ہندو چمار اودھ مین کولی کہلاتے ہیں جبکہ مشرق میں ان کو پاؤلی بھی کہتے ہیں ان میں سے کچھ کپڑا بنتے ہیں، کپڑا بننے والے اپنے کو جھلاد کہتے ہیں ۔[1] جب کہ مسلمان جولاہا کہلاتے ہیں ۔ جولاہا فارسی کا کلمہ ہے اور پیشہ کا نام ہے۔ دنیا کے ہر ملک میں اس پیشے کے لوگوں کی عزت نہیں کی جاتی اور ان کو کمی جانا جاتا ہے۔اس پیشے سے وابستہ قوموں کو عزت دار قوم نہیں مانا جاتا ہے۔

سر ولسن کا کہنا ہے چمار اور جولاہے کا ماخذ ایک ہی ہے اور پیشہ کے اختلاف کی وجہ سے ان کے درمیان فرق پیدا ہو گیا ہے ۔ [2] لیکن جولاہے ناپاک چمڑے کا کام نہیں کرتے ہیں ، وہ مردار نہیں کھاتے ہیں اور انھیں چھوتے بھی نہیں ہیں ۔ ہندو اور مسلمان دونوں انھیں انھیں اپنے عقیدے کا پیرو تسلیم کرتے ہیں ۔ اور اپنی مذہبی مساوات میں شامل کرتے ہیں ۔ جولاہا کو خیبر پختونخوا میں کاصبی بھی کہا جاتا ہے کیونکہ کاصبیوں کا پیشہ بھی کھڈی پر سوتی اور ریشمی دھاگوں سے کپڑا تیار کرنے کا تھا جو بعد میں معاشرے میں کاصبیوں اور جولاہوں کو حقارت کی نظر سے دیکھنے پر کم ہو گیا اور انھوں نے مخلتف پیشے اختیار کر لیے اور پھر جدید دور کے ساتھ ساتھ یہ کام مشینوں اور کارخانوں میں چلا گیا۔


انصاری

ترمیم

برادران انصار برادری کے اعتبار سے انصاری اور پیشہ کے اعتبار سے مومن جولاہا کہلاتے ہیں(واضح رہے کہ جولاہا کو ہندی زبان میں بنکر बुनकर نیزانگریزی میںWeaver کہتے ہیں اور جولاہے صرف مسلم ہی نہیں بلکہ ہندو بھی ہوتے ہیں۔ اس لیے ان سے فرق کرنے کے لیے انھیں مومن جولاہا کہا جاتا ہے)۔ عصبیت پرست اور ہندو سے مسلمان بنے بزعم خود اشراف مسلمان انھیں سماج میں نیچا دکھانے کی خاطر برادری کے اعتبار سے جولاہا کہنے لگے، جبکہ یہ پیشہ کے اعتبار سے جولاہے ہیں۔ سرکاری ملازمتوں اور اعلی سرکاری عہدوں پر چونکہ عصبیت پرست اورہندو سے مسلمان بنے انھیں بزعم خوداشراف طبقہ کے لوگوں کا غلبہ رہا ہے اس لیے انھوں نے مردم شماریوں کے موقعوں پر انصاری برادری سے اپنی نفرت کا اظہار کرتے ہوئے ان کی ذات اور گوت جولاہا لکھتے و لکھواتے رہے۔ یہاں تک کہ 1921ء کی مردم شماری میں بھی یہی لکھوایا گیا۔ مگر 1931ء میں انصاری برادری کے لوگوں نے اس جانب خصوصی توجہ دی اور پیش قدمی کرتے ہوئے اپنی ذات انصاری لکھوائی اور پیشہ کے اعتبار سے جولاہا لکھوایا۔ بہار کے انصاری صحابی رسول حضرت ابو ایوب انصاری کی نسل سے ہیں،اگرچہ دیگر مسلمانوں کی طرح انصاری برادری کی بھی ایک خاصی تعداد تبدیلی مذہب کرکے ہندو سے مسلمان ہوجانے والے مقامی لوگوں کی ہے۔اس طرح اس برادری کے درمیان بزعم خود اشراف طبقہ کے مسلمانوں کی طرح عرب مآخذ کے ساتھ اس سرزمین کے قدیمی مآخذ بھی شامل ہیں۔انصاری برادری کے یہ عرب اوراس سرزمین کے قدیمی مآخذاس طرح باہم مدغم ہو گئے ہیں کہ پہچان مشکل ہے۔ تاہم بعض مقامات کے انصاری برادری کے درمیان برادری سسٹم اور رسومات و بزعم خود اشراف طبقہ کے مسلمانوں کی طرح اپنی ذات میں ہی شادی کرنااس سرزمین کے قدیم مآخذ سے ہونے کا پتہ دیتے ہیں۔ ۔

شاخیں

ترمیم

چونکہ جولاہہ پیشہ کا نام ہے اور کپڑا کا کام کرنے والے کو جولاہا بولا جاتا ہے تو بہت ساری قوموں کے لوگوں نے رزق حلال کے حصول کے لیے اس پیشہ کو اپنایا اس لیے اب پنجاب کے علاقوں میں جولاہوں کی مختلف شاخیں ہیں بیشتر نے اپنی قوم کا نام نہیں چھوڑا ۔ ان میں بھٹی ، سندھو ، کبیر بنسی ، جرپال ، گل ، رانجھا وغیرہ وغیرہ ۔ ان میں کبیر بنسی مشرقی ہندوستان میں پھیلا ہوا ہے اور اس میں ہندو اور مسلمان دونوں شامل تھے ۔ یہ مشہور بھگت کبیر کے نام سے جس کے متعلق مشہور ہے وہ خود بھی جولاہا تھا ۔ مشرقی جولاہے دو بڑی شاخوں دیس والی اور تیل میں تقسیم ہیں ۔ دیس والی دیسی اور تیل ایک تیلی عورت سے شادی کرنے والے جولاہے کی نسل خیال کی جاتی ہے ۔ تیل بانسبت دیسوالی کے پست سمجھے جاتے ہیں ۔ جمنا کے اضلاع میں گنگا پوری اور وسط ہند میں ایک ملتانی شاخ بھی تھی ۔ یہ پشاور میں گولاہ اور ہزارہ میں کاسی کہلاتے تھے ۔ یہ مغرب میں مسلمان جولاہوں کی مختلف ذاتیں ملتی تھیں ۔ ان میں زیادہ تر علاقائی بنیادوں پر تقسیم تھے ۔ مثلاً جنڈ میں جانگلی ، دیسوالی ، بجواریہ اور پاریہ ذاتیں تھیں ۔ نابھ میں جانگلا ، پواڈھڑے باگری اور ملتانی پارے ، موچیا تھے۔ بعض مقامات کی انصاری برادری (جولاہوں) کے درمیان تعلیمی بیداری کم ہونے کے سبب جنگلی سیدوں اور جعلی پیروں کو بہت مانتے ہیں۔ تاہم مجموعی طور سے دیگر مسلمانوں کی بنسبت انصاری براری کے لوگ مذہب کے معاملے میں زیادہ حساس و بیدار اور دیندار ہوتے ہیں۔

ماخذ

ترمیم

ہندوستانی تہذیب کا مسلمانوں پر اثر ۔ ڈاکٹر محمد عمر
پنجاب کی ذاتیں ۔ سر ڈیزل ایپسن
ذاتوں کا انسائیکلوپیڈیا ۔ ای ڈی میکلین ، ایچ روز

  1. "کولی" 
  2. "چمار"