حفیظ میرٹھی کلاسیکی اردو شاعری کے نمائندہ مقبول عام شاعر ہیں

نام حفیظ الرحمن اور حفیظؔ تخلص تھا۔

ولادت

ترمیم

10؍جنوری 1922ء کو میرٹھ میں پیدا ہوئے۔

تعلیم

ترمیم

حفیظ میرٹھی نے فیض عام انٹر کالج سے ہائی اسکول کا امتحان پاس کیا۔ ان کے نانا کے انتقال ہوجانے کی وجہ سے ان کا تعلیمی سلسلہ منقطع ہو گیا۔ 1947ء میں انھوں نے پرائیوٹ طور پر ایف اے کا امتحان پاس کیا۔

شاعری

ترمیم

ان کے نانا منشی خادم حسین کو شعروشاعری سے رغبت تھی۔ انھی کی تربیت تھی کہ حفیظ صاحب شاعری میں دل چسپی لینے لگے۔ بعد میں عاصم بریلوی سے مشورہ سخن کرنے لگے۔ حفیظ صاحب نے مختلف ملکوں کے مشاعروں میں شرکت کی۔

مجموعہ کلام

ترمیم
  • شعروشعور
  • متاعِ آخر شب‘۔اس شعری مجموعے پر اترپردیش اردو اکادمی نے انعام دیا
  • کلیاتِ حفیظ میرٹھی‘ بھی شائع ہو گئی ہے۔

نمونہ کلام

ترمیم

ان کی تصانیف کے نام یہ ہیں:

؎چاہے تن من سب جل جائےسوزدروں پر آنچ نہ آئے
؎شیشہ ٹوٹے غل مچ جائےدل ٹوٹے آواز نہ آئے
؎ائے وائے مجبوری انساںکیا سوچے اور کیا ہوجائے
؎مئے خانے کی سمت نہ جاناجانے کون نظر آجائے

[1]

وفات

ترمیم

حفیظ میرٹھی نے 7؍جنوری 2000ء کو میرٹھ میں وفات پائی۔

حوالہ جات

ترمیم
  1. شعر و شعور،حفیظ میرٹھی صفحہ 17مکتبہ دوام ٹانڈہ (فیض آباد )یو پی انڈیا