یہ جین ہال اندرون بھاٹی دروازہ لاہور میں واقع ہے۔ جین مت کا شمار ہندوستان کے قدیم مذاہب میں ہوتا ہے۔ اس مذہب کے آغاز کے متعلق کوئی خاص شواہد موجود نہیں. جبکہ جین مت کے اپنے عقیدے کے مطابق یہ ابدی مذہب ہے جو ہمیشہ سے چلا آ رہا ہے۔ جین مت بھی بدھ مت کی طرح ہندو مذہب میں اصلاح کی تحریک تھی. مگر جین مت اور ہندو مذہب میں کافی اختلاف ہے۔ عموماً لوگ اس کو ہندو مذہب کا ہی حصہ سمجھتے ہیں جو درست نہیں. بہت سے لوگ مہاویر کو جین مت بانی بتاتے ہیں, جبکہ جین مذہب کے ماننے والوں کے بقول مہاویر آخری تیر تھنکر(رہنماء یا متلاشی راہ)تھے۔ ان سے قبل دنیا کے آغاز سے مہاویر تک 2٣ تیر تھنکر آئے ہیں۔ مہاویر کو مہاتما بدھ کا ہم عصر بتایا جاتا ہے۔ جین مذہب کے عقائد کافی عجب ہیں, ان کا سب سے اہم اور بنیادی عقیدہ اہنسا یعنی عدم تشدد کا ہے۔ گاندھی جی اہنسا کے عقیدے سے کافی متاثر تھے بلکہ ان کے بعض سوانح نگاروں کے مطابق گاندھی جی کا تعلق جین مذہب سے ہی تھا۔ پیدائشی طور پر گاندھی جین تو نہ تھے البتہ ان کی جائے پیدائش گجرات کاٹھیاوار میں جین مذہب کافی مقبول تھا اس باعث اس کا آپ پر ضرور اثر ہوا ہوگا. خیر جین مت کے پیروکار فطرت سے زیادہ قریب رہتے ہیں اور ان کے رشی یا سادھو تقریباً دنیاوی چیزیں استعمال نہیں کرتے اور آسائشوں سے بھی دور بھاگتے ہیں۔ جین مت کے دو اہم فرقوں میں سویتامبر اور دِگمابر شامل ہیں۔ ان دونوں کے عقائد و نظریات کافی مختلف ہیں۔ جین مت میں کسی کامل یا اعلی وجود یعنی خدا کا کوئی تصور نہیں ہے۔ بھاٹی دروازے میں موجود یہ جین ہال شادی ہال کے طور پر استعمال ہوتا تھا۔ ویسے کہا جاتا ہے کہ جین مت مجرد زندگی گزارنے پر زور دیتا ہے لیکن آہستہ آہستہ اس میں شاید کافی تبدلیاں ہوگیں. اس ہال کے باہر ایک سے زائد تختیاں لگی ہوئی ہیں۔ جن سے اس ہال کے بنانے والوں کے متعلق قابل قدر معلومات ملتی ہے۔ باہر لگی تختیوں پر درج ذیل عبارات درج ہیں: " شری ستھا نکواسی جین ہال لاہور ویر سمبت 2٤٦٦ یہ سنگ بنیاد شریمتی سُکھ دیوی جین دھرم پتنی لالہ رلا رام جین بی اے, پی سی ایس سینئیر سب جج ریٹائرڈ و سابقہ جوڈیشل ممبر چمبہ کونسل نے مورخہ ١0 اکتوبر ١9٤0ء مطابق اسوج سمت ١99٧ کو رکھا." یہی عبارت غالباً ہندی میں اوپر بھی موجود ہے۔ جبکہ انگریزی میں بھی اسی عبارت کی, ساتھ ہی ایک تختی موجود ہے۔ دوسری تختی پہ درج ہے: "ایس ایس جین ہال تعمیر کردہ ایس ایس جین ہال سبھا لاہور جس کی رسم افتتاح لالہ رلارم خلف لالہ وساؤ مل جی بی اے, پی سی ایس سینئیر سب جج (ریٹائرڈ)سابق جوڈیشل ممبر چمبہ کونسل نے اپنے دست مبارک سے مورخہ 8 فروری ١9٤2ء کو فرمائی." یہ عبارت بھی اردو کے ساتھ ہندی اور انگریزی میں موجود ہے۔ اب بھی لوگ اس گلی کو جنج گھر والی گلی کہتے ہیں۔ یہ ہال جین مذہب کے جس فرقے نے بنوایا تھا وہ بتوں کی پرستش نہیں کرتے. البتہ ان کا عبادت کے لیے ایک ہال ہوتا ہے جس کو غالباً ستھنک کہا جاتا ہے۔ لاہور میں تقسیم سے قبل جین مذہب کے ماننے والوں کی کافی تعداد تھی. اس کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ لاہور میں تقریباً ١2جین مندر تھے۔ ان میں سے اکثر تو شاہ عالمی میں تھے جو جلا دیے گے. جبکہ ایک بڑا مندر جو تقسیم میں بچ گیا تھا وہ پہلے ١992ء میں تباہ ہوا پھر حال ہی میں اورنج لائن ٹرین کی نظر ہو گیا۔ اب فقط ایک ہی جین مندر کے آثار موجود ہیں۔ لاہور گزٹئیر ١88٣ء میں موجود مردم شماری کی رپورٹ کے مطابق لاہور کے ہر دس ہزار شہریوں میں سے ٤2 جین تھے۔ جبکہ لاہور گزٹئیر ١89٤ء کے مرتبین نے ذکر کیا ہے "راسخ العقیدہ ہندو, سکھ اور جین بہت سے مشترکہ عقائد رکھتے ہیں اور ایک دوسرے کے معبدوں میں عبادت کرنے کے خلاف کوئی تعصب نہیں رکھتے." اے حمید اپنی کتاب "لاہور لاہور اے" میں لکھتے ہیں " کبھی کبھی ننگ دھڑنگ سادھوؤں کی کوئی ٹولی بھی دسہرے کی تقریبات میں حصہ لینے لاہور آ جاتی تھیں. یہ مادر زاد برہنہ ہوتے تھے اور ان کے سارے بدن پر راکھ ملی ہوئی ہوتی تھی. یہ جینی فرقے کے سادھو ہوتے تھے...ان کا ڈیرہ سب سے الگ کسی پوشیدہ جگہ پر ہوتا تھا, جہاں صرف ہندو لوگ ہی جا کر ان کا آشیر باد حاصل کرتے تھے...یہ لوگ بتوں کی پوجا نہیں کرتے تھے۔ ان کے مندروں میں کسی دیوی دیوتا کا بت نہیں ہوتا. میں نے ان کے مندر دیکھے ہیں۔ ان کے مندر کے سب سے بڑے استھان یعنی ہال کمرے کے وسط میں ایک چبوترا ہوتا ہے جس پر مہاویر کی تعلیمات کی پرانی کتابوں کے نسخے رکھے ہوتے ہیں۔ وہاں جین مت کے ماننے والے جا کر ان کتابوں کو پڑھتے ہیں اور گیان دھیان کرتے ہیں...لاہور میں جینی سادھو کبھی کبھار آتے تھے اور وہ صرف اپنے اپنے ڈیروں تک محدود رہتے تھے۔ شہر میں جانے کی انھیں اجازت نہیں ہوتی تھی...جینی سادھو کسی جان دار کو ایذا پہنچانا یا اسے مارنا پاپ سمجھتے تھے۔ اس خیال سے کہ سانس لیتے وقت جراثیم ان کے منہ میں جا کر مر نہ جائیں وہ اپنے منہ پر سفید کپڑے کی باریک جالی باندھ لیتے ہیں۔ جب ان کی چارپائیوں میں کھٹمل پڑ جاتے ہیں تو وہ انھیں مارتے نہیں بلکہ اجرت پر ایک دو آدمی بلوا کر انھیں باری باری اپنی چارپائیوں پر لٹاتے ہیں۔ جب کھٹمل ان کا خون پی کر سیر ہوجاتے ہیں اور انھیں کسی اور کو کاٹنے کی حاجت نہیں رہتی تو یہ جینی لوگ اس کے بعد مزے سے چارپائیوں پر سو جاتے ہیں." اب تو لاہور میں شاید ہی کوئی جینی رہتا ہو. لیکن ان کا بنایا یہ جین ہال اب تک موجود ہے۔ کچھ عرصہ قبل جب میں یہاں گیا تھا تو اس ہال کی حالت کافی بُری تھی. اس کے بعد سنا تھا کہ کوئی صاحب اس کو خرید کر اس کی مرمت کا سوچ رہے ہیں۔ اچھا ہے کہ اس ہال کو بحال کر کے محفوظ کر لیا جائے. کیونکہ یہ لاہور میں جین مذہب کی بچ جانے والی چند نشانیوں میں سے ایک ہے۔ تاریخی عمارات کا ذوق رکھنے والے احباب کو اس ہال کی ضرور زیارت کرنی چاہیے. امید ہے کہ اگر کسی نے اس کو خریدنے کا ارادہ کیا ہے تو وہ اس کو برباد کرنے کی بجائے بحال ہی کریں گے. [1]

حوالہ جات ترمیم

  1. طلحہ شفیق

حوالہ جات