جوانسال بگٹی بلوچی زبان کے ایک پرفکر اور قادر الکلام سخنورحسین قدروں کے دلدادہ اور درس اخلاق کے ایک معروف معلم وصوفی شاعر تھے۔

پیدائش اور وفات

ترمیم

پیدائش

جّوانسال 1885 ء کو برطانوی ہندستان کے شہر سوئی گاؤں کھٹن میں تھنگئی (نورمحمد) کے گھر پیدا ہوئے۔ ماں باپ نے نام جّوانسال رکھا اور۔


وفات

جّوانسال 09 دسمبر 1966 ء جمعرات رات کے 3 بجے (25 شعبان 1386) کو اپنے خالق حقیقی سے جاملے آپ کو اپنے آبائی گاؤں کھٹن کے قبرستان میں مدفن کیا گیا۔

قبیلہ

ترمیم

بلوچ قوم کے قبیلہ بہار بگٹی کی شاخ ہجوانی سے تعلق تھا[1]

تعلیم

ترمیم

پسماندگی کے سبب آپ اسکول، کالج یا مدرسے میں علم کے زیور سے آرا ستہ تو نہ ہو سکے، تاہم الہامی طور پر علم و فکر اور اپنے نیک سیرت والد کی صحبت اور پیغمبری پیشہ چرواہاگری میں قدرت کے نظاروں اور پہاڑوں وبیابانوں میں فطرت کے حسن سے متاثر ہوکر شاعری کی جانب گامزن ہوئے۔روایتی تعلیم سے بے بہرہ ہونے کے باوجود اسلام کے مبلغ اور سماجی زندگی سے باخبر مصلح کے طور پر ان کے کلام میں اوصاف اخلاقی کو موضوع بنایا گیا اخلاقی شاعری تصوف کے قریب تر ہے[2]

شاعری کی نوعیت

ترمیم

جوانسال قرآن پاک کے احکامات اور حدیث مبارکہ پر عمل کا درس اپنے اشعار کے ذریعے دیتے ہیں ان کی شاعری کی تعریف غلام قادر بزدا کرتے ہیں

  • کبھی رحمان کی باتیں کبھی قرآن کی باتیں
  • کبھی اشعار میں دین متین کی بات کرتے ہیں
  • کبھی اشعار میں ان کے تراجم ہیں حدیثوں کے
  • کبھی وہ صادق الوعد الامین کی بات کرتے ہیں[3]

صوفیانہ شاعری

ترمیم

بابا جّوانسال بگٹی کی شاعری میں حمد و نعت‘ حسن و عظمت کے علاوہ بلوچی اخلاقی قدروں کی پاسداری کی تلقین وہدایات واضح انداز میں چمکتی دمکتی نظر آتی ہیں۔ عرصہ دراز سے عشقِ حقیقی میں مبتلا جنگلوں اور بیابانوں میں شاعری کرتے رہے۔ اپنے علاقے میں مال مویشی سے شوق رکھتے ہوئے کبھی کسی میٹروپولٹین و شہری زندگی کا رخ نہیں کیا۔البتہ اس دور میں برٹش دور کے انگریز حکمران نے بابا جّوانسال بگٹی کو اپنی جانب گامزن کرنے کے لیے بڑے حیلے وسیلے کیے۔تاہم بابا جّوانسال بگٹی نے اپنی وطن دوستی علاقے کے عوامی مسائل اور سب سے اہم بات یہ کہ وہاں کے باسیوں سے محبت کرتے ہوئے کبھی کسی اعلیٰ حکام یا نواب و سردار کے دربار میں درباری نہ بنے۔ حالاں کہ تجربات و مشاہدات کے مطابق عشق مجازی سے ہوتے ہوئے عشق حقیقی کا سفر کیا جاتا ہے۔ تاہم اس حوالے سے بابا جّوانسال بڑے خوش نصیب ہیں کہ وہ ایک سمت میں سفر کر کے شاعری جیسی نعمت سے نوازے گئے۔ان کی زندگی میں کوئی سمو بیلی، حرمت بی بی، ہیر اور سسی نہیں آئی۔ سیدھا اللہ تعالیٰ سے عشق اور رسول اللہ سے محبت نے ان کے اندر میں ہل چل مچا دی اور وہ بلوچی زبان میں بے تحاشا شاعری کرنے پر اتر آئے۔بابا کی تمام شاعری حمد و نعت، انسانی خدمت اور قدرت کی نعمتوں پر مشتمل ہے۔[4]بابا جوانسال کی شاعری چھوٹے بیٹے قاری نور محمد نے بابا جّوانسال کے زبان سے سن کر تہرید جمع کر کے بابا جوانسال بگٹی کے تقریباً تمام بلوچی کلام پہ مشتمل کتاب شائع کروائی ہے۔ انگریز مصنف نے اپنی کتاب The Tigers of Balochistanکے صفحہ نمبر 166 پر بابا جوانسال بگٹی کے بارے میںت فصیلی اظہار خیال کیا ہے۔ ڈیرہ بگٹی میں اپنی مادری زبان( مشرقی بلوچی) میں عشق حقیقی میں مبتلا ہو کر شاعری کرنے والے جوانسال بگٹی شاہ لطیف بھٹائی، مولانا رومی اور خواجہ غلام فرید کے قافلے کے سچے سپاہی ہیں۔[5]

حوالہ جات

ترمیم
  1. جوانسال از نور محمد دہقانی، صفحہ 21، گوشہ ادب کوئٹہ 2011 ء
  2. بلوچستان کے بلوچی شعرا، صفحہ 23 راجا کامران اعظم سوہدروی، سٹی بک پوائنٹ کراچی 2011ء
  3. شعرائے کوہ سلیمان، صفحہ 29،غلام قادر بزدار، بزدار بلوچ پبلیکیشنزتونسہ شریف 1996
  4. نغمہ کوہسار، صفحہ 225،عبد الرحمن غوری، بلوچی اکیڈمی کوئٹہ 1968ء
  5. https://haalhawal.com/Story/8672[مردہ ربط]