حفیظ میرٹھی
حفیظ میرٹھی کلاسیکی اردو شاعری کے نمائندہ مقبول عام شاعر ہیں
نام
ترمیمنام حفیظ الرحمن اور حفیظؔ تخلص تھا۔
ولادت
ترمیمتعلیم
ترمیمحفیظ میرٹھی نے فیض عام انٹر کالج سے ہائی اسکول کا امتحان پاس کیا۔ ان کے نانا کے انتقال ہوجانے کی وجہ سے ان کا تعلیمی سلسلہ منقطع ہو گیا۔ 1947ء میں انھوں نے پرائیوٹ طور پر ایف اے کا امتحان پاس کیا۔
شاعری
ترمیمان کے نانا منشی خادم حسین کو شعروشاعری سے رغبت تھی۔ انھی کی تربیت تھی کہ حفیظ صاحب شاعری میں دل چسپی لینے لگے۔ بعد میں عاصم بریلوی سے مشورہ سخن کرنے لگے۔ حفیظ صاحب نے مختلف ملکوں کے مشاعروں میں شرکت کی۔
مجموعہ کلام
ترمیم- شعروشعور
- متاعِ آخر شب‘۔اس شعری مجموعے پر اترپردیش اردو اکادمی نے انعام دیا
- کلیاتِ حفیظ میرٹھی‘ بھی شائع ہو گئی ہے۔
نمونہ کلام
ترمیمان کی تصانیف کے نام یہ ہیں:
؎چاہے تن من سب جل جائے | سوزدروں پر آنچ نہ آئے | |
؎شیشہ ٹوٹے غل مچ جائے | دل ٹوٹے آواز نہ آئے | |
؎ائے وائے مجبوری انساں | کیا سوچے اور کیا ہوجائے | |
؎مئے خانے کی سمت نہ جانا | جانے کون نظر آجائے |
وفات
ترمیمحفیظ میرٹھی نے 7؍جنوری 2000ء کو میرٹھ میں وفات پائی۔
حوالہ جات
ترمیم- ↑ شعر و شعور،حفیظ میرٹھی صفحہ 17مکتبہ دوام ٹانڈہ (فیض آباد )یو پی انڈیا