جامع صغیر امام محمد کی مشہور متبرک کتاب ہے۔
صاحبِ ہدایہ نے بدایۃ المبتدي میں جامع صغیر اور قدوری کے مسائل کو جمع کیا ہے۔۔ امام طحاوی، جصاص، رازی، بزدوی، ابواللیث سمرقندی سرخسی، قاضی خان اور بہت سے حضرات نے اس کی شرحیں لکھیں ہے اور مولانا فرنگی محلی کا بھی اس پر قیمتی حاشیہ ہے اور ’’النافع الکبیر لمن یطالع الجامع الصغیر ‘‘کے نام سے مبسوط مقدمہ ہے۔

وجہ تصنیف ترمیم

جامعِ صغیر لکھنے کی تقریب یہ بنی تھی کہ جب امام محمد مبسوط کی تصنیف سے فارغ ہوئے تو امام ابو یوسف نے خواہش کی کہ وہ ایک ایسی کتاب مرتب کریں جس میں ان کی سند سے امام اعظم کے اقوال ذکر کیے جائیں اور ان کی کنیت استعمال نہ کی جائے، بلکہ نام یعقوب لکھا جائے، امام محمد نے تعمیلِ حکم کی اور کتاب تیار کر کے امام ابو یوسف کی خدمت میں پیش کی۔ آپ نے اس کو بہت پسند فرمایا۔

احناف کے مقام ترمیم

جامع صغیر ایک بابر کت کتاب ہے۔ اس میں بزدوی کے بیان کے مطابق ایک ہزار پانچ سوبتیس (1532) مسائل ہیں اور بعض علما نے ذکر کیا ہے کہ امام ابویوسف باوجود جلالتِ شان کے ہمیشہ سفر وحضر میں یہ کتاب ساتھ رکھتے تھے اور علی رازی فرمایا کر تے تھے کہ جو شخص اس کتاب کو سمجھ لے وہ احناف میں فہیم ترین آدمی ہے اور احناف جب تک اس کتاب میں امتحان نہیں لیتے تھے کسی کو عہد قضا پر فائز نہیں کر تے تھے۔ اور غایۃ البیان میں فخرالاسلام بزدوی سے نقل کیا ہے کہ جب امام ابو یوسف کے سامنے جامعِ صغیر پیش کی گئی تو آپ نے اس کو بہت پسند فرمایا اور ارشاد فرمایا کہ ’’ابو عبد اﷲ (یعنی امام محمد) نے میرے بیان کیے ہوئے مسائل خوب محفوظ کیے ہیں۔ امام محمد نے فر ما یا کہ مجھے یہ مسائل اچھی طرح یاد ہیں، البتہ ان کو سہو ہو گیا ہے۔ یہ کل چھ مسائل ہیں ان کو البحر الرائق: باب الوتر والنوافل 2/61 میں ذکر کیا گیا ہے۔[1]

حوالہ جات ترمیم

  1. آپ فتوی کیسے دیں، مؤلف : مفتی سعید احمد پالنپوری- صفحہ37و 48،مکتبہ حجاز دیوبند سہارنپور انڈیا