حسن بن علی بن فضال

حسن بن علی بن فضال علی ابن موسی الرضا کے خاص شاگرد




حسن بن علی بن فضال کوفہ کے رہنے والے تھے ۔ محدث ، فقیہ و شعیوں کے موثق روایوں میں ان کا شمار ہوتا ہے ۔ حسن  بن علی بن فضال کوفی جعفر صادق ، موسی بن جعفر اور علی ابن موسی الرضا کے خاص اصحاب میں شمار کیے جاتے ہیں۔ تیسری صدی ھجری میں مسفر قرآن کے طور پر مشہور ہوئے اور تفسیر قرآن پر بہت ساری کتابیں لکھیں۔[1] بعض ان کو اصحاب اجماع میں بھی شمار کرتے ہیں ۔ حسن بن علی بن فضال نے اھل بیت سے بہت ساری روایات کو نقل کیا ہے اور ان کا نام سلسہ راویان میں آیا ہے ۔  

   

مذہب:

حسن بن علی بن فضال جعفر صادق کی امامت کے بعد موسی ابن جعفر کی امامت کو قبول نہیں کیا بلکہ جعفر صادق کے دوسرے بیٹے عبد اللہ افطح کی امامت کے قائل ہو گئے تھے۔ لیکن کچھ عرصہ کے بعد وہ اپنے اس عقیدے سے واپس پلٹے اور توبہ کی اور موسی بن جعفر کی امامت کو قبول کیا۔[2]

علم رجال کی نگاہ میں:

حسن بن علی بن فضال کی وثاقت کے لیے یہی کافی ہے کہ حسن عسکری سے حسن بن علی بن فضال کے بارے میں روایت نقل کی جاتی ہے کہ حسن عسکری نے فرمایا: خذوا ما رووا و ذروا ما رأوا ؛ ان کی روایات پر عمل کرو اور ان کے اعتقادات کو مت لو۔[3]

علم رجال کی کتابوں میں حسن بن علی بن فضال کی بہت زیادہ توصیف بیان کی گئی ہے ان کے فضل ، علم ، فقہ اور دیانت کو بیان کیا گیا ہے۔

شیخ طوسی اپنی کتاب الفھرست میں حسن بن علی بن فضال کی وثاقت کے بارے میں لکھتے ہوئے کہتے ہیں: حسن بن علی بن فضال نے علی ابن موسی لارضا نے روایات کو نقل کیا ہے اور حسن بن علی بن فضال ایک جلیل القدر ، عظیم المنزلہ اور باتقوی شخصیت کے حامل تھے[4]۔ شیخ طوسی نے اپنی دوسری علم رجال (رجال طوسی) کی کتاب میں حسن بن علی بن فضال کو ایک راوی ثقہ کے طور پر قلم بند کیا ہے۔ [5]

نجاشی اپنی علم رجال کی کتاب رجال نجاشی میں حسن بن علی بن فضال کے بارے میں لکھتے ہیں کہ: حسن بن علی بن فضال ساری عمر مذہب فطحی پر رہے اور انھوں نے راویان ثقہ میں شھرت حاصل کی یہاں تک کہ اس دنیا میں رخصت ہو گئے اور انھوں نے جو کچھ کہا سچ کہا خدا ان سے راضی ہو۔ [6]

نجاشی لکھتے ہیں کہ: حسن بن علی بن فضال عکرمہ بن ربیع الفیاض کے آزاد کردہ غلام تھے اور اباعبداللہ کہتے ہیں کہ: وہ احادیث کے سلسلہ سند میں ثقہ تھے۔[7]

محسن الامین اپنی کتاب اعیان الشیعہ میں حسن بن علی بن فضال کے بارے میں لکھتے ہیں کہ: حسن بن علی بن فضال کی وثاقت ظاہر ہے اس میں کسی قسم کی تردید نہیں اور انھوں نے مذہب فطحی سے کنارہ گیری اختیار کی لیکن ان کے مذہب فطحی سے پلٹنے کی تاریخ معلوم نہیں ہے۔[8]

مشایخ:

        حسن بن علی بن فضال کا ذکر ایک استاد کی حیثیت سے بھی کیا جاتا ہے یہ فضل بن شاذان کے استاد شمار ہوتے ہیں۔ اور کئی مقامات پر حسن بن علی بن فضال سے بہت ساری رویات نقل کی گئی ان روایوں کے نام درج ذیل ہیں:۔

1۔ ابن ابی عمیر

2۔ عمارالساباطی

3۔ علاء بن رزين 

4۔ عبد اللہ بن میمون القداح

5۔ عبد اللہ بن سنان

6۔   ظریف بن ناصح   

7۔ شعیب العقرقومی

8۔  داود الرقی

 9۔   ثعلبہ بن میمون

10۔  اسحاق بن عمار[9]

راویان:

        حسن بن علی بن فضال نے علی ابن موسی الرضا سے بغیر کسی واسطہ کے روایات کو نقل کیا ہے۔ کتب اربعہ میں 297 روایات حسن بن علی بن فضال سے نقل کی گئی ہیں اور بہت سارے رایوں نت حسن بن علی بن فضال سے روایات کو نقل کیا ہے بعض کے نام درج ذیل ہین::

1۔ ابراهيم بن هاشم

2۔ أحمد بن أبي عبد الله البرقي

3۔ أحمد بن محمد بن عيسى

4۔ الحسن بن علي الوشاء

5۔ محمد بن خالد البرقي

6۔ علي بن أسباط

7۔ سهل بن زياد

8۔ معاوية بن حكيم[10]

آثار:

حسن بن علی بن فضال نے بہے ساری تالیفات کی ہیں۔ ان کی کتابیں فقی ، تفسیری اور احادیث کے موضوع پر ہیں۔ شیخ طوسی اپنی کتاب میں ان کی ایک تفسیری کتاب جس کا نام کتاب تفسیر[11] ہے ذکر کرتے ہیں ، نجاشی ان سے کتاب الناسخ و المنسوخ[12] کو منسوب کرتے ہیں اور ابن ندیم کتاب الشواھد من کتاب اللہ و الناسخ و المنسوخ [13]کو ذکر کیا ہے اور ان کی کچھ کتابوںیں درج ذیل ہیں:

1۔ کتاب الصلاۃ  

        2۔ کتاب الفرائض  

3۔ کتاب الزکوة

4۔ کتاب الدیات

5۔ کتاب التفسیر

6۔ کتاب الابتدا و المبتدأ

7۔ کتاب الرجال

8۔ کتاب الطب

9۔ کتاب البشارات

10۔ کتاب الرد علی الغالیة

11۔ الزیارات

12۔ النوادر

13۔ الشواهد من کتاب الله

14۔ المتعة

15۔ الناسخ و المنسوخ

16۔ الملاحم

کتاب اربعہ میں حسن بن علی بن فضال سے روایات:

محمد ابن یعقوب الکلینی، الکافی
کتاب الستبصار ، شیخ طوسی

کتاب اربعہ میں حسن بن علی بن فضال سے بہت سی روایات کو نقل کر دیا:

 درالجزء 4، كتاب الحج 3، باب من يجب عليه الهدي  80[14]

الكافي: ج 2، ك 1، ب 37، ح 11

ج 4، ك 3، ب 131، ح10

ج 6، ك 8، ب 45، ح  3[15]

الكافي: ج 5، ك 3، ب 22، ح  3[16]

الإستبصار: ج 4، ح455[14]  

الإستبصار: ج 2، ح753 [15]       

الإستبصار: ج 1، ح666 [16]


اصحاب علی ابن موسی الرضا:

               شیخ طوسی اپنی کتاب میں 319 علی ابن موسی الرضا کے شاگردان کا ذکر کرتے ہیں ان میں سے ایک حسن بن علی بن فضال ہیں۔[17]

حماد بن عثمان

الحسن بن علی یقطین ، الحسن بن یونس ، الحسن بن ابراھیم کوفی  ، زکریا بن آدم ۔۔۔۔۔۔۔۔

در باب المھزہ 37 نفر ، باب البا 3 نفر ، باب الثا 1 ، باب الجیم 4 نفر ، باب الحا 46 نفر ، باب الخا  نفر ، باب الدال 6 نفر ، باب الرا  نفر ، باب الزا 4 نفر ، باب السین 10 نفر ، باب الشین  نفر ، باب الصاد 5 نفر ، باب الطا  نفر ، باب العین 68 نفر ، باب الفا 3 نفر ، باب القاف 2 نفر ، باب المیم 86 نفر ، باب النون  نفر ، باب الواو 1 نفر ، باب الھا  نفر ، باب الیا 18 نفر ، الکنی 9 نفر

حوالہ جات

ترمیم
  1. حسین علوی مھر۔ آشنائی با تاریخ تفسیر و مفسران (بزبان فارسی)۔ مرکز بین المللی ترجمہ و نشر المصطفی۔ صفحہ: ۱۵۹ 
  2. حسین علوی مھر۔ آشنائی با تاریخ تفسیر و مفسران (بزبان فارسی)۔ مرکز بین المللی ترجمہ و نشر المصطفی۔ صفحہ: ۱۶۰ 
  3. شیخ طوسی۔ الغیبہ (بزبان عربی)۔ صفحہ: ۳۹۰ 
  4. شیخ طوسی۔ الفھرست (بزبان عربی)۔ صفحہ: ۹۷ 
  5. شیخ طوسی۔ رجال طوسی (بزبان عربی)۔ صفحہ: ۳۵۴ 
  6. علی بن احمد نجاشی۔ رجال نجاشی (بزبان عربی)۔ صفحہ: ۳۵ 
  7. الخوئی السید القاسم۔ معجم الرجال الحدیث ، جلد ۲۔ صفحہ: ۸۸ 
  8. محسن الامین۔ اعیان الشیعہ ، جلد ۵۔ صفحہ: ۲۰۸ 
  9. الخوئی السید القاسم۔ معجم الرجال الحدیث ، جلد ۶ (بزبان عربی)۔ صفحہ: ۵۴ 
  10. الخوئی السید القاسم۔ معجم الرجال الحدیث ، جلد ۶ (بزبان عربی)۔ صفحہ: ۵۵ 
  11. شیخ طوسی۔ الفھرست (بزبان عربی)۔ صفحہ: ۴۷ 
  12. علی بن احمد نجاشی۔ رجال نجاشی (بزبان عربی)۔ صفحہ: ۲۶ 
  13. ابن ندیم۔ الفھرست (بزبان عربی)۔ صفحہ: ۲۲۳ 
  14. ^ ا ب الخوئی السید القاسم۔ معجم الرجال الحدیث ، جلد ۶ (بزبان عربی)۔ صفحہ: ۵۷ 
  15. ^ ا ب الخوئی السید القاسم۔ معجم الرجال الحدیث ، جلد ۳ (بزبان عربی)۔ صفحہ: ۳۲۵ 
  16. ^ ا ب الخوئی السید القاسم۔ معجم الرجال الحدیث، جلد ۱۱ (بزبان عربی)۔ صفحہ: ۴۴۷ 
  17. شیخ طوسی۔ رجال الطوسی (بزبان عربی)۔ صفحہ: ۳۵۴