عرب کے زمانۂ جاہلیت میں امن و امان کے قیام کے لیے کیا جانے والا ایک معاہدہ جس میں آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے بھی شرکت کی تھی جب آپ کی عمر مبارک 20 سال تھی۔[1]

معاہدہ کی شرائط

ترمیم

یہ معاہدہ حرب فجار کے بعد قریش اور بنی قیس کے درمیان ذي القعدة سنہ 590ء میں طے پایا۔ معاہدے میں تمام قبائل نے مل کر عہد کیا کہ:

  1. ہم مظلوموں کا ساتھ دیں گے، خواہ وہ کسی قبیلے کے ہوں یہاں تک کہ ان کا حق ادا کیا جائے۔
  2. ملک میں ہر طرح کا امن و امان قائم کریں گے۔
  3. مسافروں کی حفاظت کریں گے۔
  4. غریبوں کی امداد کرتے رہیں گے۔
  5. کسی ظالم یا غاصب کو مکہ میں نہیں رہنے دیں گے۔

قابل فخر معاہدہ

ترمیم

محمدصلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے اس معاہدے میں شرکت کی کیونکہ یہ امن و امان کا معاہدہ تھا۔ اس لیے آپ اس کو بہت پسند فرماتے تھے۔ آپ کے نزدیک اس معاہدے کی اتنی اہمیت تھی کہ زمانۂ رسالت میں بھی اس کا تذکرہ کرتے ہوئے فخر محسوس کرتے کہ اس معاہدے کے مقابلے میں مجھ کو سرخ رنگ کے اونٹ بھی دیے جاتے تو میں نہ لیتا اور اگر اب بھی شرکت کے لیے بلایا جائے تو میں اسے قبول کروں گا۔ اس سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو امن و امان کس قدر پسند تھا جبکہ وہ قبائلی دور تھا۔

وجہ تسمیہ

ترمیم

اس تاریخی معاہدہ کو حلف الفضول اس لیے کہتے ہیں کہ قریش کے اس معاہدہ سے بہت پہلے مکہ میں قبیلہ جرہم کے سرداروں کے درمیان بھی بالکل ایسا ہی ایک معاہدہ ہوا تھا۔ اور چونکہ قبیلۂ جرہم کے وہ لوگ جو اس معاہدہ کے محرک تھے ان سب لوگوں کا نام فضل تھا یعنی

  • فضل بن حارث
  • فضل بن وداعہ
  • فضل بن فضالہ اس لیے اس معاہدہ کا نام حلف الفضول رکھ دیا گیا،یعنی ان چند آدمیوں کا معاہدہ جن کے نام فضل تھے۔[2])

معاہدہ حلف الفضول عبد اللہ بن جدعان التيمي القرشي کے گھر پر ہوا تھا جوقریش کے سردار تھے اور اس کا مقصد اتحاد و میل ملاپ کی فضا پیدا کرنا تھا۔

مزید دیکھیے

ترمیم

حوالہ جات

ترمیم
  1. البداية والنهاية - ج 2 ص 355
  2. سیرت ابن ہشام ج1 ص134