جعفر زٹلی
جعفر زٹلی (1658ء – 1713ء)[1] 1658 میں دہلی کے گاون نرنیال موجودہ ہریانہ میں پیدا ہوئے۔اصل نام محمد جعفر تھا زٹلی تخلص رکھا زٹلی کے لغوی معنی بے ربط گفتگو کرنے والا ہے ۔ سید گھرانے میں پیدا ہوئے زیادہ تر زندگی کا حصہ دہلی کے آس پاس میں گذرا۔ زٹلی نے لکھنے کا آغاز مغل بادشاہ اورنگزیب دور میں کیا اور اورنگ زیب پر بہت زیادہ تنقید کے ساتھ ساتھ انھوں نے اورنگ زیب کی انتظامی صلاحیتوں کی تعریف بھی کی ہے۔اورنگ زیب کے بعد کا دور مغلیہ سلطنت کے زوال کا دور تھا یہی وجہ ہے کہ انھوں نے اپنی شاعری میں مغلیہ دور حکومت پر بہت زیادہ تنقید کی۔ مغلیہ دور کے معاشی اور سیاسی حالات اور بادشاہ وقت کے خلاف اپنی آواز شاعری کے ذریعے بلند کی یہاں تک کہ بادشاہ وقت کے خلاف احتجاج کے وقت بھی انتہائی غصے کے ساتھ اپنی رائے کا اظہار کیا جس کی وجہ سے انھیں مغل شہنشاہ فرخ سیر نے پھانسی [1] کی سزا سنائی جس پر1716 میں جوتے کے تسمے سے گلہ گھونٹ کر عمل درآمد کیا گیا۔
جعفر زٹلی ادبا اور شعرا کی نظر میں
ترمیممحمد عارف مزاحیہ غزل کے خدوخال میں جعفر زٹلی [2] کے بارے میں لکھتے ہیں
"مرزا جعفر زٹلی کا کلام طنز، ظرافت ، ہزل گوئی اور مختلف ہجویات کا مرقع ہے، گو کلام کا بیش تر حصہ فحاشی ، عریانی اور پھکڑپن پر مشتمل ہے لیکن اس کے باوجود زبان و بیان اور فن پر ان کی دسترس سے انکار ممکن نہیں۔ نظم و نثر ہر دو اصناف میں ان کے کلام کا غالب حصہ فارسی پر مشتمل ہے تاہم اردو نظمیں اور ہجویات قابل غور ہیں۔ ماہرین نقدونظر مطابق جعفر زٹلی ہی اردو کا پہلا باقاعدہ طنزومزاح نگار شاعر قرار پاتا ہے۔ "
شاعری
ترمیمولی دکنی کے ہم عصر شاعر ہیں ولی کی زبان صاف تھی لیکن ان کے ہاں مضامین سنجیدہ نوعیت کے ہیں اور زیادہ تر ان کی زبان فارسی زدہ ہے جس میں کہیں کہیں مقامی زبان کا رنگ بھی ملتا ہے ۔ زٹلی کو فارسی میں عبور ہونے کے ساتھ ساتھ ہندی اور ریختہ پر بھی مہارت حاصل تھی یہی وجہ ہے کہ وہ اپنی شاعری میں فارسی اور ریختہ کا خوبصورت امتزاج لکھتے تھے ان کے اشعار میں اشعار میں شوخی اور ظرافت نمایاں ہے ان کی ظریفانہ کلام میں ہجویات، قطعات نظمیں اور غزلیں وغیرہ ملتی ہیں ان کی اکثر ظریفانہ غزلیات فارسی زبان میں ہیں لیکن بعض غزلیات اور اشعار آج کی اردو زبان کے قریب تر ہے۔
کلام کے نمونے
ترمیمجعفر زٹلی کی کتاب زٹل نامہ سے چند اشعار
جعفرزٹلی نے ایسا کیا
کہ مکھی کو مل مل کے بھینسا کیا
جعفر زٹلی کی نظم کے اشعار میں بھی تعزل ملتا ہے جیسے یہ شعر
خصم کو جورو اٹھ مارے
گریباں باپ کا پھاڑے
زنوں سے مرد بھی ہارے
عجیب یہ دور آیا ہے
دغل کرتے پھریں دغلے
چغل کرتے پھرے چغلے
شغل کرتے پھریں شغلے
عجیب یہ دور آیا ہے
حوالہ جات
ترمیم- ^ ا ب محمد فاروق خان (2011ء)۔ اردو کا زندانی ادب۔ علی کڑھ، بھارت: علی کڑھ مسلم یونیورسٹی۔ صفحہ: 9۔ 25 دسمبر 2018 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 16 نومبر 2018
- ↑ مزاحیہ غزل کے خدوخال ، محمد عارف ، ص 23