دے
ترمیم- ابوہریرہ ؓ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : ” تین کام ہیں جو سنجیدگی سے کرنا بھی حقیقت ہے اور مذاق کے طور پر کرنا بھی حقیقت ہے، ایک نکاح، دوسرے طلاق، تیسرے (طلاق سے) رجعت [20]
حضرت عبداللہ بن عمر ؓ کا فتوی
ترمیم- عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے اگر ایسے شخص کا مسئلہ پوچھا جاتا جس نے اپنی بیوی کو تین طلاق دی ہوتی ، تو وہ کہتے اگر تو ایک بار یا دو بار طلاق دیتا تو رجوع کر سکتا تھا کیونکہ آنحضرت ﷺ نے مجھ کو ایسا ہی حکم دیا تھا لیکن جب تو نے تین طلاق دے دی تو وہ عورت اب تجھ پر حرام ہو گئی یہاں تک کہ وہ تیرے سوا اور کسی شخص سے نکاح کرے [21]
- عبداللہ بن عمر ؓ سے جب یہ مسئلہ پوچھا جاتا تھا تو وہ کہتے تھے کہ تو نے اپنی عورت کو ایک یا دو طلاق دی ہیں (تو رجوع ہو سکتا ہے) اس لیے کہ رسول اللہ ﷺ نے مجھے اس کا حکم دیا تھا اور اگر تو نے تین طلاق دی ہیں تو وہ عورت تجھ پر حرام ہو گئی جب تک کہ وہ دوسرے مرد سے نکاح نہ کرے اور وہ اسے طلاق دے اور نافرمانی کی تو نے اللہ کی اس طلاق کے بارے میں جو تیری عورت کے لیے تجھے سکھایا تھا۔ مسلم نے فرمایا کہ اس روایت میں ایک طلاق کا لفظ جو لیث نے کہا خوب کہا۔ [22]
- سیدنا عبداللہ بن عمر ؓ کہتے تھے کہ اگر تو نے اپنی عورت کو تین طلاق دیں تو تو نے طلاق کے حکم میں اپنے رب کی نافرمانی کی اور وہ عورت تجھ سے جدا ہو گئی۔[23]
حضرت عبداللہ بن عباس ؓ کا فتوی
ترمیم- مجاہد کہتے ہیں : میں ابن عباس ؓ کے پاس تھا کہ ایک آدمی آیا اور ان سے کہنے لگا کہ اس نے اپنی بیوی کو تین طلاق دے دی ہے، ابن عباس ؓ خاموش رہے، یہاں تک کہ میں نے سمجھا کہ وہ اسے اس کی طرف لوٹا دیں گے، پھر انھوں نے کہا : تم لوگ بیوقوفی تو خود کرتے ہو پھر آ کر کہتے ہو : اے ابن عباس ! اے ابن عباس ! حالانکہ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے « ومن يتق اللہ يجعل لہ مخرجا » اور تو اللہ سے نہیں ڈرا لہٰذا میں تیرے لیے کوئی راستہ بھی نہیں پاتا، تو نے اپنے پروردگار کی نافرمانی کی لہٰذا تیری بیوی تیرے لیے بائنہ ہو گئی، اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے « يا أيہا النبي إذا طلقتم النساء فطلقوہن »، « في قبل عدتہن [24]
ف:ابوداؤد کہتے ہیں : اس حدیث کو 1۔ حمید اعرج وغیرہ نے مجاہد سے، 2۔ مجاہد نے ابن عباس ؓ سے روایت کیا ہے۔ اور اسے 3۔ شعبہ نے عمرو بن مرہ سے عمرو نے سعید بن جبیر سے سعید نے ابن عباس ؓ سے روایت کیا ہے۔ اور 4۔ ایوب و ابن جریج نے عکرمہ بن خالد سے عکرمہ نے سعید بن جبیر سے سعید نے ابن عباس ؓ سے اور 5۔ ابن جریج نے عبد الحمید بن رافع سے ابن رافع نے عطاء سے عطاء نے ابن عباس ؓ سے روایت کیا ہے۔ نیز اسے 6۔ اعمش نے مالک بن حارث سے مالک نے ابن عباس ؓ سے روایت کیا ہے اور 7۔ ابن جریج نے عمرو بن دینار سے عمرو نے ابن عباس ؓ سے روایت کیا ہے۔ ان سبھوں نے تین طلاق کے بارے میں کہا ہے کہ ابن عباس ؓ نے ان کو تین ہی مانا اور کہا کہ وہ تمھارے لیے بائنہ ہو گئی جیسے 8۔ اسماعیل کی روایت میں ہے جسے انھوں نے ایوب سے ایوب نے عبد اللہ بن کثیر سے روایت کیا ہے۔ ابوداؤد کہتے ہیں : اور (صرف) حماد بن زید نے ایوب سے ایوب نے عکرمہ سے عکرمہ نے ابن عباس ؓ سے روایت کی ہے کہ جب ایک ہی منہ سے (یکبارگی یوں کہے کہ تجھے تین طلاق دی) تو وہ ایک شمار ہو گی۔ اور اسے اسماعیل بن ابراہیم نے ایوب سے ایوب نے عکرمہ سے روایت کیا ہے اور یہ ان کا اپنا قول ہے البتہ انھوں نے ابن عباس کا ذکر نہیں کیا بلکہ اسے عکرمہ کا قول بتایا ہے
تین کو ایک کہنے کے دلائل
ترمیم- سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنمہا نے کہا کہ طلاق رسول اللہ ﷺ کے زمانہ میں اور سیدنا ابوبکر ؓ کے زمانہ خلافت میں اور سیدنا عمر ؓ کے زمانہ خلافت میں بھی دو برس تک ایسا امر تھا کہ جب کوئی ایک بارگی تین طلاق دیتا تھا تو وہ ایک ہی شمار کی جاتی تھی، پھر سیدنا عمر ؓ نے کہا کہ لوگوں نے جلدی کرنا شروع کی اس میں جس میں ان کو مہلت ملی تھی سو ہم اس کو اگر جاری کر دیں تو مناسب ہے، پھر انھوں نے جاری کر دیا (یعنی حکم دے دیا کہ جو ایک بارگی تین طلاق دے تو تینوں واقع ہو گئیں [25]
- ابوالصہباء نے سیدنا ابن عباس ؓ سے کہا کہ تم جانتے ہو کہ تین طلاق ایک کر دی جاتی تھیں نبی ﷺ کے زمانہ میں اور سیدنا ابوبکر صدیق ؓ کی خلافت میں اور سیدنا عمر بن خطاب ؓ کی امارت میں بھی تین سال تک تو سیدنا ابن عباس ؓ نے کہا کہ ہاں جانتا ہوں [26]
- طاؤس سے روایت ہے کہ ابوصہباء نے ابن عباس ؓ سے پوچھا : کیا آپ کو معلوم ہے کہ رسول اللہ ﷺ اور ابوبکر ؓ کے زمانے میں نیز عمر ؓ کے دور خلافت کے ابتدائیی تین سالوں میں تین طلاقوں کو ایک ہی مانا جاتا تھا ؟ ابن عباس ؓ نے جواب دیا : ہاں۔ [27]
- طاؤس سے روایت ہے کہ ابو الصہباء نے ابن عباس ؓ کے پاس آ کر کہا : اے ابن عباس ! کیا آپ نہیں جانتے کہ رسول اللہ ﷺ کے عہد مبارک میں، ابوبکر ؓ کے زمانے میں اور عمر ؓ کے شروع عہد خلافت میں تین طلاقیں (ایک ساتھ) ایک مانی جاتی تھیں، انھوں نے کہا : جی ہاں (معلوم ہے، ایسا ہوتا تھا) [28]
- آپ ﷺ نے فرمایا : ” اپنی بیوی یعنی رکانہ اور اس کے بھائییوں کی ماں سے رجوع کر لو “، عبد یزید نے کہا : اللہ کے رسول میں تو اسے تین طلاق دے چکا ہوں، آپ ﷺ نے فرمایا : ” مجھے معلوم ہے، تم اس سے رجوع کر لو “ اور آپ ﷺ نے یہ آیت تلاوت فرمائی « يا أيہا النبي إذا طلقتم النساء فطلقوہن لعدتہن » [29]
- سیدنا ابن عباس ؓ سے مروی ہے کہ رکانہ بن عبد یزید - جن کا تعلق بنو مطلب سے تھا - نے ایک ہی مجلس میں اپنی بیوی کو تین طلاقیں دے دیں، بعد میں انھیں اس پر انتہائی غم ہوا، نبی ﷺ نے ان سے پوچھا : ”تم نے کس طرح طلاق دی تھی ؟ “ انھوں نے عرض کیا کہ میں نے اسے تین طلاقیں دے دی ہیں، نبی ﷺ نے ان سے پوچھا : ”کیا ایک ہی مجلس میں تینوں طلاقیں دے دی تھیں ؟ “ عرض کیا : جی ہاں ! فرمایا : ”پھر یہ ایک ہوئی، اگر چاہو تو تم اس سے رجوع کر سکتے ہو۔ “ چنانچہ انھوں نے رجوع کر لیا، اسی وجہ سے سیدنا ابن عباس ؓ کی رائے یہ تھی کہ طلاق ہر طہر کے وقت ہوتی ہے۔[30]
- عبدالرحمن بن ایمن مولیٰ عروہ نے حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہما سے سوال کیا اور ابوالزبیر سن رہے تھے ۔ کہا کہ آپ کا اس شخص کے بارے میں کیا خیال ہے جس نے اپنی بیوی کو حیض کے دنوں میں طلاق دی ہو ؟ انہوں نے کہا کہ عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نے رسول اللہ ﷺ کے زمانے میں اپنی بیوی کو حیض کے دنوں میں طلاق دے دی تھی ۔ تو عمر رضی اللہ عنہ نے رسول اللہ ﷺ سے کہا کہ عبداللہ بن عمر نے اپنی بیوی کو طلاق دے دی ہے حالانکہ وہ حیض سے ہے ۔ تو عبداللہ نے کہا : رسول اللہ ﷺ نے اس بیوی کو مجھ پر لوٹا دیا اور اسے کچھ نہ سمجھا ۔ اور فرمایا :’’ جب یہ پاک ہو جائے تو پھر طلاق دے یا روک لے ۔“ ابن عمر کہتے ہیں کہ نبی ﷺ نے ( اس طرح ) پڑھا : «يا أيها النبي إذا طلقتم النساء فطلقوهن في قبل عدتهن» ’’ اے نبی ! جب تم اپنی عورتوں کو طلاق دینا چاہو تو انہیں ان کی عدت کے شروع میں طلاق دو ۔ [31]
تنقیدی جائزہ
ترمیمدور نبوی ﷺ، دور ابوبکر ؓ اور عمر ؓ کے شروع دو سال میں طلاق کو ایک سمجھنے کا صحیح مفہوم ایک کو تین کہنے کی دلیل 1 تا 4 کا جائزہ
ترمیم- امام نووی شارح مسلم فرماتے ہیں: فالأصح أن معناه أنه كان في أول الأمر اذا قال لها أنت طالق أنت طالق أنت طالق ولم ينو تأكيدا ولا استئنافا يحكم بوقوع طلقة لقلة ارادتهم الاستئناف بذلك فحمل على الغالب الذي هو ارادة التأكيد فلما كان في زمن عمر رضي الله عنه وكثر استعمال الناس بهذه الصيغة وغلب منهم ارادة الاستئناف بها حملت عند الاطلاق على الثلاث عملا بالغالب السابق إلى الفهم منها في ذلك العصر۔ حدیث حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ کی صحیح مراد یہ ہے کہ شروع زمانہ میں جب کوئی شخص اپنی بیوی کو ”انت طالق، انت طالق، انت طالق“ کہہ کر طلاق (بتہ) دیتا تو دوسری اور تیسری طلاق سے اس کی نیت تاکید کی ہوتی نہ کہ استیناف (قطعیت) کی، تو چونکہ لوگ استیناف کا ارادہ کم کرتے تھے اس لیے غالب عادت کا اعتبار کرتے ہوئے محض تاکید مراد لی جاتی۔ جب حضرت عمر رضی اللہ عنہ کا زمانہ آیا اور لوگوں نے اس جملہ کا استعمال بکثرت شروع کیا اور عموماً ان کی نیت طلاق کے دوسرے اور تیسرے لفظ سے قطیعت ہی کی ہوتی تھی، اس لیے اس جملہ کا جب کوئی استعمال کرتا تو اس دور کے عرف کی بنا پر تین طلاقوں کا حکم لگایا جاتا تھا۔
- مزید فرماتے ہیں۔ المراد أن المعتاد في الزمن الأُوَل كان طلقة واحدة وصار الناس في زمن عمر يوقعون الثلاث دفعة فنفذه عمر فعلى هذا يكون اخبارا عن اختلاف عادة الناس لا عن تغير حكم في مسألة واحدة قال المازري وقد زعم من لا خبرة له بالحقائق أن ذلك كان ثم نسخ قال وهذا غلط فاحش لأن عمر رضي الله عنه لا ينسخ ولو نسخ وحاشاه لبادرت الصحابة إلى انكاره ( شرح مسلم للنووی: ج1ص478) ترجمہ: مراد یہ ہے کہ پہلے ایک طلاق کا دستور تھا (تین بول کر بھی ایک ہی کی نیت ہوتی تھی) اور حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے زمانے میں لوگ تینوں طلاقیں (تین ہی کی نیت سے) بیک وقت دینے لگے تو حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے (ویسے ہی) انھیں نافذ فرما دیا۔ اس طرح یہ حدیث لوگوں کی عادت کے بدل جانے کی خبر ہے نہ کہ مسئلہ کے حکم کے بدلنے کی
- امام مازری فرماتے ہیں: حقائق سے بے خبر لوگ یہ گمان کرتے ہیں کہ ”تین طلاقیں پہلے ایک تھیں، پھر منسوخ ہو گئیں“یہ کہنا بڑی فحش غلطی ہے، اس لیے کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے پہلے فیصلہ کو منسوخ نہیں کیا، -حاشا-اگر آپ منسوخ کرتے تو تمام صحابہ رضی اللہ عنہم اس کے انکار کے در پے ضرور ہو جاتے۔ [32]
تین کو ایک کہنے کی دلیل 5 کا جائزہ
ترمیم- اسی حدیث یعنی 2196 کے ضمن میں ابوداؤد ؒ کہتے ہیں : نافع بن عجیر اور عبد اللہ بن علی بن یزید بن رکانہ کی حدیث جسے انھوں نے اپنے والد سے انھوں نے اپنے دادا سے روایت کیا ہے (ابودواد 2206) کہ رکانہ نے اپنی بیوی کو طلاق بتہ دی تھی، جس پر نبی اکرم ﷺ نے اس کو (حلف لیکر) رجوع کرا دیا تھا، زیادہ صحیح ہے کیونکہ رکانہ کے لڑکے اور ان کے گھر والے اس بات کو اچھی طرح جانتے تھے کہ رکانہ نے اپنی بیوی کو طلاق بتہ دی تھی تو نبی اکرم ﷺ نے اسے ایک ہی شمار کیا تھا [33]
- امام ابودود حدیث 2196 کے مقابلے میں صحیح حدیث لاتے ہیں کہ نافع بن عجیر بن عبد یزید بن رکانہ سے روایت ہے کہ رکانہ بن عبد یزید نے اپنی بیوی سہیمہ کو طلاق بتہ (غیر معین طلاق) دے دی، پھر نبی اکرم ﷺ کو اس کی خبر دی اور کہا : اللہ کی قسم ! میں نے تو ایک ہی طلاق کی نیت کی تھی، رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : ” قسم اللہ کی تم نے صرف ایک کی نیت کی تھی ؟ “ رکانہ نے کہا : قسم اللہ کی میں نے صرف ایک کی نیت کی تھی، چنانچہ رسول اللہ ﷺ نے ان کی بیوی انھیں واپس لوٹا دی، پھر انھوں نے اسے دوسری طلاق عمر ؓ کے دور خلافت میں دی اور تیسری عثمان ؓ کے دور خلافت میں [34]
ایک کو تین کہنے کی دلیل 6 کا جائزہ
ترمیممسند احمد کی اس حدیث میں محمد بن اسحاق راوی ہے جو مختلف فیہ ہے اور حلال حرام کے احکام میں اس سے استدلال نہیں لیا جا سکتا۔
ایک کو تین کہنے کی دلیل 7 کا جائزہ
ترمیمامام ابوداؤد رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ اس روایت کو یونس بن جبیر ، انس بن سیرین ، سعید بن جبیر ، زید بن اسلم ، ابوالزبیر اور منصور بواسطہ ابووائل نے ابن عمر سے روایت کیا ہے ۔ اور ان سب کی روایات کا مفہوم ایک ہی ہے کہ نبی ﷺ نے اسے حکم دیا کہ رجوع کر لو حتیٰ کہ وہ پاک ہو جائے ، پھر چاہو تو طلاق دے دو اور چاہو تو روک لو ۔ امام ابوداؤد رحمہ اللہ نے کہا : ایسے ہی محمد بن عبدالرحمن نے بواسطہ سالم ، ابن عمر سے روایت کیا ہے ۔ لیکن زہری ( بواسطہ سالم ) اور نافع کی روایات جو ابن عمر سے ہیں ان میں ہے کہ نبی ﷺ نے ان کو رجوع کرنے کا حکم دیا حتیٰ کہ پاک ہو جائے ، پھر حیض آئے پھر پاک ہو ، پھر چاہے تو طلاق دے دے یا رکھ لے ۔:: امام ابوداؤد رحمہ اللہ نے کہا : عطاء خراسانی سے بھی بواسطہ «الحسن ، عن ابن عمر» اسی طرح روایت کی گئی ہے جیسے کہ نافع اور زہری نے روایت کی ہے ۔ اور یہ سب روایات ابوالزبیر کے بیان کے خلاف ہیں ف: یعنی اس روایت کے بیان کرنے میں ابوالزپیر منفرد اور شاذ ہیں۔ اور وہ جمہور کے مقابلے مین قابل قبول نہیں۔ اگر انہیں درست بھی مانا جائے تو اس طلاق کو کچھ نہیں سمجھا اور رجوع کا حکم دیا کا مطلب یہ ہے کہ چونکہ ایک تھی اسلئے اسکی پرواہ نہیں کی اور رجوع کا حکم دیدیا ایسا نہیں کہ اسکو شمار ہی نہیں کیا کیوں کہ شمار کی بے شمار روایت ہیں جن میں بخاری ومسلم کی روایات بھی بکثرت شامل ہیں
حوالہ جات
ترمیم- ↑ سورہ الطلاق، آیت نمبر1
- ↑ سنن نسائی:3432
- ↑ الطلاق2
- ↑ تفسیر ابن کثیر سورہ الطلاق، آیت نمبر1
- ↑ تفسیر قرطبی، سورہ الطلاق، آیت نمبر1
- ↑ ابوداود 2206 صحیح
- ↑ نسائی 3430 صحیح
- ↑ بخاری 5259
- ↑ بخاری 4746
- ↑ بخاری 5252
- ↑ بخاری 5333
- ↑ مسلم 3654
- ↑ مسلم 3657
- ↑ مسلم 3658
- ↑ صحیح مسلم، حدیث نمبر: 3661
- ↑ صحیح مسلم، حدیث نمبر: 3664
- ↑ مسلم 3665
- ↑ مسلم 3666
- ↑ صحیح مسلم، حدیث نمبر: 3667
- ↑ سنن ابن ماجہ، حدیث نمبر: 2039 --- حکم البانی: حسن
- ↑ بخاری 5264
- ↑ صحیح مسلم، حدیث نمبر: 3653
- ↑ صحیح مسلم، حدیث نمبر: 3656
- ↑ سنن ابی داود حدیث نمبر: 2197 --- حکم البانی: صحيح
- ↑ صحیح مسلم، حدیث نمبر: 3673
- ↑ صحیح مسلم، حدیث نمبر: 3674
- ↑ سنن ابی داود] حدیث نمبر: 2200 --- حکم البانی: صحيح
- ↑ سنن نسائی، حدیث نمبر: 3435 --- حکم البانی: صحيح
- ↑ سنن ابی داود، حدیث نمبر: 2196 --- حکم البانی: حسن
- ↑ مسند احمد، حدیث نمبر:2387
- ↑ ابوداود 2185
- ↑ ( شرح مسلم للنووی: ج1ص478)
- ↑ سنن ابوداود شرح حدیث 2196
- ↑ سنن ابی داود، حدیث نمبر: 2206 --- حکم ابوداود: صحیح