جنرل پوسٹ آفس (General Post Office / GPO) لاہور، پاکستان کا مرکزی ڈاک خانہ ہے۔ یہ مال روڈ لاہور پر انارکلی بازار کے قریب واقع ہے۔[1]

جنرل پوسٹ آفس
General Post Office
جنرل پوسٹ آفس
عمومی معلومات
ملکپاکستان

جنرل پوسٹ آفس کی یہ شاندار عمارت مال روڈ پر واقع ہے۔ ڈاک کا موجودہ نظام انگریز دور سے تعلق رکھتا ہے۔ لاہور میں ڈاک خانہ اس عمارت کے قیام سے قبل بھی موجود تھا۔ جو 1849ء میں قائم ہوا۔ یہ ڈاک خانہ ایک بیرک میں بنایا گیا تھا۔ عرصہ قبل جی پی او میں ایک فلیکس لگایا تھا، جس میں محکمہ ڈاک کے حوالے سے قابل قدر معلومات موجود تھی۔ اس تعارفی فلیکس پر لاہور میں محکمہ ڈاک کے ارتقا کے ضمن میں بہت سے حقائق بیان کیے گے ہیں۔ لاہور کا پہلا ڈاک خانہ انارکلی میں موجود ٹولنٹن مارکیٹ کے شمال میں اور پنجاب پبلک لائبریری کے مشرق میں تھا۔ اس کے پہلے پوسٹ ماسٹر جناب ڈبلیوٹی کلف فورڈ تھے جنھوں نے 12 جون 1849ء کو اپنے عہدے کا چارج سنبھالا۔ یہ ڈاک خانہ شمال مشرقی صوبہ جات کے پوسٹ ماسٹر جنرل کے ماتحت تھا۔ ڈاک خانے کے قیام کے بعد اس کی عمارت میں ضرورت کے پیش نظر وقتاً فوقتاً تبدیلیاں کی جاتیں رہیں لیکن ہمیشہ جگہ کی قلت کا سامنا رہا۔ نیز یہ جگہ نامناسب معلوم ہوتی تھی۔ جب چھاونی انارکلی سے میاں میر منتقل ہوئی تو بیشتر جگہیں خالی ہوگئیں۔ اس وقت کے پوسٹ ماسٹر جنرل جناب بی رڈل نے مارچ 1852ء میں حکومت کی توجہ اپنے 10 نومبر 1851ء کو لکھے گے ایک خط کی جانب دلائی، جس میں فوج کی جانب سے انارکلی میں خالی کی گئی عمارات میں سے مناسب جگہ ڈاک خانے کے لیے طلب کی گئی تھی۔ مگر اس پر کوئی پیش رفت نہ ہوئی۔ اکتوبر 1862ء میں پنجاب کا پوسٹ ماسٹر جنرل الگ بنا دیا گیا۔ لیکن لاہور جی پی او اپنی اصل جگہ پر ہی کام کرتا رہا۔ 1883ء کے گزٹئیر میں تحصیل لاہور کے مندرجہ ذیل ڈاک خانوں کا ذکر ہے : لاہور جنرل پوسٹ آفس، لوہاری منڈی، موتی بازار، ریلوے اسٹیشن، میاں میر، صدر بازار، رائے ونڈ، منانواں، شاہدرہ، کاہنہ کاچھا، چوہنگ اور بھڈانہ۔ 1893ء کے گزٹئیر میں ذرا تفصیل سے نظام ڈاک کا ذکر ہے۔ اس وقت تک ضلع کے دیہی ڈاک خانوں کی تعداد 55 ہو چکی تھی، نیز ڈاک خانے کی مرکزی عمارت 1849ء والی جگہ پر ہی موجود تھی۔ یہ بھی بتایا گیا ہے کہ شہر کی دیواروں کے اندر پانچ ڈاک خانے ہیں، جن سے ماسوائے اتوار و دیگر تعطیلات پانچ مرتبہ ہی ترسیل ہوتی ہے۔ شہر میں 18 اور سول اسٹیشن میں 26 ڈاک بکس موجود تھے۔ جی پی او کی عمارت کے متعلق عموماً دو باتیں بے حد مشہور ہیں کہ یہ عمارت ملکہ وکٹوریہ کی گولڈن جوبلی کی تقاریب کے ضمن میں 1887ء تعمیر کی گئی نیز اس کا نقشہ سر گنگارام نے بنایا تھا۔ جہاں تک 1887ء میں تعمیر کا تعلق ہے تو یہ چیز کسی طور درست معلوم نہیں ہوتی۔ کرنل ایچ آر گولڈنگ نے اپنی کتاب جو 1924ء میں شائع ہوئی، ذکر کیا ہے کہ " جس مقام پر پبلک ورکس سیکرٹریٹ قائم ہے وہاں 1849ء میں تعمیر کردہ ایک قدیم بیرک نما عمارت موجود ہوا کرتی تھی اسے جی پی او کے طور پر استعمال کیا جاتا تھا۔ بعد میں بیس سال بیشتر جی پی او کی موجودہ خوبصورت عمارت پایہ تکمیل کو پہنچی۔" اس بیان سے عمارت کا سن تکمیل 1904ء معلوم ہوتا ہے۔ اس کی تائید لاہور گزٹئیر 1916ء سے بھی ہوتی ہے جس میں کہا گیا ہے کہ " جی پی او کی عمارت اپر مال پر مرکزی تار گھر اور بینک آف بنگال کے بلمقابل واقع ہے۔ یہ عمارت 1904ء میں مکمل ہوئی اور ڈاک خانے کے طور پر اسی سال استعمال میں آئی۔" پھر بزم اردو کی مرتب کردہ "لاہور گائیڈ" جو 1909ء میں شائع ہوئی بتایا گیا ہے کہ "یہ شاندار عمارت جس میں یورپی اور ایشیائی دونوں مذاق کی جھلک نظر آتی ہے۔ فروری 1901ء سے شروع ہو کر اکتوبر 1905ء میں ختم ہوئی۔ دو مستقیم لائنیں بڑے بڑے کمروں کی شمال سے جنوب اور جنوب سے مغرب کی طرح بنائی گئی ہیں۔ ان کے سروں پر دو دو خوشنما گنبد عجب بہار دکھاتے ہیں۔ دونوں قطاروں کے مرکز میں ایک اور بڑا شاندار گنبد ہے جس میں بڑا سا کلاک لگا ہوا ہے۔ دونوں منزلوں میں ڈاک خانے کے متعدد دفاتر ہیں۔ تمام شہر کی ڈاک یہیں سے مختلف حلقوں میں تقسیم ہوتی ہے۔ اس عمارت پر 316475 روپے خرچ ہوئے ہیں۔" 1892ء میں تحریر کردہ سید لطیف کی کتاب میں بھی ڈاک خانے کا محل وقوع عجائب گھر کے پاس بتایا گیا ہے نیز 1893 کے گزٹئیر میں بھی یہی درج ہے۔ 1887ء میں ملکہ کی گولڈن جوبلی کے حوالے سے "سیر ہندوستان" نامی کتاب شائع کی گئی تھی، اس کتاب میں لاہور کی انگریزی دور کی تعمیرات کا خصوصاً ذکر ہے لیکن اس میں جی پی او کی عمارت شامل نہیں۔ اس سے ثابت ہوتا ہے کہ یہ عمارت 1904ء میں ہی مکمل ہوئی اور 1987ء میں ڈاک خانہ اپنے پرانے مقام پر ہی موجود تھا۔ نقوش لاہور نمبر میں بھی غلطی کی گئی ہے اور پروفیسر یوسف جمال صاحب نے جی پی او کی عمارت کا سن تعمیر 1912ء لکھا ہے جو درج بالا حقائق کی روشنی میں واضح ہے کہ درست نہیں ہے۔ اب اس عمارت کا نقشہ سر گنگارام نے بنایا تھا یا نہیں، یہ دیکھنا باقی ہے۔ اس بات کی شہادت بی پی ایل بیدی کی تحریر کردہ سر گنگارام کی سوانح عمری "صحرا کی فصل" سے ملتی تو ہے لیکن یہ بیان درست نہیں لگتا۔ اس حوالے سے ڈاکٹر عارف رحمان نے ایک مضمون بھی تحریر کیا ہے۔ 902ء میں "آرکیٹیکچرل" نامی جریدے میں جناب سٹریمر ہیک کا ایک نقشہ شائع ہوا تھا، جس کے نیچے درج ہے کہ یہ لاہور کے نئے جی پی او کے لیے بنایا گیا ہے۔ اگر اس کو نقشے کو مدنظر رکھا جائے تو پتا چلتا ہے کہ جی پی او کی موجودہ عمارت اسی نقشے میں بعض ترامیم کرکے بنائی گئی ہے۔ پھر جی پی او کی عمارت 1904ء میں مکمل ہوئی تھی، جبکہ سر گنگارام سرکاری نوکری سے 1903ء میں ریٹائر ہو چکے تھے۔ قرین قیاس یہی ہے کہ جی پی او کو سٹریمر ہیک کے نقشے کے مطابق بعض تبدیلیوں کے ساتھ تعمیر کیا گیا۔ قیام پاکستان کے بعد جی پی او کی عمارت میں ضرورت کے مطابق وقتا فوقتاً تبدیلیاں ہوئیں۔ اسی کی دہائی میں تو عمارت پر سیمنٹ کا پلستر کر دیا گیا۔ جس پر اہل دانش نے کافی احتجاج کیا۔ پھر محترمہ یاسمین لاری کی زیر نگرانی اس عمارت کی بحالی کا کام شروع ہوا۔ جی پی او لاہور پر محکمہ ڈاک نے اگست 1996ء میں ڈاک ٹکٹ بھی جاری کیا تھا۔ جی پی او گو کہ اب محفوظ عمارات میں تو شامل ہے لیکن حال ہی میں اورنج لائن ٹرین منصوبے کی وجہ سے یہ عمارت بھی باعث تنازع رہی۔ جی پی او لاہور تو اکثر چکر لگتا رہتا ہے لیکن کچھ عرصہ قبل عمارت کو ذرا تفصیل سے دیکھنے کا اتفاق ہوا۔ جی پی او یقیناً مال روڈ پر موجود حسین ترین عمارات میں سے ایک ہے۔ یہ انگریزی دور کی بہترین یادگار ہے۔ انگریز دور میں جب ڈاک آتی تھی تو اس کا منظر بھی بڑا دلچسپ ہوتا تھا۔ اس کا تفصیلی تذکرہ 1916ء کے لاہور گزٹئیر میں موجود ہے، مرتبین بتاتے ہیں کہ " لاہور میں ڈاک کا منظم نظام موجود ہے، گلیوں میں 132 ڈاک کے بکسے لگائے گے ہیں جن کو چپراسی سائیکل پر جا کر خالی کرتے ہیں۔ یہی لوگ جنرل پوسٹ آفس، چیرنگ کراس، چھاونی اور مغل پورہ میں ڈاک کی ترسیل کرتے ہیں۔ ریلوے اسٹیشن سے ڈاک گھوڑے جُتے چھکڑوں کے ذریعے لائی اور لے جائی جاتی ہے۔ جی پی او پر دو جھنڈے لہرائے جاتے ہیں۔ ایک سرخ رنگ کا، جو یہ ظاہر کرتا ہے کہ بیرون ملک ڈاک کی ترسیل کا اشارہ بمبئی سے موصول ہو چکا ہے اور ڈاک لاہور پہنچنے والی ہے۔ دوسرا شاہی ڈاک کا جھنڈا (سفید رنگ) جو لاہور سے غیر ملکی ڈاک کی روانگی کا دن ظاہر کرتا ہے۔" گزٹئیر میں یہ بھی بتایا گیا ہے کہ جی پی او کے داخلی دروازے کے پاس وہ لیٹر بکس بھی نصب ہے، جسے 1911ء میں دہلی میں شہنشاہ جارج ہفتم کی تاج پوشی کے موقع پر شاہی دربار میں لگایا گیا تھا۔ لیکن اب یہ لیٹر بکس یہاں نظر نہیں آتا۔ البتہ جی پی او میں ایک پرانا گھنٹا دکھائی دیتا ہے جس پر 1860ء درج ہے۔ اس گھنٹے کی بھی ایک الگ داستان ہے۔ اس حوالے سے عبد المجید شیخ صاحب نے ایک مضمون بھی لکھا ہے جس میں وہ لکھتے ہیں " اس تاریخی گھنٹے کو بطور اطلاع اس وقت بجایا جاتا تھا جب غیر ملکی ڈاک لے کر سرکاری بیل گاڑی لاہور پہنچتی تھی۔ ایسٹ انڈیا کمپنی کے زمانے میں لاہور جو ان دنوں پرانی انارکلی میں بستا تھا، جان پڑ جاتی تھی اور اس روز ہر کوئی یہی سوال کرتا، ” کیا آپ کے نام کوئی شے وصول ہوئی ہے؟“ یہ گھنٹا ہفتے میں دو بار بجتا تھا۔ ایک بار اس وقت جب ڈاک پہنچی تھی اور دوسری بار لاہور سے "غیر ملکی" ڈاک روانہ ہونے سے ایک گھنٹہ قبل۔ دوسری صورت میں لوگ اپنے خطوط کی ترسیل کے لیے دوڑ لگا دیتے۔.۔ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ یہ محض رسمی گھنٹا بن کر رہ گیا تھا۔ 1905ء کے کسی وقت جب ریلوے کا نظام مستحکم ہو چکا تھا اور روزانہ دو سے تین بار ڈاک کی کی ترسیل ہونے لگی تو یہ گھنٹا خاموش ہو گیا۔ آج لاہور شہر کے شور شرابے میں یہ چپ ہے۔ اس روایت کی تصدیق میں جو غالبا اتنی پرانی ہے جتنا ہمارا شہر! ۔" خیر اب شاید ہی کوئی اس گھنٹے پر توجہ دیتا ہوگا۔ کیا ہی اچھا ہوتا کہ اس کے پاس ایک تعارفی تختی لگا دی جاتی۔ ویسے تو عمارت کی تاریخ پر بھی یہاں معلوماتی تختیاں لگانی چاہیں۔ ہزارہا لوگ روازنہ یہاں آتے ہیں۔ انھیں بھی معلوم ہو کہ یہ رفیع الشان عمارت کب تعمیر ہوئی۔ لیکن عموماً ہمارے ہاں ناجانے کیوں ان چیزوں کو اچھا نہیں جانا جاتا۔ احباب سے گزارش ہے کہ اس گرمی میں کبھی ٹھنڈی سڑک کی سیر کو نکلیں تو جی پی او کا بھی چکر لگائیں۔ عمارت محکمے کے عروج کی نشانی ہے جبکہ اندر جانا ہو تو محکمے کا نظام اور اسٹاف کا رویہ بتاتا ہے کہ محکمہ کو زوال کیوں کر آیا۔ تو عروج و زوال کا پتا دینے والی اس جگہ کا دورہ بچوں کے ہمراہ یقیناً مفید رہے گا۔ فرصت ہو تو یہاں ضرور جائیں۔

حوالہ جات ترمیم

  1. Ahmad, Issam, The post-colonial hangover in The Review, Dawn. 9–15 October 2008 pg 18

31°33′57″N 74°18′48″E / 31.5657°N 74.3133°E / 31.5657; 74.3133