جھینور جسے پنجاب کے مشرق میں کمھار ا اور وسط میں اگر ہندو ہو تو مہرا کہا جاتا ہے ۔ یہ حمال ، بہشتی اور مشرق میں ٹوکری ساز ہے ۔ یہ پالکی اور ایسے تمام بوجھ اپنے کندھوں پر اٹھاتا ہے جو ایک بیلوں کی جوڑی اٹھاتی ہے ۔ پانی کے ساتھ اس کا خصوصی تعلق ہے ۔ یہاں تک وہ سنگھاڑے کی کاشت اور ماہی گیری کے جال بھی بناتا ہے اور کنوئیں بھی کھودتا ہے ۔ یہ حقیقی معنوں میں خدمت گار ، رواجی معاوضہ وصول کرتا ہے اور رواجی خدمات انجام دیتا ہے۔ وہ کاشتکار کو ضرورت کی ٹوکریاں فراہم کرتا ہے ، کٹائی کرنے والے کھیتوں میں ، شادی اور دوسری تقریبات میں پانی پلاتا ہے ۔ اس کی سماجی حثیت بلند ہے کہ سب اس سے پانی پی لیتے ہیں ۔ تاہم وہ ایک ملازمین ہیں ۔ اگر کوئی جھینور کشتی چلاتا ہے تو ملاح دریائی ، درین اور جٹ اور موہانا بھی کہلاتا ہے اور اس کے مذہب کا مدار علاقے کے مذہب پر ہے ۔ اس کی ذاتیں کھوکھر ، مہر ، بھٹی ، منہاس ، ٹانک اور سوہال ہیں ۔ شکر گڑھ میں یہ دوگڑا ہیں ۔ جالندھر میں پنجابی یا مقامی ، بانگرو اور چھنگرو ہے ۔ پٹیالہ میں یہ دیسوالی اور ملتانی ہیں ۔ بانگرو ملتانیوں سے شادی نہیں کرتے ہیں ۔

یہ جمنا کے کناروں پر بڑی تعداد میں آباد ہیں وہ ماہی گیری اور کشتی رانی بھی کرتے ہیں ۔ ان میں کچھ بھربھونجے ہیں لیکن زیادہ تر کاشت کار ہیں ۔ ّآگرے سے اوپر جھینور ان سے علحیدہ ہیں اور یہ جرائم کے عادی بھی ہیں ۔ وہ زمین کاشت کرتے ہیں اور موسیقاروں کے بھیس میں گاتے ، بھیک مانگتے اور معلومات حاصل کرکے نقب زنی کرتے ہیں ۔ تمام ہندو ان کے ساتھ کھا پی لیتے ہیں ۔ جو اس بات کا ثبوت ہے کہ وہ واقعی جھننور ہیں ۔

جھینور کو ایک مخلوط ذات کہا جا سکتا ہے اور اس کے ناموں کا مدار پیشوں پر ہے ۔ جنوب مشرق میں اسے دھینور کہا جاتا ہے ۔ یہ دولیاں اٹھاتا ہے اس لیے کہار کہلاتا ہے ۔

ماخذ

ترمیم

پنجاب کی ذاتیں ۔ سر ڈیزل ایپسن

ذاتوں کا انسائیکلوپیڈیا ۔ ای ڈی میکلین ، ایچ روز