حیدر علی فیض آبادی
مولانا حیدر علی فیض آبادی تیرہویں صدی کے زبردست متکلم، مناظر،مفسراور مصنف ہیں۔ حیدر علی سراج الہند شاہ عبد العزیز محدث دہلوی کے شاگرد، علامہ فضل حق خیرآبادی کے معاصر اور مخلص دوست، شیعوں اور روافض کے رد میں سب سے زیادہ لکھنے والے ہندوستانی مصنف، مسئلہ امتناع نظیر، امکان کذب اور دیگر نزاعی مسائل میں اعلان حق کرنے والے مرد مجاہد اور 27؍ جلدوں پر مشتمل تفسیر قرآن کے مصنف ہیں۔ آپ کی بے شمار تصانیف 1857ء کے ہنگامے میں تلف ہوگئیں، باقی ماندہ تصانیف میں سے آج صرف 5؍ کتابیں ہماری دسترس میں ہیں، آپ کو یہ پڑھ کر حیرت ہوگی کہ ان 5؍ کتابوں کے صفحات کی مجموعی تعداد کم وبیش چھ ہزار ( 6000) ہے۔
نام
ترمیمحیدر علی فیض آبادی بن محمد حسن بن محمد ذاکر بن عبد القادر دہلوی ثم فیض آبادی
ولادت
ترمیمحیدر علی فیض آبادی کی ولادت اودھ کے شہر فیض آباد میں ہوئی، ایک اندازے کے مطابق آپ کی ولادت تیرہویں صدی کی دوسری یا تیسری دہائی میں ہوئی ۔
تعلیم و تربیت
ترمیمحیدر علی فیض آبادی کی ابتدائی تعلیم لکھنؤ شیعہ علما کی درس گاہوں میں ہوئی، آپ کے اساتذہ میں مرزا فتح علی، سید نجف علی اور حکیم میر نواب کے نام ملتے ہیں، یہ تینوں حضرات شیعہ تھے، ان علما سے علم حاصل کرنے کے بعد آپ اعلیٰ تعلیم وتکمیل کے لیے شاہ جہاں آباد (دہلی) کے لیے عازم سفر ہوئے، یہ وہ زمانہ تھا کہ سراج الہند شاہ عبدالعزیز محدث دہلوی کا آفتاب درس وتدریس ایک عالم کو منور کر رہا تھا، دہلی میں مولانا فیض آبادی نے مولانا رشید الدین خاں دہلوی اور مولانا شاہ رفیع الدین دہلوی سے تحصیل علم کی، ان دونوں حضرات کے علاوہ حضرت شاہ عبد العزیز محدث دہلوی سے بھی استفادہ کیااور ایک مدت تک ان کی درسگاہ فیض میں حاضر رہے۔[1] مولانا حیدر علی فیض آبادی کی ایک کتاب ’’ ازالۃ الغین عن بصارۃ العین ‘‘ کے خاتمۃ الطبع میں آپ کے کچھ حالات درج کیے گئے ہیں، جامع حالات لکھتے ہیں: بلا واسطہ فیض صحبت علامہ ٔ دہلوی حضرت حجت بریہ صاحب تحفہ اثنا عشریہ نوراللہ مرقدہ مدتہا یافتہ وامروز کسے از مستفیدانش بلا واسطہ باقی نماندہ ترجمہ:ایک زمانے تک بلا واسطہ علامہ ٔ دہلوی حجت ِ بریہ صاحب ِ تحفہ اثنا عشریہ( شاہ عبد العزیز ) کی صحبت کافیض اٹھایا،آج ( 1295ھ / 1878ء میں ) شاہ صاحب سے بلا واسطہ استفادہ کرنے والاکوئی اور باقی نہیں ہے ۔ دہلی کے بعد مولانا نے کچھ عرصہ لکھنؤ میں قیام کیا،وہاں سے بھوپال تشریف لے گئے ،اور آخر میں ریاست حیدرآباد میں قیام کیا، وہاں نواب مختار الملک نے عدالت و قضا کی ذمہ داریاں تفویض کیں،پھر آخر عمر تک حیدرآباد ہی میں قیام رہا ،
وفات
ترمیمحیدرآباد میں1299ھ/82-1881ء میں وفات ہوئی اور حیدرآباد ہی میں دفن کیے گئے۔[2]
تصانیف
ترمیم- مولانا فیض آبادی کا خاص میدان علم کلام وعقائد تھا،لہٰذا آپ کی تصانیف زیادہ تر اسی فن سے متعلق ہیں بالخصوص فرقہ شیعہ امامیہ کے ردو ابطال میں کوئی آپ کا ہم سر نظر نہیں آتا۔ رد شیعہ میں آپ کی قلمی خدمات کے علاوہ آپ کا ایک اہم کارنامہ اپنے استاذ شاہ عبد العزیز محدث دہلوی کی ناتمام تفسیر قرآن ’’ تفسیر عزیزی‘‘ یا ’’ فتح العزیز ‘‘کا تکملہ ہے ،یہ تکملہ آپ نے 27؍ جلدوں میں مکمل کیا۔ مگر افسوس آپ کی اکثر تصانیف ہنگامہ ٔ 1857ء میں ضائع ہوگئیں،
- منتہی الکلام:یہ مولانا فیض آبادی کی ایسی معرکہ آرا کتاب ہے کہ یہی آپ کی شناخت کا حوالہ بن گئی ،معاصر کتابوں میں جہاں بھی آپ کا نام آتا ہے وہا ں نام کے ساتھ ’’ مصنف منتہی الکلام ‘‘ یا ’’ صاحب ِ منتہی الکلام ‘‘ بھی لکھا ہوتا ہے ،اس کتاب کا ایک نام ’’ تنبیہ اہل الخوض لاعتراضہم علی حدیث الحوض ‘‘ بھی ہے ،یہ کتاب ایک شیعی عالم سبحان علی کی ایک کتاب کے رد میں 1250ھ میں تصنیف کی گئی، ازالۃ الغین کے خاتمۃ الطبع سے اشارہ ملتا ہے کہ یہ کتاب دو جلدوں میں تھی، یہ دونوں جلدیں انقلاب 1857ء سے قبل دہلی میں شایع ہوئی تھیں، کتب خانۂ قادریہ، بدایوں میں اس کی ایک جلد محفوظ ہے، یہ جلدبڑے سائز پر 815 ( آٹھ سو پندرہ )صفحات پر مشتمل ہے، یہ ربیع الاول 1282ھ میں مطبع ناصری لکھنؤسے شائع ہوئی ہے۔
- ازالۃ الغین عن بصارۃ العین: یہ کتاب بھی رد شیعہ میں ہے ،زبان فارسی ہے،یہ تین ضخیم جلدوں میں تھی، کتب خانۂ قادریہ، بدایوں میں صرف جلد ثانی موجود ہے،یہ جلد جہازی سائز کے 1286( بارہ سو چھیاسی )صفحات پر مشتمل ہے،اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ جلد اول اور سوم بھی ہزار صفحات سے کیا کم ہوں گی۔ یہ نسخہ جمادی الاولیٰ 1295ھ /1878ء میں مطبع ثمر ہند لکھنؤ سے شائع ہوا ہے ۔
- الداہیۃ الحاطمۃ:’’منتہی الکلام‘‘ کے جواب میں کسی شیعہ عالم نے ’’ استقصاء الافحام ‘‘ نامی کتاب تصنیف کی، اس کے جواب میں مولانا فیض آبادی نے یہ کتاب لکھی، اس کتاب کے دونام ہیں،ایک ’’ استیعاب الکلام ‘‘ ہے،دوسرا نام’’ الداہیۃ الحاطمۃ علی من اخرج من اہل البیت فاطمۃ ‘‘ہے،’’ استقصاء الافحام ‘‘ میں غالباً مصنف نے یہ بحث چھیڑی تھی کہ کسی نبی کے اہل بیت صرف اس کے اوصیا ہوتے ہیں، اس اعتبار سے خاتون جنت سیدہ فاطمہ عنہا اہل بیت میں سے نہیں ہیں، ہاں مجازاً انھیں اہل بیت کہا جا سکتا ہے کیونکہ وہ ان اوصیا کے وجود کا سبب اور وسیلہ ہیں،مولانا فیض آبادی نے اس نظریے کا رد فرمایا ہے، کتاب کے نام میں اسی مسئلے کی طرف اشارہ ہے۔ یہ کتاب مصنف کے صاحبزادے مولانا ابو الاسلام محمد اسحاق نے شایع کرانے کا ارادہ کیا تھا، دوران میں طباعت ان کی وفات ہو گئی، پھر ان کے صاحبزادے اور مصنف کے پوتے مولوی محمدسلمان نے اس کوپایہ تکمیل تک پہنچایا ،یہ کتاب ظفر پریس حیدرآباد سے شائع ہوئی، یہ نسخہ کتب خانہ ٔ قادریہ، بدایوں میں موجود ہے،متوسط تقطیع کے 530؍ صفحات پر مشتمل ہے ۔
- صاعقہ ٔحسامیہ:اس کتاب کا پورا نام’’ صاعقہ ٔحسامیہ علی عدوِّ ملت ِاسلامیہ‘‘ ہے، یہ کسی شیعہ کی کتاب ’’ ضربت حیدری ‘‘ کے رد میں نصیر الدین حیدر کے زمانے میں بمقام لکھنؤ تالیف کی گئی ،یہ ’’ چند مجلدات ‘‘ پر مشتمل ہے
- صولت حیدریہ علی المجوس القدریۃ : اس کے بارے میں بھی اس سے زیادہ اور کچھ معلوم نہیں کہ یہ بھی کسی شیعہ مجتہد کے ایک رسالے کے جواب میں تصنیف کی گئی ،ازالۃ الغین کے خاتمۃ الطبع میں لکھاہے کہ ’’ در مجلدے ضخیم تالیف فرمود‘‘
- نقض الرماح فی کبد النباح:اس کے بارے میں صرف اتنا ہی تذکرہ ملتا ہے کہ یہ ایک شیعہ مجتہد کی کسی کتاب کی تردید میں ’’ دو ضخیم جلد ‘‘ میں تالیف کی گئی،اور عن قریب ( یعنی 1295ھ میں) شائع ہونے والی ہے
- ثبات الخرافۃ:اس کے بارے میں اس سے زیادہ کچھ معلوم نہیں ہو سکا کہ یہ ’’ ثمرۃ الخلافۃ‘‘ نامی کسی شیعہ کی کتاب کے رد میں لکھی گئی تھی ۔
- رسالۃ المکاتیب لرویۃ الثعالب والغرابیب:مؤ لف تذکرہ علمائے ہند اور صاحب ِ نزہۃ الخواطر نے اس کتاب کا نام ’’ رویۃ الثعالیب والغرابیب فی انشاء المکاتیب ‘‘ لکھا ہے، اس کے دو قلمی نسخے ہمارے علم میں ہیں، ایک رضا لائبریری رامپور میں دوسرا عربی فارسی انسٹی ٹیوٹ ( ٹونک راجستھان ) کے کتب خانے میں ہے
مولانا کی ان تصانیف کے علاوہ چند کتابوں کے صرف نام مذکور ہیں مثلاً :
- مناسک حیدریہ مشہور بہ انوار بدریہ، اردو ( خاتمۃ الطبع ازالۃ الغین )
- نضارۃ العینین عن شہادۃ الحسنین ( نزہۃ الخواطر،و تذکرہ علمائے ہند )
- کاشف اللثام عن تدلیس المجتہد القمقام ( نزہۃ الخواطر،وتذکرہ علمائے ہند )
- رسالہ در اثبات زواج حضرت عمر بن خطاب مع سیدہ کلثوم بنت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہم ( نزہۃ الخواطر، و تذکرہ علمائے ہند )
- رسالہ در بیعت مرتضوی ( تذکرہ علمائے ہند )[3]