حرمت رضاعت جن عورتوں کے ساتھ نکاح رضاعت (دودھ شریک ہونے) کے رشتہ کی وجہ سے حرام کیا گیا ہے وہ محرمات رضاعی کہلاتی ہیں وہ سات ہیں حرمت نکاح کی تین قسمیں ہیں (1)حرمت نسب، (2)حرمت رضاعت اور (3)حرمت مصاہرت ہیں

حرمت رضاعت

ترمیم

امام محمد بن اسماعیل بخاری روایت کرتے ہیں : سیدہ عائشہ بیان کرتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا اللہ نے جن رشتوں کو ولادت کی وجہ سے حرام کیا ہے ان کورضاعت کی وجہ سے بھی حرام کر دیا۔[1]

مدت رضاعت

ترمیم

مدت رضاعت میں دودھ کم پیا ہو یا زیادہ اس سے رضاعت ثابت ہوجاتی ہے قلیل کا معیار یہ ہے کہ دودھ پیٹ میں پہنچ جائے امام ابوحنیفہ کے نزدیک مدت رضاعت ڈھائی سال ہے اور امام ابویوسف اور امام محمد کے نزدیک مدت رضاعت دو سال ہے۔ مدت رضاعت گزرنے کے بعد رضاعت ثابت نہیں ہوتی اور نہ تحریم

رضاعت کے اثرات

ترمیم
  • حرمت رضاعت کا تعلق جس طرح دودھ پلانے والی عورت کے ساتھ ہوتا ہے اسی طرح اس کے شوہر سے بھی ہوتا ہے
  • دودھ پینے والے پر اس کے رضاعی ماں باپ اور ان کے اصول اور فروع حرام ہیں خواہ وہ اصول اور فروع نسبا ہوں یا رضاعی‘ حتی کہ دودھ پلانے والی کا اس شخص (شوہر) سے یا کسی اور سے بچہ پیدا ہو‘ اس دودھ پلانے سے پہلے یا اس کے بعد یا وہ عورت کسی اور بچہ کو اپنا دودھ پلائے یا اس شخص (شوہر) کا کسی اور عورت سے بچہ پیدا ہو‘ اس دودھ پلانے سے پہلے یا اس کے بعد یا وہ عورت کسی اور بچہ کو اپنا دودھ پلائے تو یہ سب اس دودھ پینے والے کے بہن بھائی ہیں
  • ان کی اولاد اس کے بھائی بہنوں کی اولاد ہے‘ اور دودھ پلانے والی عورت کے شوہر کا بھائی اس کا چچا ہے اور اس کی بہن اس کی پھوپھی ہے اور اس کا بھائی اس کا ماموں ہے اور اس کی بہن اس کی خالہ ہے
  • اسی طرح دادا اور دادی کا حکم ہے‘ اور رضاع میں حرمت مصاہرت بھی ثابت ہوگی حتی کہ مرضعہ (دودھ پلانے والی) کے شوہر کی بیوی دودھ پینے والے پر حرام ہوگی اور دودھ پینے والے کی بیوی اس پر حرام ہوگی۔[2]

اسی طرح رضاعت کے ذریعہ بھی وہ تمام عورتیں حرام ہوجاتی ہیں جوحرمت نسب اور حرمت مصاہرت کی وجہ سے حرام ہوجاتی ہیں

فہرست محرمات

ترمیم
  • (1) دودھ پلانے والی ماں اور اس کی دادی نانی جس قدر بھی اوپر چلتے جائیں۔ (آیت) ” وامھاتکم التی ارضعنکم “۔ ”اور تمھاری وہ مائیں جنھوں نے تمھیں دودھ پلایا ہو۔ “
  • (2) رضاعی بیٹی اور اس کی بیٹیاں جس قدر بھی نیچے چلتے جائیں۔ رضاعی بیٹی وہ ہوتی ہے جسے کسی کی بیوی نے دودھ پلایا ہو اور وہ بیوی اس کے نکاح میں ہو ۔
  • (3) رضاعی بہن اور اس کی بیٹیاں جس قدر نیچے بھی ہوں۔ (آیت) ” واخواتکم من الرضاعة “۔ ’ اور تمھاری دودھ شریک بہنیں۔ “۔
  • (4) رضاعی پھوپھی اور رضاعی خالہ۔ رضاعی خالہ دودھ پلانے والی کی بہن ہوتی ہے اور رضاعی پھوپھی دودھ پلانے والی کے خاوند کی بہن ہوتی ہے ۔
  • (5) بیوی کی رضاعی ماں۔ یہ وہ عورت ہے جس نے بیوی کو بچپن میں دودھ پلایا۔ اس طرح اس ماں کی اصول یعنی دادی نانی جس قدر بھی اوپر کو جائیں اور یہ تحریم محض نکاح سے قائم ہوجاتی ہے ‘ جس طرح نسب میں ہوتی ہے ۔
  • (6) بیوی کی رضاعی بیٹی ‘ یعنی وہ لڑکی جس کی بیوی نے اس شخص کے ساتھ نکاح کرنے سے پہلے دودھ پلایا ہو۔ اسی طرح اس کی تمام پوتیاں جس قدر بھی نیچے چلیں۔ البتہ یہ تحریم تب جاری ہوگی جب بیوی کی ساتھ مجامعت ہو گئی ہو ۔
  • (7) یعنی رضاعی باپ اور دادا کی بیوی حرام ہے۔ رضاعی باپ وہ ہے جس کی بیوی نے دودھ پلایا ہو ‘ اس لیے صرف وہ عورت ہی حرام نہ ہوگی جس نے دودھ پلایا وہ رضاعی ماں ہو گئی بلکہ اس کے رضاعی باپ کی منکوحہ یعنی رضاعی ماں کی سوکن بھی حرام ہوگی ۔
  • (8) رضاعی بیٹے کی بیوی ‘ جس قدر نیچے چلے جائیں۔
  • (9) اسی طرح بیوی اور بیوی کی رضاعی بہن بھی حرام ہو گئی ‘ بیوی کی رضاعی چچی اور خالہ بھی حرام ہو گئی یا ہر ہو عورت جو اس کے لیے رضاعت کی وجہ سے حرام ہوئیں ۔

حوالہ جات

ترمیم
  1. صحیح البخاری‘ حدیث نمبر : 1285‘ صحیح مسلم‘ حدیث نمبر : 1444‘ سنن ترمذی‘ حدیث نمبر: 1150
  2. فتاوی عالمگیری ج 2 ص 137‘ مطبوعہ مکتبہ رحمانیہ لاہور