خادم حسین جاڑا
تعارف
ترمیممولانا خادم حسین جاڑا اعلی اللہ مقامہ متقی اور متدین انسان تھے، دینی تعلیم کا حصول ان کا شوق و شغف تھا اور صدقہ جاریہ کے امور میں پیش قدمی آپ کی اولین ترجیح تھی۔
ولادت
ترمیمآپ کی ولادت جاڑا ضلع ڈیرہ اسماعیل خان میں ہوئی، آپ کے والد بزرگوار کا نام جان محمد جاڑا تھا۔[1]
تحصیل علم
ترمیمآپ نے دنیاوی علم کی تحصیل کے بعد دینی علوم کے حصول کے لیے قبلہ علامہ محمد باقر چکڑالوی اعلیٰ اللہ مقامہ اور مولانا سید طالب حسین شاہ چکڑالوی اعلیٰ اللہ مقامہ کے سامنے زانوئے تلمذ تہ کیا۔[1]
علامہ حسین بخش جاڑا سے رشتہ
ترمیمآپ علامہ حسین بخش جاڑا اعلیٰ اللہ مقامہ کے سگے چچا زاد تھے اور جاڑا صاحب نے ہی دینیات کا علم کسب کرنے کی ترغیب دلائی اور اپنے استاد بزرگوار علامہ سید محمد باقر چکڑالوی اعلیٰ اللہ مقامہ کی خدمت میں لے گئے۔ ابتدا میں مولانا صاحب آمادہ نہ تھے لیکن استاد بزرگوار علامہ چکڑالوی صاحب کے زہد و تقوی اور تقدس کا رنگ ان پر ایسا غالب آیا کہ چند دنوں میں ہی ان کی کایا پلٹ گئی اور استاد بزرگوار علامہ چکڑالوی صاحب ان کے ذہنی انقلاب سے اس قدر متاثر ہوئے کہ ان کو اپنے حقیقی بیٹوں کی طرح سمجھنے لگے حتا کہ استاد بزرگوار جہاں کا سفر کرتے یہ ان کے ساتھ رہتے، آخری سفر زیارت میں استاد بزرگوار کی خدمت کا شرف ان کو حاصل تھا اور آپ نے استاد بزرگوار کی ایسی خدمت کی جس طرح ایک لائق شاگرد کو استاد کی کرنی چاہیے۔[1]
آثار یادگار
ترمیمصدقہ جاریہ کے لیے آپ نے اپنے وطن میں جامع مسجد کے لیے وضو خانہ کا پختہ برآمدہ اور عزاداری سید الشہداء ع کے لیے امام بارگاہ کی تعمیر کی۔[1]
وفات
ترمیمسفر زیارت سے واپسی پر آپ بیمار ہوئے اور ایک سال بستر علالت پر رہنے کے بعد عالم شباب میں 2 جنوری 1950 کو داعی اجل کو لبیک کہا۔[1] التماس فاتحہ
اولاد
ترمیمآپ نے ایک بیٹا غلام رضا جاڑا مرحوم اور ایک بیٹی چھوڑی، علامہ کاظم حسین اثیر جاڑوی شہید آپ کے داماد ہیں۔[1]