حیلہ شرعی حرام و گناہ سے بچنے، معصیت کا دروازہ بند کرنے اور شریعت کے دائرہ میں رہتے ہوئے حلال کو طلب کرنے والے کسی کام کو حیلہ کہتے ہیں۔

لغت میں حیلہ کا معنی یہ ہیں کہ مطلب کو تدبیر سے حاصل کرنا

لسان العرب جلد 3 /100

تدبیر اور مطلوب کبھی دونوں اچھے ہوتے ہیں اور ان کے برتنے میں شرعا کوئی ممانعت نہیں ہوتی اور کبھی دونوں یا مقصد برا ہو تو اس کے لیے ضرور ممانعت یے اچھا مقصد اور اس کے لیے اچھی تدبیر قرآن سے ثابت ہے  

قرآن مقدس میں ہے کہ حضرت ایوب علیہ السلام نے کسی بات پر اپنی بیوی کو سو کوڑے مارنے کی قسم کھائی  

تو اللہ تبارک و تعالی نے ان دونوں کی آسانی کے لیے انھیں حکم دیا

*" وخذ بيدك ضغثا فاضرب به ولا تحنث "*

یعنی تم اپنے ہاتھ میں تیلیوں کا ایک گچھا لو جس میں سو تیلیاں ہوں اسی سے اپنی بیوی کو مارو اس حیلہ سے تمھاری قسم بھی پوری ہو جائے گی اور تمھاری بیوی کو بھی تکلیف نہ ہوگی

حدیث شریف میں ہے

*" دخل رسول الله صلى الله عليه وسلم بيته والبرمة تفور بلحم فقرب اليه خبزو آدم من ادام البيت فقال الم اربرمة فيه لحم قالوا بلى ولكن ذالك لحم تصدق به وانت لا تاكل الصدقة فقال هو عليها صدقة ولنا هدية "*

*( مشكواة المصابيح شريف كتاب الزكاة ج ١/ ص ٣٣٨ )*

حضور صلی اللہ تعالی علیہ وسلم ایک بار گھر میں داخل ہوئے تو دیکھا کہ چولھا پر گوشت کی ہنڈیا جوش مار رہی ہے گھر کے لوگوں نے روٹی اور کوئی دوسرا سالن حضور کی خدمت میں پیش کیا آپ نے فر مایا کیا میں گوشت کی ہنڈیا کھولتی نہیں دیکھ رہا ہوں گھر والوں نے کہا حضور وہ ہماری کنیز بریرہ کو کسی نے صدقہ کا گوشت دیاتھا اور آپ صدقہ نہیں کھاتے آپ نے فر مایا ہاں وہ صدقہ کا گوشت ضرور تھا لیکن بریرہ جو صدقہ لینے کی اہل ہے جب اس نے قبول کر لیا اور وہ اپنی طرف سے ہم کو دے گی وہ ہمارے لیے ہدیہ ہو گا

اس حدیث شریف سے ائمہ اعلام علمائے کرام نے یہ قاعدہ ثابت کیا کہ قبضہ بدل جانے سے مال کا حکم بدل جاتا ہے صدقہ کا گوشت جب تک بریرہ کے قبضے میں نہیں آیا تھا اس کا حکم یہی تھا کہ وہ صدقہ کا مال ہے اور جب بریرہ نے وصول کر لیا تو اب وہ اس کی مالک بن گئیں اور جب مالک ہوگئیں تو وہ اپنی طرف سے جس کو بطور تحفہ دیں لینا بھی جائز اور کھانا بھی جائز اگر چہ مالدار ہی کیوں نہ ہو

یہی وہ حیلہ ہے جسے مدرسے کے ذمہ دار بمجبوری کرتے ہیں مجبوری یہ ہے کہ پہلے وقتوں میں اسلامی حکومتیں تھیں جو اپنی طرف سے مدرسوں کا انتظام کرتیں اور ان کے اخراجات کے لیے اوقاف قائم کرتیں جن کی آمدنی سے طلبہ اور مدرسین اور ادارے کا پورا عملہ فائدہ اٹھاتا اور عوام بھی دینی ہمدردی کی بنا پر طلبہ و مدرسین کی کفالت کرتے تھے،

اب نہ حکومتیں رہیں اور نہ رؤسا رہے نہ گذشتہ دنوں کے مخلص علمائے کرام رہے اور اسلام اور مسلمانوں کو باقی رکھنے کے لیے دینی تعلیم کا سلسلہ قائم رکھنا ضروری تھا اس مجبوری کے تحت علمائے اسلام نے زکوٰۃ کے بیان میں نہایت ہی دیانتداری سے یہ مسئلہ واضح کر دیا کہ زکوٰۃ، زکوٰۃ کے حقدار کو دیا جائے اور وہ خود اپنی مرضی سے جس جائز مصرف میں خرچ کرنا چاہے تو خرچ کرنا جائز ہے اسی کا نام حیلہ شرعی ہے جس کی اصل قرآن و حدیث دونوں میں موجود ہے

*( بحوالہ فتاوی بحر العلوم جلد دوم ص 184 /45 )*

حیلہ شرعی گناہ اور حرام سے بچنے، معصیت کا دروازہ بند کرنے اور شریعت کے دائرہ میں رہتے ہوئے حلال کو طلب کرنے والے کسی کام کو حیلہ کہتے ہیں۔

حیلہ کے معنی ترمیم

حیلہ کے اصل معنی " مہارت تدبیر " کے ہیں ۔

اصطلاحی معنی ترمیم

فقہا کی اصطلاح میں حیلہ حرمت و معصیت سے بچنے کے لیے ایسی خلاصی کی راہ اختیار کرنے کا نام ہے جس کی شریعت نے اجازت دی ہو۔[1] اسی لیے بعض لوگوں نے حرام سے بھاگنے کو حیلہ قرار دیا ہے : انما ھو الھرب من الحرام [2] غرض کہ حیلہ حرام سے بچنے کا نام ہے نہ کہ حرام کا ارتکاب کرنے اور دوسروں کو اور اپنے آپ کو دھوکا دینے کا۔

جائز حیلے ترمیم

امام سرخسی نے حیلہ کی جائز اور ناجائز صورت پر گفتگو کرتے ہوئے خلاصہ بحث یوں لکھا ہے ’’ حاصل یہ ہے کہ وہ حیلہ جس کے ذریعہ انسان حرام سے خلاصی یا حلال تک رسائی کا خواہاں ہو بہتر ہے، ہاں کسی کے حق کا ابطال یا باطل کی ملمع سازی مقصود ہو تو ناپسندیدہ ہے۔ غرض حیلہ کی یہ راہ ناجائز اور پہلے ذکر کی گئی صورت جائز ہے۔ ‘‘ [3]

حیلہ کی ضرورت ترمیم

حکمِ شرعی کو باطل کرنے کے لیے حیلہ کرنا حرام ہے البتہ حکمِ شرعی کو کسی دوسرے شرعی طریقے سے حاصل کرنے کے لیے حیلہ کرنا جائز ہے جیسا کہ قرآنِ پاک میں حضرت ایوب علیہ السلام کاعمل جوسورۂ ص آیت44میں مذکور ہے۔ زندگی میں بہت سے معاملات پیش آتے ہیں جہاں حیلہ کی ضرورت ہوتی ہے مثلا کوئی عورت کسی مرد سے نکاح کا دعوی کرتی ہو ہو اور مرد انکار کرتا ہو، ثبوت فراہم نہ ہو تو اب یہ وقت ہے کہ چونکہ مرد اس سے نکاح کا منکر ہے اس لیے اس سے طلاق دلوائی نہیں جا سکتی اور عورت نکاح کی پابند ہے، اس لیے دوسرا نکاح نہیں کرسکتی۔ ایسی صورت میں یہ حیلہ بتایا گیا ہے کہ مرد سے کہلایا جائے کہ اگر میں نے اس سے نکاح کیا ہے تو اس پر طلاق واقع ہو تاکہ عورت کے لیے دوسرے نکاح کا راستہ نکل آئے۔[4]

حرام حیلہ ترمیم

انسان حیلہ کی آڑ میں حرام اور معصیت کا ارتکاب کرنے لگے اور ظلم وعدوان پر اسلام کا غلاف چڑھانے کی کوشش کرے تو یہ قطعا حرام اور معصیت ہے جیسے قرآن مجید نے بنی اسرائیل کے ایک طبقہ پر خاص اسی وجہ سے عذاب خداوندی کے نازل ہونے کا ذکر کیا ہے کہ وہ حدود اللہ کو توڑتے ہوئے ہفتہ کے دن بھی شکار کیا کرتے تھے حالانکہ اللہ تعالیٰ نے ان کو اس سے منع کر دیا تھا اور اس حرام کے ارتکاب کے لیے ایک خاص طرح کا حیلہ اختیار کرتے تھے۔[5] ابو ہریرہ سے روایت ہے، سرکارِ دوعالم نے ارشاد فرمایا: جیسا یہودیوں نے کیا تم ا س طرح نہ کرنا کہ تم اللہ تعالیٰ کی حرام کردہ چیزوں کو طرح طرح کے حیلے کر کے حلال سمجھنے لگو ۔[6]

انتباہ ترمیم

اس سے متعل قعلمان نے بہت ساری احیتاطیں بھی بطور انتباہ ذکر کی ہیں، حیلہ کو عوام اور بالخصوص علما کے لیے بڑا نازک اور پر خطر قراد یا گیا اور بغیر ضرورت شدیدہ کے کبھی اس سے رجوع کرنے کا نہیں کہا گیا اور یہ بھی کہا گیا کہ حیلہ کا مقصد سلف صالحین کے نزدیک حرام سے بچنا ہے نہ کہ اس کو حلال وطیب بنانا۔[7]

حوالہ جات ترمیم

  1. المبسوط 210/30
  2. الاشباہ لابن نجیم ص 406
  3. المبسوط 30؍ 210
  4. الاشباہ والنظائر لابن نجیم ص407
  5. الاشباہ والنظائر لابن نجیم ص: 409
  6. درمنثور، الاعراف، تحت الآیۃ: 163،
  7. حلال و حرام -ص 47 تا 49، مؤلف، خالد سیف اللہ رحمانی- ناشر : زمزم پبلشرز اردو بازار کراچی پاکستان