ثلاء (انگریزی: Thula) یمن کے ان پانچ قصبوں میں سے ایک ہے جو یونیسکو کی میراث الدنیا کی تجرباتی فہرست میں شامل ہیں۔[1] حمیری دور سے اب تک یہ قصبہ بہت بہترین انداز سے محفوظ ہے اور اس میں روایتی مساجد اور مکانات ہیں۔[1] ماہرین آثار قدیمہ نے تحقیق کے دوران حمیری تعمیرات کے نیچے سبائی دور کے آثار بھی دریافت کیے ہیں۔[2][3] 2004ء سے 2011ء کے دوران اس کی تعمیر نو میں دروازہ باب المایا، بہت سی دید گاہیں، رستے، روائیتی حوض (حوض جادن) اور سبائی دور کے دوسرے بہت سے آثار کی تعمیر نو کی گئی ہے۔[3]

ثلاء

تعمیرات ترمیم

ثلاء شہر کے سات دروازے ہیں۔ اس میں متصل تین سے پانچ منزلہ مکانات ہیں جن کے درمیان تنگ گلیاں ہیں۔ بہت سی عمارتوں کا سامنے کا حصہ قوسی ہے۔ عمارات میں پتھروں پر نقاشی بھی دیکھی جا سکتی ہے۔ مختلف النوع ستون بھی عمارات کا حصہ ہیں۔ دفاعی حصار میں دروازے اور گنبد کے علاوہ مساجد،ائمہ کی پرانی جگہیں، حوض، تالاب اور گرم غسل خانے اور بازار ہیں۔ شہر کے گرد 2000 میٹر لمبی، 5 تا 7 میٹر اونچی اور 3 میٹر چوڑی دیوار ہے جس میں 26 دید گاہیں اور 9 دروازے ہیں۔

عالمی ورثہ میں مقام ترمیم

اس قصبہ کو یونیسکو کی عالمی ورثہ کی آزمائشی فہرست اور تہذیبی ورثہ کے زمرہ میں 8 جولائی 2002ء کو شامل کیا گیا۔[1]

قابل دید مقامات ترمیم

قابل دید مقامات میں سے قلعہ مطاہر بن شرف الدین، باب المصرا، باب المایہ، باب الحادی، کوہستانی گھر، مقبرہ محمد ابن الحادی، حوض جادن، مسجد السعید، مسجد امام سید الکینائی مشہور ہیں۔[4]

قلعہ مطاہر بن شرف الدین ترمیم

ایک چھوٹا سا قلعہ جو پہاڑی کے سامنے واقع ہے اور پہاڑی کے ساتھ ہی آمیزش کے باعث واضع نظر نہیں آتا۔ اس تک پہنچنے کے لیے سیاحوں کو شہر کی دیوار سے باب الحُسن سے نکل کر چٹان میں تراشیدہ پرانی سیڑھیوں سے جانا پڑتا ہے۔ قلعہ بذات خود شائد اتنا دلکش نہ ہو لیکن وہاں سے شہر کا نظارہ بہت حسین ہے۔[4]

باب المصرا ترمیم

شہر کے سات دروازوں میں سے سب سے تنگ ہے اور ابھی تک کافی بہتر حالت میں محفوظ ہے۔ یہاں سے شہر کے پیچھے کی پہاڑی کی جانب سیڑھیاں جاتی ہیں۔ یہ بنیادی طور پر شہر کو بیرونی حملہ آوروں سے محفوظ رکھنے کے لیے تعمیر کیا گیا تھا۔ اب یہ شہر میں شامل ہے اور پچھلے دروازہ کی بجائے رابطے کے کام آتا ہے۔[4]

باب المایہ ترمیم

یہ دروازہ شہر کے شمال میں واقع ہے۔ اس کی وجہ شہرت اس کی قلعہ نما بناوٹ ہے۔ المایہ حوض بھی اس کے قریب واقع ہے۔[4]

باب الحادی ترمیم

اسے قلعہ کا داخلی دروازہ کہا جا سکتا ہے۔ اسے سے داخلے کے بعد آپ دیواروں کی ایک راہداری سے مڑتے ہوئے شہر کے حوض الجادن تک آ جاتے ہیں۔ اس دروازے تک پہنچنے سے پہلے کچھ پرانے گھروں اور پرانی دیواروں سے گذرنا پڑتا ہے۔[4]

کوہستانی گھر ترمیم

یہ ایک خوبصورت گھر ہے جس کی بیرونی دیواروں کے لیے قدرتی چٹان کو استعمال کیا گیا ہے۔ پہلی نظر میں یہ ایک کھڑکیوں والی چٹان معلوم ہوتی ہے۔ اسے چٹان میں اس خوبصورتی سے بنایا گیا ہے کہ معلوم نہیں ہوتا کہاں چٹان کا اختتام ہے اور گھر کا آغاز ہے۔ ہو سکتا ہے اس گھر کو آج کل دوسرے بہت سے گھروں کی طرح ایک غار کے طور پر استعمال کیا جاتا ہو۔[4]

مقبرہ محمد ابن الحادی ترمیم

جادن حوض کے بالمقابل ایک مسجد میں مقبرہ محمد ابن الحادی واقع ہے۔ اس کا کچھ حصہ سطح زمین سے نیچے ہے جس پر ایک خوبصورت سفید گنبد ہے۔[4]

حوض جادن ترمیم

باب الحادی داخلہ کے بعد شہر میں داخلہ پر بائیں جانب یہ بڑا حوض واقع ہے۔ اسے بارش کا پانی جمع کرنے کے لیے بنایا گیا تھا۔ یہ شہر کے دو کھلے تالابوں میں سے ایک ہے۔ اس کی بناوٹ میں پتھر اور قداد کا ملمع استعمال کیا گیا ہے۔ یو ایس ایڈ اس کی بحالی پر کام کر رہی ہے۔[4]

مسجد السعید ترمیم

یہ پتھروں سے بنی ہوئی ایک نیچی مگر انتہائی خوبصورت دو منزلہ عمارت ہے جو بظاہر مسجد معلوم نہیں ہوتی مگر یہ ایک مسجد ہے۔ اس پر بطور نشان کوئی مینار نہیں ہے جس سے اس کی بطور مسجد شناخت ہو سکے۔[4]

مسجد امام سید الکینائی ترمیم

ثلاء میں قریباً پچیس مساجد میں سے یہ بھی ایک انتہائی دلکش مسجد ہے جسے اس کے میناروں سے با آسانی پہچانا جا سکتا ہے۔ اس مسجد میں دوسری بہت سی مساجد کی طرح غیر مسلموں کے داخلے پر پابندی ہے۔ اس کی تزین و آرائش قابل دید ہے۔[4]

گلیارہ ترمیم

حوالہ جات ترمیم

  1. ^ ا ب پ "The Historic City of Thula" (بزبان الفرنسية)۔ UNESCO World Heritage Centre ء۔ 8 July 2002۔ 2018-12-25 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 18 نومبر 2015 
  2. "Thula Fort Restoration"۔ Aga Khan Award for Architecture۔ 2018-12-25 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 18 نومبر 2015 
  3. ^ ا ب "Abdullah al Hadrami: Thula Fort Restoration in Yemen"۔ design boom۔ 2018-12-25 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 18 نومبر 2015 
  4. ^ ا ب پ ت ٹ ث ج چ ح خ "VirtualTourist.com ceased operations"۔ 06 ستمبر 2015 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 26 نومبر 2015