مولانا حسن علی خان پشاوری مجدد الف ثانی کے سجادہ نشین خواجہ محمد معصوم سرہندی کے خلیفہ خاص تھے۔

وطن و مولد

ترمیم

مولانا حسن علی خان پشاوری کا مولد و مسکن پشاور تھا۔

ارادت

ترمیم

حسن علی خان پشاوری خواجہ محمد معصوم (متوفی 1079ھ/1668ء) کے قدیم مریدین اور احباب میں سے تھے۔

بیعت و خلافت

ترمیم

حسن علی خان کو خواجہ محمد معصوم کے دست حق پرست بیعت کا شرف حاصل ہوا۔ خواجہ محمد معصوم اپنے مکتوبات حسن علی خان کے لیے یوں دعا تحریر فرماتے تھے۔ مولانا حسن علی خان احسن اللہ سبحانه حاله وحصل آمله (اللہ سبحانہ مولانا حسن علی خان کے حال کو اچھا رکھے اور اس کی امیدوں کو پورا رکھے۔ پیر و مرشد خواجہ محمد معصوم کی دعا سے آپ کا سلوک باطنی تکمیل کو پہنچا اور آپ کی امیدوں کو کمال نصیب ہوا۔ خواجہ محمد معصوم نے اول آپ کو خلافت بطریق سفارت عطا فرمائی اور بعد ازاں اجازت و خلافت بالاصالت سے سرفراز ہوئے۔ خواجہ محمد معصوم کے صاحبزادے شیخ محمد عبید اللہ (متوفی 1079ھ/ 1668ء) آپ کے صاحب استعداد خلیفہ ہونے کے بارے میں یوں تحریر فرماتے ہیں۔

  • ملاحسن کی اس مرتبہ میں (ہیں) کہ (خواجہ محمد معصوم) خدمت عالیہ سے رخصت ہوئے تو رخصت کے بعد (خواجہ محمد معصوم) فرمایا کہ اس دفعہ یہ (صاحب) اپنا کام مکمل کر کے گئے۔ (خواجہ محمد معصوم) فرماتے تھے کہ میں نے لفظ علم کو ان کی پیشانی میں لکھا ہوا دیکھا ہے۔ یعنی ان کا مبداء یقین علم ہے۔ (خزینت المعارف)

مرشد سے روابط

ترمیم

ملا حسن علی خان کے اپنے پیر و مرشد خواجہ محمد معصوم کے ساتھ بہت اچھے روابط تھے۔ آپ اپنے مرشد کو بڑے عجیب سوالات لکھ کر بھیجتے تھے پھر بھی مرشد کامل خواجہ محمد معصوم اسی قسم کے جوابات لکھ کر تحریر فرماتے تھے۔ خواجہ محمد معصوم نے پندرہ مکتوبات مولانا حسن علی خان کو لکھ کر بھیجے تھے۔ یہ مکتوبات دفتر اول میں بارہ، فتر دوم میں دو اور دفتر سوم میں ایک موجود ہے۔

خلفائے معصومی کے ساتھ روابط

ترمیم

مولانا حسن علی خان کے خواجہ محمد معصوم کے خلفائے عظام کے ساتھ انتہائی گہرے روابط تھے۔ اس وجہ سے آپ کے پیرو مرشد خواجہ محمد معصوم نے بعض مکتوبات شیخ محمد علیم جلال آبادی (متوفی 1092ھ / 1681ء)، ملا نعت اللہ پشاوری، شیخ محمد امین بدخشی اور آپ کو مشرکہ طور پر تحریر فرمائے۔

وصال

ترمیم

مولانا حسن علی خان کا وصال قضائے الہی سے پشاور میں ہوا۔ آپ کی تدفین پشاور میں کی گئی اور یہی آپ کا مزار مرجع خلائق ہے۔ [1]

حوالہ جات

ترمیم
  1. تاریخ و تذکرہ خانقاہ سرھند شریف مولف محمد نذیر رانجھا صفحہ 720 اور 721