بشرنام، ابو منذر کنیت،جارود لقب، نسب نامہ یہ ہے، جارود بن عمرو بن معلی عہدی، قبیلہ عبد قیس کے سردار تھے، جارود کا لقب ایک خاص واقعہ کی یادگار ہے، زمانہ جاہلیت میں انھوں نے قبیلہ بکر بن وائل کو لوٹ کر بالکل صاف کر دیا تھا، "جرد" کے معنی بے برگ دبار کے ہیں، اس لیے جارود ان کا لقب پڑ گیا، اسی واقعہ کو بطور مثال کے ایک شاعر کہتا ہے: ودسناهم بالخيل من كل جانب ... كما جرد الجارود بكر بن وائل [1]

حضرت جارود ؓبن عمرو
معلومات شخصیت
کنیت ابو منذر
لقب جارود

نام ونسب ترمیم

اسلام ترمیم

جارودؓ مذہباً عیسائی تھے،قبیلہ عبد قیس کے وفد کے ساتھ 10ھ میں مدینہ آئے، آنحضرتﷺ نے ان کے سامنے اسلام پیش کیا، انھوں نے کہا محمدﷺ میں ایک مذہب پر تھا، اب تمھارے مذہب کے لیے، اپنا مذہب چھوڑنے والا ہوں کیا میرے تبدیل مذہب کے بعد تم میرے ضامن ہوگے؟ فرمایا ہاں میں ضامن ہوں، خدا نے تم کو تمھارے مذہب سے بہتر مذہب کی ہدایت کی، اس مختصر سوال وجواب کے بعد جاروداسلام کے حلقہ بگوش ہو گئے،ان کے ساتھ ان کے اورساتھی بھی مشرف باسلام ہوئے، [2] آنحضرتﷺ کو ان کے اسلام لانے پر بڑی مسرت ہوئی اور ان کی بڑی عزت و توقیر کی [3] قبول اسلام کے بعد وطن لوٹنے کے لیے آنحضرتﷺ سے سواری مانگی، لیکن سواری کا انتظام نہ ہو سکا، تو جارودؓ نے اجازت مانگی کہ یا رسول اللہ ! راستہ میں ہم کو دوسروں کی بہت سی سواریاں ملیں گی، ان کو کام میں لانے کی اجازت ہے؟ فرمایا نہیں انھیں آگ سمجھو غرض جارودؓ خلعتِ اسلام سے سرفراز ہونے کے بعد وطن واپس گئے۔ [4]

فتنہ ارتداد ترمیم

فتنہ ارتداد میں ان کے قبیلہ کے بہت سے آدمی مرتد ہو گئے،لیکن ان کی استقامت ایمانی میں کوئی تزلزل نہ آیا اوراپنے اسلام کا اعلان کرکے دوسروں کو ارتداد سے روکتے تھے۔ [5]

شہادت ترمیم

حضرت عمرؓ کے زمانہ میں بصرہ میں اقامت اختیار کرلی اورایران کی فوج کشی میں مجاہدانہ شریک ہوئے، باختلافِ روایت فارس یا نہاوند کے معرکہ میں شہید ہوئے۔

اولاد ترمیم

آپ کے ایک صاحبزادہ منذر تھے جن کی نسبت سے آپ کی کنیت ابومنذر ہے۔

فضل وکمال ترمیم

ابو مسلم انجدی، ابو القموس،زید بن علی اورمحمد بن سیرین نے ان سے روایت کی ہے ،جارودؓ شاعر بھی تھے، اشعارذیل بارگاہِ نبوی میں بطور نذرِ عقیدت پیش کیے تھے: شهدت بأن الله حق وسامحت بنات فؤادي بالشهادة والنهض فأبلغ رسول الله عني رسالة بأبن حنيف حيث كنت من الأرض وأجعل نفسي دون كل ملمة لكم جنة من دون عرضكم عرضي [6]

اخلاق ترمیم

جارودؓ کے صحیفۂ اخلاق میں ،حریت ،آزادی،جرات اوراظہارِ حق میں بے باکی کا عنوان نہایت جلی تھا، جس بات کو وہ حق سمجھ لیتے تھے،اس کے اظہار میں وہ کسی کی پروا نہ کرتے، ایک مرتبہ بحرین کے گورنر قدامہ بن مظعون کو بعض رومیوں نے شراب پیتے ہوئے دیکھا جارودؓ کو اس کا علم ہوا تو حضرت عمرؓ کے پاس آکر کہا، امیر المومنین! قدامہ نے شراب پی ہے، ان پر شرعی حد جاری کیجئے ،آپ نے شہادت طلب کی، جارودؓ نے ابو ہریرہؓ کو پیش کیا، ابو ہریرہؓ نے شہادت دی کہ میں نے نشہ کی حالت میں قے کرتے ہوئے دیکھا ہے، حضرت عمرؓ نے قدامہ کو طلب کیا، وہ آئے ان کے آنے کے بعد جارودؓ نے پھر کہا،کہ امیر المومنین کتاب اللہ کی رو سے حد جاری کیجئے، حضرت عمرؓ نے فرمایا تم کو اتنا اصرار کیوں ہے، تم گواہ ہو مدعی نہیں ہو، تمھارا کام شہادت دینا تھا، اسے تم پورا کر چکے، اس وقت جارودؓ خاموش ہو گئے، لیکن دوسرے دن پھر اصرار شروع کیا، شہادت ناکافی تھی، اس لیے حضرت عمرؓ کو جارودؓ کا بیجا اصرار ناگوار ہوا،فرمایا تم تو مدعی بنے جاتے ہو، حالانکہ صرف ایک شہادت ہے جو ثبوت کے لیے کافی نہیں، اس اعتراض پر جارودؓ نے کہا عمرؓ میں تم کو خدا کی قسم دلاتا ہوں کہ حد میں تاخیر نہ کرو، آخر میں جارودؓ کی بیجا ضد پر حضرت عمرؓ کو تنبیہ کرنا پڑی کہ تم خاموش رہو ،ورنہ میں بری طرح پیش آؤں گا، اس تنبیہ پر جارودؓ نے غضب آلودہ ہوکر کہا، عمرؓ حق اس کانام نہیں ہے کہ تمھارا ابن عم شراب پئے اورتم الٹے مجھ کو برے سلوک کی دھکمی دو، آخر میں جب قدامہ کی بیوی نے شہادت دی توحضرت عمرؓ نے حد جاری کرائی۔ [7]

روایت ترمیم

آپ چونکہ متاخر الاسلام تھے اس لیے آپ کی روایتوں کی تعداد بہت ہی کم ہے، مسند میں یہ ایک روایت ہے: ضَالَّةُ الْمُسْلِمِ حَرَقُ النَّارِ۔ [8] ترجمہ: مؤمن کی گم شدہ چیز کوجس نے اپنی ملکیت بنایا اس نے اپنے کوآگ میں جلایا۔ آپ سے صحابہ رضی اللہ عنہم اجمعین میں حضرت عبد اللہ بن عمروبن العاص اور تابعین میں ابومسلم الجذامی، ومطرف ابن عبد اللہ بن شخیروزید بن علی وابوالفحوص بن سیرین وغیرہ نے روایت کی۔

حوالہ جات ترمیم

  1. (اسد الغابہ:1/261،استیعاب،تذکرہ جارود)
  2. (سیرۃ ابن ہشام:2/366)
  3. (اسد الغابہ:1/361)
  4. (سیرۃ ابن ہشام:2/366)
  5. (سیرۃ ابن ہشام:2/366)
  6. (اصابہ:1/236)
  7. (اس واقعہ کو تمام ارباب سیر نے قدامہ کے حالات میں لکھا ہے)
  8. (مسنداحمدبن حنبل، حَدِيثُ الْجَارُودِ الْعَبْدِيِّ رَضِيَ اللَّهُ تَعَالَى عَنْهُ،حدیث نمبر:20778،شاملہ، الناشر: مؤسسة قرطبة،القاهرة)