سلطان پیر عادل
اس مضمون میں کسی قابل تصدیق ماخذ کا حوالہ درج نہیں ہے۔ |
اصل نام سید سلطان غیاث الدین تھا۔ آپ کی ولادت مشہد میں ہوئی۔ ابتدائی تعلیم مشہد سے حاصل کرنے کے بعد آپ بغداد تشریف لے گئے اور شرف الدین ابو اسحاق شامی کی بیعت کی اور ان سے خرقہ خلافت حاصل کیا۔
اپنے مرشد کی ہدایت پر تبلیغ اسلام کے لیے رخت سفر باندھا اور اپنے خاندان کے ہمراہ ہندوستان کا سفر کیا۔ ایک روایت کے مطابق آپ نے پہلا پڑاؤ حسن ابدال کے قریب کیا۔ پھر آپ جمن شاہ تحصیل و ضلع لیہ میں وارد ہوئے اور لوگوں کو اسلام کی تبلیغ کرنے لگے۔
انہی ایام کے دوران آپ کے فرزند سید علی شاہ المعروف سید سیدن شاہ اپنے دوستوں کے ہمراہ شکار کی غرض سے نکلے۔ تواریخ ڈیرہ غازی خان کے مصنف منشی حکیم چند اس واقعے کے متعلق لکھتے ہیں کہ سید علی شاہ اپنے دوستوں کے ہمراہ جنگل میں شکار کھیلنے گیا اس نے ایک چرواہے سے بکرا مانگا اس نے نہ دیا تو سید علی کے ملازموں نے جبراَ بکرے کو ذبح کر دیا۔ اسی دوران چرواہے نے سید علی پر وار کیا سید علی نے جوابی وار کے کے چرواہے کو مار ڈالا۔ چرواہے کی ماں سید سلطان کے پاس فریاد لے کر گئی۔ سید سلطان نے سید علی کو چرواہے کی والدہ کے سپرد کر دیا اور کہا کہ خون بہا لے کر سید علی کو چھوڑ دو کیونکہ میرا ایک ہی بیٹا ہے۔ اس کو مارنے سے تیرا بیٹا زندہ نہیں ہو جائے گا لیکن وہ نہ مانی اور وارثان نے سید علی کو قتل کر دیا۔ اس وقت سے سید سلطان پیرعادل کے لقب سے مشہور ہوئے۔
اس واقعہ کے متعلق ایک روایت یہ بھی ہے کہ سید علی شاہ دوستوں کے ہمراہ شکار کے لیے جنگل میں گئے اور شکار کھیلتے ہوئے ایک تیر غلطی سے چرواہے کو جا لگا جو جنگل میں اپنی بکریاں چرا رہا تھا اور وہ چرواہا اس تیر کے لگنے کی وجہ سے ہلاک ہو گیا- اس چرواہے کی ماں سید سلطان کے پاس فریاد لے کر آئی۔ آپ نے بہت افسوس کیا اور بڑھیا نہ مانی اور کہا کہ خون کا بدلہ خون ہونا چاہیے۔ سید سلطان نے اپنے اکلوتے لڑکے کو تلاش کرنا شروع کر دیا۔ صاحب زادہ خوف کے مارے ایک درخت کے کھوکھلے تنے چھپ گیا۔ سید سلطان تلاش کرتے ہوئے اس کے درخت کے قریب سے گذرے۔ ناگہاں قمیض کا ایک ٹکڑا درخت کے تنے سے باہر نظر آیا۔ سید سلطان نے لڑکے کو باہر نکال لیا اور اپنے اکلوتے بیٹے کو گڈریے کے خون بہا میں قتل کرا دیا۔
بیان کرتے ہیں کہ سید سلطان نے اپنے بیٹے کی لاش کو صندوق میں بند کیا اور جمن شاہ سے بھی رخت سفر باندھا اور قصبہ بدھان پور (بعض کتب میں بدھان پور کو برھان پور لکھا گیا ہے جو صیحیح نہیں ہے) کے قریب پڑاؤ ڈالا اور سید علی شاہ کو دفن کیا۔ اس کے بعد آپ نے لوگوں میں تبلیغ اسلام کا سلسلہ شروع کر دیا۔ لوگ جوق در جوق آپ کے پاس آنے لگے اور اسلام قبول کرنے لگے۔ اس علاقے کے سردار بدھان کو یہ بات ناگوار گذری جب حضرت پیرعادل نے بدھان کو قبول اسلام کی دعوت دی تو اس نے نہ صرف حق کو ٹھکرا دیا بلکہ آپ کے خلاف جنگ پر آمادہ ہو گیا۔ بالآخر آپ کو بدھان سے جنگ کا سامنا کرنا پڑا جس میں آپ کے تین بھائی شہید ہوئے تاہم بدھان کو شکست فاش ہوئی اور وہ جنگ میں مارا گیا۔ یہ علاقہ جو کبھی بہت سے خداؤں کے ماننے والوں کا گڑھ تھا آپ کی آمد کے بعد اسلام کا مرکز بن گیا۔
میرانی بلوچوں کی تاریخ کے مصنف ارشاد احمد خان عباسی تحریر کرتے ہیں کہ غازی خان دوم کی یہ خواہش تھی کہ کسی مرشد کامل کی بیعت کی جائے، چنانچہ اس نے چاروں اطراف گھڑسوار روانہ کیے اور انھیں ہدایت کی کہ کسی کامل پیرطریقت کا کھوج لگائیں۔ غازی خان دوم گھڑسواروں کے پیچھے ہاتھی سوار بھی روانہ کر دیے اور انھیں حکم دیا جس آستانہ ہر کوئی ہاتھی بیٹھ جائے اس کو فوری طور پر اطلاع دی جائے تاکہ وہ بیعت کے لیے وہاں حاضر ہو۔ بہرحال ایک ہاتھی آستانہ پیرعادل میں جاکر بیٹھ گیا غازی خان دوم کو اس کی اطلاع دی گئی تو وہ اپنے چند ملازموں کے ہمراہ آستانہ پیرعادل آیا۔ جب غازی خان دوم حضرت پیرعادل کے حجرے میں داخل ہوا اور سلام عرض کیا تو دفعتاَ حضرت پیرعادل کا ہاتھ مبارک لحد سے باہر نمودار ہوا اور غازی خان دوم دست بیعت ہوا۔ بیان کرتے ہیں کہ اس واقعے کے بعد بہت عرصہ تک آپ اسی طرح ہاتھ مبارک لحد سے نکال کر لوگوں کو بیعت کرتے رہے۔ بالآخر حضرت سلطان سخی سرور نے آپ کے مزار پر حاضر ہر کر درخواست کی کہ آپ قبر مبارک سے ہاتھ باہر نکال کر بیعت کرنا ختم کریں اور پھر یہ سلسلہ بند ہو گیا۔ آپ کی لحد مبارک میں وہ سوراخ اب تک موجود ہے جہاں سے آپ نے ہاتھ باہر نکالا تھا۔
آپ لاولد فوت ہوئے۔ آپ کا وصال 465ھ میں ہوا جبکہ ایک روایت میں 370ھ بھی آپ کے وصال کا سال بتایا جاتا ہے۔ آپ کا مزار مبارک ڈیرہ غازی خان کے شمال میں تقریباَ ١٥ میل کے فاصلے پر قصبہ پیرعادل میں مرجع خلائق ہے۔ نواب غازی خان دوم نے حضرت پیرعادل کا بہت خوبصورت اور شاندار روضہ تعمیر کرایا اور اس کے ساتھ ہی آپ کے فرزندارجمند سید علی شاہ المعروف سید سیدن شاہ کا بھی پختہ مزار تعمیرکرایا۔
حضرت پیرعادل کے مزار کی تعمیر ٨١٥ھ ماہ رمضان کے آغاز میں شروع ہوئی اور ٨١٩ھ محرم الحرام میں پایہ تکمیل کو پہنچی۔ مزار کی تعمیر کے سلسلہ میں اینٹیں اوردوسرا تعمیراتی سامان کہنہ ڈیرہ غازی خان چھاؤنی سے ہاتھیوں سے اٹھا کر لایا جاتا تھا۔ مقبرہ غازی خان اول اور مقبرہ پیرعادل فن تعمیر کے بہترین شاہکار ہیں اور ان کی طرز تعمیر بھی ایک جیسی ہے۔
نواب غازی خان دوم کو اس کی وصیت کے مطابق دربار حضرت پیرعادل کے قریب دفن کیا گیا۔ یہ قبر آج بھی دربار کے جنوبی دروازے کے باہر موجود ہے اور قبرستان بھی موجود ہے جبکہ مزار کی مشرقی سمت ایک بڑا سا احاطہ ہے جس میں سیمنٹ کا فرش لگا ہوا ہے اور کچھ کچی قبریں بھی موجود ہیں۔
بیرونی روابط
ترمیم- پاکستانیآرکائیو شدہ (Date missing) بذریعہ pakiez.com (Error: unknown archive URL)