جنوبی مانس (آسٹریلو پتھے کس) وہ عمومی نام ہے جو ان تمام مجحرات کو دیا جاتا ہے جو براہ راست انسان کی جدی قطار میں آنے والی باقیات ہیں ۔، جو آج سے اسی لاکھ سال قبل سے لے کر پندرہ لاکھ سال قبل تک روئے زمین پر موجود تھی۔ پوٹھوہار مانس ( رام مانس ) کی جانشین تھی۔ اس کی کھوپڑی تقریباً گول تھی اور بنیاد کے قریب اس کی وسعت زیادہ تھی ۔

1980 تک اس کے ایک ہزار مجحرات صرف جنوبی افریقا سے دستیاب ہو چکے ہیں۔ پہلے پہل تو ہر ملنے والے ڈھانچے کو ایک نئی نسل یا قسم کا نام دیا گیا۔ لیکن بتدریج تحقیقات نے ثابت کیا کہ جنوبی مانس ( آسٹریلو پتھے کس ) کے جملہ شواہد دو قسموں میں تقسیم کیا جا سکتا ہے، ایک کو افریقی جنوبی مانس ( آسٹریلو افریقانس ) کا نام دیا گیا۔ جو چھوٹے قد کاٹ کا مالک تھا۔ اس کو بعد میں نازک اندام جنوبی مانس کہا گیا۔ دوسرے کو گرانڈیل جنوبی مانس ( آسٹریلو پتھے کس روبس ٹس ) کا نام دیا گیا۔ اس کا قد و جسم بھاری تھا۔ اس کے دماغ کا حجم بھی بڑا تھا۔ بعض ماہرین نے اس دو قسموں کو باقیدہ الگ قسمیں مانے کی بجائے ایک ہی قسم کے نر و مادہ قرار دیا ہے۔ لیکن یہ رائے زیادہ تسلیم نہیں کی جاتی ہے ۔

جنوبی مانس کا کہیں بھی ملنے والا سب سے پہلا مجحر ’ توانگ بچہ ‘ جنوبی افریقہ کی یونیورسٹی آف وٹ واٹر سرنیڈ WITWATERSRAND جونانزبرگ کے پروفیسر آف آٹومی ریمنڈ ڈارٹ نے 1924 میں جوہانزبرگ سے دوسو میل دور کمرلے شہر سے اسی میل شمال کی طرف توانگ کے مقام پر ریلوے اسٹیشن کے قریب چونے کے پتھر کی کان سے ایک متحجر کھوپڑی نکالی۔ یہ کھوپڑی انسان اور انسان نما مانس کے درمیان میں کی کڑی تھی۔ یہ ایک بچے کی کھوپڑی تھی اور اس کو توانگ بچہ TONG BABY کا نام دیا گیا۔ اس بچے کے دانت مانس بچہ کی نسبت انسانی بچہ سے زیادہ ملتے تھے۔ اس مخلوق کو پروفیسر ڈارٹ نے آسٹریلو مانس کا نام دیا۔ یعنی وہی نازک اندام جنوبی مانس تھا ۔

بعد میں ٹرانسوال (جنوبی افریقہ) میں مزید مجحرات ملے جو چونے کے پتھر کی چٹانوں میں مدفون تھے۔ چند سال میں اس مخلوق کے کافی مجحرات مل گئے۔ جن میں بچوں اور بڑوں کی معتدد کھوپڑیاں، بلائی اور نچلے جبڑے، دانتوں کے بے شمار نمونے، بازوؤں اور ٹانگوں کے بہت سے مجحرات، آسن کی ہڈیاں وغیرہ۔ غرض کہ اتنی زیادہ تعداد میں اور اتنے مختلف جسمانی اجزائ کی پتھرائی ہوئی ہڈیاں ملیں ہیں کہ جنوبی مانس کی مکمل تصویر سامنے آگئی ہے۔ اس کی نمائیاں خصوصیات کچھ اس طرح کی ہیں ۔

  1. اس کی دماغی گنجائیش موجودہ انسان کے مقابلے میں کافی کم تھی۔ نازک اندام جنوبی مانس کی دماغی گنجائش اوسطاً 440 کیوبک سینٹی میٹر (ک سم) تھی اور گرانڈ یل کی 519 کیوبک سے لے کر 600 ک سم تک تھی۔ اول الذکر کی چھ کھوپڑیاں ملی ہیں اور دوسرے کی چار۔ واضح رہے موجودہ انسان کی دماغی گنجائش 1200 وے 1500 کیوبک سینٹی میٹر ہے ۔
  2. اس جبڑے بھاری بھرکم اور آگے کو بڑھے ہوئے تھے ۔
  3. اس داڑھیں اور دو دھاری دانت بڑے ہیں، لیکن اگلے دانت اور ناب (سوئے) واضح طور پر چھوٹے ہیں َ
  4. اس کی آسن کی ہڈیوں کا ڈھانچہ اور ٹانگوں کی ساخت ابتدائی انسانی اسلوب پر تھی، لیکن انسانی اسلوب پر نہ تھی
  5. کھوپڑی کی ساخت ایسی تھی جو جو جدید مانس سے کئی اعتبار سے مختلف ہے۔ مثلاً کھوپڑی کی اونچائی زیادہ تھی۔ اس کے عقبی حصے کا ابھار نیچے کو تھا۔ کھوپڑی کا نچلا حصہ مثلاً جبڑوں کی ساخت جدید مانس سے مختلف تھی اور ابتدائی مانسوں کے قریب تھی۔ یہ سارے دیگر خصائص اس بات کا ثبوت بہم بہچاتے ہیں کہ یہ مخلوق کھڑے ہو کر چلتی تھی اور اس چال قدیم انسان کے قریب تھی۔ اس خیال کو

مزید تقویت آسن کی ہڈیوں سے ملی ہے۔ جو اس بات کی زبردست تائید کرتی ہیں۔ کیوں کہ ان سب خصوصیات میں کوئی ایک بھی مانس میں نہیں پائی جاتی ہیں۔ صرف یہی نہیں بلکہ جنوبی مانس کے جتنے بھی آسن کے ڈھانچے ملے ہیں وہ سب اس بات کی تائید کرتے چلے جاتے ہیں کہ ان اعضائ کا مالک دو ٹانگوں پر کھڑے ہوکر چلتا تھا اور اس کی چال کا اندازہ اولین نسل انسانی کے اسلوب پر تھا ۔

  1. نازک اندام جنوبی مانس کے دماغ کا حجم اور جسم کی جسامت کا باہمی تناسب تقریباً وہی ہے جو انسان کے جسم اور دماغ کا ہے۔ اس کی کھوپڑی میں سے ریڑھ کی ہڈی گرنے کے لیے سوراخ کھوپڑی کے مرکز کے نذیک ہے۔ جب کہ موجوہ مانسوں اور قدیم مجحر مانسوں کے ہاں یہ فاصلہ زیادہ ہوتا تھا۔ اس کا چہرہ آگے کو بڑھا ہوا ہے، لیکن یہ قدیم و جدید مانسوں جیسی لمبوتری تھوتھنی کی شکل کا نہیں ہے۔ اس کے دانت بھی انگریزی حروف U کی شکل کے نہیں ہیں۔ بلکہ قدرے گول محراب جیسے ہیں۔ یعنی اس طرح اس کے سامنے کے دانت جبڑے میں عموداً جڑے ہیں اور ناب چھوٹے ہیں اور بن مانسوں کے برعکس دوسرے دانتوں سے آگے بڑھے ہوئے نہیں ہیں۔ ناب اور دودھاری دانتوں کے درمیان میں فاصلہ نہیں ہے اور سامنے کے اوپر والے دانت نچلے پہلے دو دھاری دانتوں سے مل کر چیڑ پھاڑ والی زنبور نہیں بناتے ہیں۔ ان کے دودھ کے دانت بعد میں آنے والے انسانی مدارج کے مماثل ہیں اور مانسوں سے یکسر مختلف ہیں ۔
  2. نازک اندام جنوبی مانس کی کھوپڑیوں کے مقابلے میں ٹانگوں اور بازوؤں کے کم نمونے ملے ہیں۔ لیکن اس کے کندھوں کے جو ڈھانچے ملے ہیں وہ بتاتے ہیں کہ یہ مخلوق اوپر چڑنے کے لیے نہایت موزوں تھی۔ نچلے اعضائ یعنی ٹانگوں اور پیروں کی ہڈیاں یہ ظاہر کرتی ہیں کہ یہ جاندار دو پاؤں پر کھڑے ہوکر یا آدھا کھڑا ہو کر چلتا تھا اور چال موجودہ کی کبھی کبھی دو پایہ چال سے چال سے زیادہ مستحکم اور مستقل نوعیت کی تھی۔ اس بات کا ایک ثبوت یہ ہے کہ اس کے کولھے کی ہڈی کا پھل نیچا ہے اور پچھلی طرف سے پھیلا ہوا ہے اور اس میں وہ مخصوص کٹاؤ بھی ہے جو انسانی کولھے کی اس ہڈی کا خاصہ ہے۔ اس کے آسن کی ہڈی کا خلا بڑا ہے جو اس بات کو ظاہر کرتا ہے کہ اس کے بیٹ سے جن بچوں کو جنم لینا ہے اس کے سر بڑے ہیں، یہ دیگر مانسوں سے ایک نمایاں فرق ہے۔
  3. مختلف شواہد سے ظاہر ہوتا ہے کہ نازک اندام جنوبی مانس کا قد تقریباً پانچ فٹ ( 150 سینٹی میٹر ) تھا اور اس کا وزن تقریباً 25 سے 45 کلو گرام تھا ۔
  4. گرانڈیل جنوبی مانس بھی مندرجہ بالا میں اکثر صفات اپنے اندر رکھتا تھا۔ تاہم اس کی کھوپڑی کا حجم زیادہ تھا، یعنی 600 ک سم تک تھا۔ اس کی گردن کے پٹھے زیادہ ترقی یافتہ تھے اور اس کا چہرہ نسبتاً زیادہ چوڑا اور چپٹا تھاـ
  5. گرانڈیل مانس کے دانتوں کی محراب نازک اندام سے کئی لحاظ سے مختلف تھی۔ اس کی ڈارھیں زیادہ چوڑی تھیں اور اس کے نچلے جبڑے کے دو دھاری دانتوں کی نوکیں زیادہ نمایاں تھیں۔ لیکن اس کے سامنے کے دانت نازک اندام بن مانس کے ان ہی دانتوں کی نسبت چھوٹے تھے۔ اس کے انیاب مخروطی ہیں اور بعد میں آنے والی انسانی نسلوں سے مماثل ہیں۔ جب کہ نازک بن مانس کے یہی دانت سیدھے اور متناسب تھے۔ دانتوں کی یہ سب خصوصیات نیز ان کی خوربینی ساخت یہ ظاہر کرتی ہے کہ ان کے چبانے کے دانتوں کا رقبہ زیادہ تھا اور ان کے جبڑوں کی طاقت کا مرکز داڑھوں اور دو دھاری دانتوں پر تھا۔
  6. بیشتر ماہرین دونوں کی چال کی یکسانی پر متفق ہیں۔ گو کہ بعض نے گرانڈیل کو درختوں پرچڑھنے کا زیادہ اہل بتایا ہے۔ تاہم اکثریت کی رائے یہی ہے کہ نازک اور گرانڈیل دونوں مانس زمین پر رہتے تھے اور آدھے کھڑے ہوکر چلتے تھے بلکہ پون (75 فیصد) کھڑے ہو کر چلتے تھے ۔

گذشتہ سالوں میں جنوبی مانس کی مزید ہڈیاں ملی ہیں، جو نوے افراد کے جو جسمانی اعضائ ہیں۔ جن میں مکمل کھوپڑی، نچلا جبڑا، دانت، کندھے کی ہڈیاں، بازو، ہاتھ، کولھے کی ہڈیاں، ٹانگیں اور پاؤں شامل ہیں۔ ان میں ہر عمر اور ہر دو صنف کے اعضائ شامل ہیں۔

ان کی کھوپڑی کی نمایاں خصوصیار ابھری ہوئی ناک، ٹھوڑی کے ابھار کا نہ ہونا، چوڑی اور کم محرابی کھوپڑی اور چھوٹی پیشانی شامل ہیں۔ جن سے ان کی آنکھیں بن مانس جیسی لگتی ہیں۔ لیکن ان کی دماغی گنجائش 600 کیوبک سینٹی میٹر ہے۔ جو کسی بھی انسان نما مانس سے زیادہ ہے۔ بعض افراد کی بھوئوں کا استخوانی ابھار نمایاں نہیں۔ دانتوں کی ساخت انسانی شکل سے زیاہ قریب ہے۔ دماغ کی بنیاد کے نیچے بڑا خلا پیشانی کے زیادہ قریب ہے اور مانس کی نسبت بہت نیچے ہے۔ جس سے اس کے دو پایا ہونے کا ثبوت ملتا ہے۔ اس کی مزید تائید کولھوں کے ڈھانچے سے ہوتی ہے اور یہ ثابت ہوتا ہے کہ یہ مانس نہیں ہے بلکہ انسان کی ابتدائی شکل ہے۔

جنوبی مانس طویل عرصے زندہ رہے۔ گو کہ اس نسل کا آغاز اسی لاکھ سال قبل تسلیم کیا جاتا ہے، لیکن اس کے واضح نمونے ارتیس لاکھ سال پرانے ہیں اور آخری کے پندرہ لاکھ سال بلکہ دس لاکھ سال قبل کے نمونے زیادہ پائے جاتے ہیں۔ چند نمونے اس سے بھی کم پرانے ہیں۔ جب کوئی نئی نسل ظہور میں آتی ہے تو اس کے اسلاف کی نسل بھی لاکھوں سال تک ساتھ چلتی ہے اور طویل تاریخی عمل میں معدوم ہوتی ہے۔ اس طرز کا زمانی تجاوز تمام جانداروں کی نسلوں میں رہا ہے۔ اس لیے ظہور انسانی کے تعین میں مکانکی پن سے پچنا ضروری ہے۔

حوالہ جات ترمیم