"توہین رسالت قانون (معترضین کے دلائل)" کے نسخوں کے درمیان فرق

حذف شدہ مندرجات اضافہ شدہ مندرجات
13 مآخذ کو بحال کرکے 0 پر مردہ ربط کا ٹیگ لگایا گیا) #IABot (v2.0.7
12 مآخذ کو بحال کرکے 0 پر مردہ ربط کا ٹیگ لگایا گیا) #IABot (v2.0.7
سطر 18:
 
== جناب ابو ہریرہ کی والدہ کا توہین رسالت کا واقعہ ==
معترضین حضرات کی طرف سے یہ واقعہ بطور دلیل<ref>{{Cite web |url=http://mqmpakistani.org/index.php?option=com_content&view=article&id=328%3A%D9%85%D9%8F%D9%84%D8%A7-%DA%A9%D8%A7-%D8%AA%D9%88%DB%81%DB%8C%D9%86-%D8%B1%D8%B3%D8%A7%D9%84%D8%AA-%D8%A2%D8%B1%DA%88%DB%8C%D9%86%D9%86%D8%B3-%D8%B4%D8%B1%DB%8C%D8%B9%D8%AA-%DA%A9%DB%92-%D9%85%D8%B7%D8%A7%D8%A8%D9%82-%D9%86%DB%81%DB%8C%DA%BA&catid=88%3A2009-09-04-09-33-41 |title=آرکائیو کاپی |access-date=2012-09-10 |archive-date=2012-09-10 |archive-url=https://web.archive.org/web/20120910201205/http://mqmpakistani.org/index.php?option=com_content&view=article&id=328%3A%D9%85%D9%8F%D9%84%D8%A7-%DA%A9%D8%A7-%D8%AA%D9%88%DB%81%DB%8C%D9%86-%D8%B1%D8%B3%D8%A7%D9%84%D8%AA-%D8%A2%D8%B1%DA%88%DB%8C%D9%86%D9%86%D8%B3-%D8%B4%D8%B1%DB%8C%D8%B9%D8%AA-%DA%A9%DB%92-%D9%85%D8%B7%D8%A7%D8%A8%D9%82-%D9%86%DB%81%DB%8C%DA%BA&catid=88%3A2009-09-04-09-33-41 |url-status=livedead }}</ref> پیش کیا جاتا ہے کہ جب حضرت ابو ہریرہ کی والدہ نے جب محمد {{صہ}} کی شان میں گستاخانہ کلمات کہے تو اس پر حضرت ابو ہریرہ نے انہیں قتل نہیں کیا اور نہ ہی محمد {{صہ}} نے اس کا پتا چلنے پر انہیں قتل کرنے کا حکم دیا۔ بلکہ محمد {{صہ}} نے ان کی والدہ کے لیے ہدایت کی اللہ سے دعا فرمائی۔
{{اقتباس|صحیح مسلم، کتاب فضائل الصحابہ<ref>http://www.islamweb.net/newlibrary/display_book.php?idfrom=4618&idto=4621&bk_no=1&ID=1159</ref>:
حضرت ابو ہریرہ کہتے ہیں کہ میں اپنی والدہ کو جو مشرکہ تھیں قبول اسلام کی تلقین کیا کرتا تھا ، چنانچہ ایک دن میں نے ان کو ( معمول کے مطابق ) اسلام قبول کرنے کی تلقین کی '''تو انہوں نے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی شان اقدس کے متعلق ايك ايسى بات كہی جو مجھے ناگوار گزری بلکہ میں تو اب بھی اس کو نقل کرنے کوگوارا نہیں کرتا۔ میں ( اس بات سے مغموم اور رنجیدہ ہو کر کہ انہوں نے میرے سامنےایسے الفاظ زبان سے نکالے ہیں اور ماں ہونے کی ودہ سے میں ان کی تادیب بھی نہیں کر سکتا ) روتا ہوا رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضرہوا اور عرض کیا کہ یار سول اللہ ! اب تو آپ ہی اللہ سے دعا فرما دیجئے کہ ابو ہریرہ کی ماں کو ہدایت عطا فرمائے ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دعا فرمائی ۔ اے اللہ ! ابو ہریرہ کی ماں کو ہدایت عطا فرما !''' میں محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی دعاسے بڑی خوش آیند امید لے کر ( بارگاہ نبوت سے ) واپس لوٹا اور جب اپنی والدہ کے گھر کے دروازہ پر پہنچا تو دیکھا کہ دروازہ بند ہے ، لیکن میری والدہ نے میرے قدموں کی آواز سن لی تھی انہوں نے ، ( اندر سے آواز دے کر کہا کہ ابو ہریرہ ! وہیں ٹھہرو ( یعنی ابھی گھر میں نہ آؤ ) پھر میں نے پانی گر نے کی آواز سنی میری والدہ نے غسل کیا ، کپڑا پہنا اور مارے جلدی کے دوپٹہ اوڑھے بغیر دروازہ کھول دیا اور ( مجھے دیکھ کر ) کہا ، میں گواہی دیتی ہوں کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں اور گواہی دیتی ہوں کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم اللہ کے بندے اور اس کے رسول ہیں ۔ میں یہ دیکھتے ہی کہ میری پیاری ماں کو ہدایت مل گئی اور انہوں نے اسلام قبول کر لیا ، الٹے پاؤں لوٹا اور خوشی کے آنسو گراتا ہوا رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے خدمت میں حاضر ہوا ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اللہ کی تعریف کی اور میری والدہ کے اسلام پر شکر ادا کیا اور اچھا فرمایا ۔}}
سطر 30:
== طائف کا واقعہ ==
 
معترضین حضرات<ref>{{Cite web |url=http://mqmpakistani.org/index.php?option=com_content&view=article&id=328%3A%D9%85%D9%8F%D9%84%D8%A7-%DA%A9%D8%A7-%D8%AA%D9%88%DB%81%DB%8C%D9%86-%D8%B1%D8%B3%D8%A7%D9%84%D8%AA-%D8%A2%D8%B1%DA%88%DB%8C%D9%86%D9%86%D8%B3-%D8%B4%D8%B1%DB%8C%D8%B9%D8%AA-%DA%A9%DB%92-%D9%85%D8%B7%D8%A7%D8%A8%D9%82-%D9%86%DB%81%DB%8C%DA%BA&catid=88%3A2009-09-04-09-33-41 |title=آرکائیو کاپی |access-date=2012-09-10 |archive-date=2012-09-10 |archive-url=https://web.archive.org/web/20120910201205/http://mqmpakistani.org/index.php?option=com_content&view=article&id=328%3A%D9%85%D9%8F%D9%84%D8%A7-%DA%A9%D8%A7-%D8%AA%D9%88%DB%81%DB%8C%D9%86-%D8%B1%D8%B3%D8%A7%D9%84%D8%AA-%D8%A2%D8%B1%DA%88%DB%8C%D9%86%D9%86%D8%B3-%D8%B4%D8%B1%DB%8C%D8%B9%D8%AA-%DA%A9%DB%92-%D9%85%D8%B7%D8%A7%D8%A8%D9%82-%D9%86%DB%81%DB%8C%DA%BA&catid=88%3A2009-09-04-09-33-41 |url-status=livedead }}</ref> کی طرف سے طائف کا واقعہ بھی بطور دلیل پیش کیا جاتا ہے۔ بوڑھی عورت والے واقعہ پر ایک اعتراض یہ ہوتا ہے کہ اُس وقت اسلام مکمل طور پر غالب نہ تھا اس لیے بوڑھی عورت کو قتل نہیں کیا گیا۔ مگر طائف کا یہ واقعہ اس کی تردید کر رہا ہے۔ طائف میں محمد {{صہ}} مغلوب نہ تھے بلکہ جبرئیل ان کی مدد کے لیے آ گئے تھے اور آپ {{صہ}} سے اجازت طلب کرتے تھے کہ ایک دفعہ اجازت دیجئے تو ان اہل طائف پر عذاب الہی نازل فرمایا جائے۔ مگر محمد {{صہ}} نے اہل طائف کا مارا جانا پسند نہ کیا اور مسلسل اللہ سے ان کی ہدایت کی دعا کرتے رہے۔
{{اقتباس|صحیح بخاری، کتاب بدء الخلق<ref>http://sunnah.com/bukhari/59/42</ref>:
حضرت عائشہ سے روایت ہے کہ انہوں نے ایک (دن ) عرض کیا یا محمد صلی اللہ علیہ وسلم کیا احد کے دن سے بھی زیادہ سخت کوئی دن آپ صلی اللہ علیہ وسلم پرگذرا ہے ؟ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے (حضرت عائشہ کا یہ سوال سن کر)فرمایا :تمہاری ا س قوم کی طرف سے جو صورت حال پیش آئی تھی وہ احد کے دن سے کہیں زیادہ مجھ پر سخت تھی اوریہ عقبہ کے دن کا واقعہ ہے جب میں نے تمہاری اس قوم سے ایسی سخت اذیتیں اٹھائیں جن سے زیادہ سخت اذیتیں ان کی طرف سے عمر بھر مجھے کبھی نہیں پہنچیں ہوا یہ تھا کہ میں اس دن ابن عبد یا لیل ابن کلال کے پاس پہنچا (اور اس کو اسلام قبول کرنے کی تلقین کی ) لیکن اس نے میری (تلقین پر کوئی توجہ نہیں دی اور میں رنجیدہ وغمگین اپنے منہ کی سیدھ میں چل پڑا یہاں تک کہ قرن ثعالب پہنچ کر میرے حواس قابومیں آئے ،میں نے اپنا سر اوپر اٹھایا تو کیا دیکھتا ہوں کہ ایک ابر کا ٹکڑا ہے جو مجھ پر سایہ کئے ہوئے ہے اورپھر اچانک میری نظر اس ابر کے ٹکڑے میں جبرئیل علیہ السلام پر پڑی ۔جبرئیل علیہ السلام نے مجھے مخاطب کیا اورکہا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پروردگار نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی قوم کی بات سن لی اوراس کا وہ جواب بھی سن لیا جو اس نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو دیا ہے اور اب اس (پروردگار )نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں پہا ڑوں کے فرشتہ کو اس لئے بھیجا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اپنی قوم کے بارے میں جو چاہیں حکم صادر فرمائیں ۔آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :اس کے بعد پہاڑوں کے فرشتہ نے مجھ کو (یانبی !یامحمد !کہہ کر )مخاطب کیا اورسلام کرکے کہا کہ اے محمد صلی اللہ علیہ وسلم اللہ تعالیٰ نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی قوم کی بات سن لی ہے ،میں پہاڑوں کا فرشتہ ہوں ،مجھ کو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پروردگار نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پروردگار نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس اس لئے بھیجا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم مجھے اپنے فیصلہ کی تعمیل کاحکم دیں ،اگر آپ صلی اللہ علیہ وسلم فرمائیں تو میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی قوم کے لوگوں پر ان دونوں پہاڑوں اخشبین کو الٹ دوں '''رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے (یہ سن کر ) فرمایا (میں ان کی ہلاکت کا خواہاں نہیں ہوسکتا )بلکہ میں تو یہ امیدرکھتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ ان کی نسل میں سے ایسے لوگ پیدا فرمادے جو صرف اسی ایک خدا کی عبادت کریں اورکسی بھی چیز کو اس کا شریک قرار نہ دیں۔''' }}
سطر 45:
 
== عبد اللہ ابن ابی کا شان رسالت میں گستاخی کرنا اور اس پر کسی سزا کا نفاذ نہ ہونا ==
معترضین حضرات<ref>{{Cite web |url=http://mqmpakistani.org/index.php?option=com_content&view=article&id=328%3A%D9%85%D9%8F%D9%84%D8%A7-%DA%A9%D8%A7-%D8%AA%D9%88%DB%81%DB%8C%D9%86-%D8%B1%D8%B3%D8%A7%D9%84%D8%AA-%D8%A2%D8%B1%DA%88%DB%8C%D9%86%D9%86%D8%B3-%D8%B4%D8%B1%DB%8C%D8%B9%D8%AA-%DA%A9%DB%92-%D9%85%D8%B7%D8%A7%D8%A8%D9%82-%D9%86%DB%81%DB%8C%DA%BA&catid=88%3A2009-09-04-09-33-41 |title=آرکائیو کاپی |access-date=2012-09-10 |archive-date=2012-09-10 |archive-url=https://web.archive.org/web/20120910201205/http://mqmpakistani.org/index.php?option=com_content&view=article&id=328%3A%D9%85%D9%8F%D9%84%D8%A7-%DA%A9%D8%A7-%D8%AA%D9%88%DB%81%DB%8C%D9%86-%D8%B1%D8%B3%D8%A7%D9%84%D8%AA-%D8%A2%D8%B1%DA%88%DB%8C%D9%86%D9%86%D8%B3-%D8%B4%D8%B1%DB%8C%D8%B9%D8%AA-%DA%A9%DB%92-%D9%85%D8%B7%D8%A7%D8%A8%D9%82-%D9%86%DB%81%DB%8C%DA%BA&catid=88%3A2009-09-04-09-33-41 |url-status=livedead }}</ref> کی اگلی دلیل یہ ہے کہ عبد اللہ ابن ابی نے محمد {{صہ}} کی شان میں انتہائی گستاخی کی۔ اس گستاخی پر نہ محمد {{صہ}} نے اس کے قتل کا حُکم دیا اور نہ ہی وہاں پر موجود مسلمانوں نے اسے قتل کیا۔ اور اللہ نے بھی اس کے قتل کا حُکم نہیں دیا اور آیت تو نازل ہوئی مگر وہ اسے قتل کرنے کی نہیں تھی بلکہ یہ تھی کہ اگر مسلمانوں کے دو گروہ آپس میں لڑ پڑیں تو ان میں صلح کروا دو۔
{{اقتباس|صحیح بخاری، کتاب الصلح<ref>http://sunnah.com/bukhari/53/2</ref>:
ہم سے مسدد نے بیان کیا کہا ہم سے معتمر بن سلیمان نے بیان کیا کہا میں نے اپنے باپ سے سنا کہ انسؓ نے کہا لوگوں نے نبی {{صہ}} کو رائے دی اگر آپ عبداللہ بن ابی کے پاس تشریف لے چلیں تو بہتر ہے یہ سن کر آپؐ ایک گدھے پر سوار ہو کر اس کے پاس گئے مسلمان آپؐ کے ساتھ چلے وہاں کی زمین کھاری تھی '''جب آپ اس (عبداللہ ابن ابی) کے پاس پہنچے تو وہ محمد {{صہ}} کو کہنے لگا کہ چلو پرے ہٹو تمہارے گدھے کی بد بو نے میرا دماغ پریشان کر دیا ہے۔''' یہ سن کر ایک انصاری (عبداللہ بن رواحہ) بولے خدا کی قسم محمد {{صہ}} کا گدھا تجھ سے زیادہ خوشبودار ہے اس پر عبداللہ کی قوم کا ایک شخص (صحابی) غصے ہوا۔ دونوں میں گالی گلوچ ہوئی اور دونوں طرف کے لوگوں کو غصہ آیا اور وہ چھڑیوں، ہاتھوں اور جوتوں سے آپس میں لڑ پڑے۔ انسؓ نے کہا ہم کو یہ بات پہنچی کہ (سورت حجرات کی آیت وَ اِن طَائِفَتَانِ ِمنَ المُؤمِنِینَ اقتَتَلُوا فَاصلحُوا بَینھمَا) اسی بات میں اتری۔ (یعنی مسلمانوں کے دو گروہ لڑ پڑیں تو ان میں صلح کروا دو)۔}}
سطر 51:
 
== قرآن کی گواہی کہ یہودی محمد{{صہ}} کی توہین کیا کرتے تھے ==
معترضین حضرات<ref>{{Cite web |url=http://mqmpakistani.org/index.php?option=com_content&view=article&id=328%3A%D9%85%D9%8F%D9%84%D8%A7-%DA%A9%D8%A7-%D8%AA%D9%88%DB%81%DB%8C%D9%86-%D8%B1%D8%B3%D8%A7%D9%84%D8%AA-%D8%A2%D8%B1%DA%88%DB%8C%D9%86%D9%86%D8%B3-%D8%B4%D8%B1%DB%8C%D8%B9%D8%AA-%DA%A9%DB%92-%D9%85%D8%B7%D8%A7%D8%A8%D9%82-%D9%86%DB%81%DB%8C%DA%BA&catid=88%3A2009-09-04-09-33-41 |title=آرکائیو کاپی |access-date=2012-09-10 |archive-date=2012-09-10 |archive-url=https://web.archive.org/web/20120910201205/http://mqmpakistani.org/index.php?option=com_content&view=article&id=328%3A%D9%85%D9%8F%D9%84%D8%A7-%DA%A9%D8%A7-%D8%AA%D9%88%DB%81%DB%8C%D9%86-%D8%B1%D8%B3%D8%A7%D9%84%D8%AA-%D8%A2%D8%B1%DA%88%DB%8C%D9%86%D9%86%D8%B3-%D8%B4%D8%B1%DB%8C%D8%B9%D8%AA-%DA%A9%DB%92-%D9%85%D8%B7%D8%A7%D8%A8%D9%82-%D9%86%DB%81%DB%8C%DA%BA&catid=88%3A2009-09-04-09-33-41 |url-status=livedead }}</ref> کی طرف سے اگلی دلیل یہ پیش کی جاتی ہے کہ سورہ نساء (٤)کی آیت ٤٦<ref>http://openburhan.net/ob.php?sid=4&vid=46</ref> میں اللہ تعالیٰ نے مدینہ کے یہود کی اس گستاخانہ روش کا ذکر کیا ہے کہ وہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو مخاطب کرتے وقت 'راعنا' (ہماری رعایت فرمایے) کے لفظ کو اس طرح بگاڑ کر ادا کرتے کہ وہ سب وشتم کا ایک کلمہ بن جاتا [رَاعِنَا کے معنی ہیں، ہمارا لحاظ اور خیال کیجئے۔ بات سمجھ میں نہ آئے تو سامع اس لفظ کا استعمال کر کے متکلم کو اپنی طرف متوجہ کرتا تھا، لیکن یہودی اپنے بغض و عناد کی وجہ سے اس لفظ کو تھوڑا سا بگاڑ کر استعمال کرتے تھے جس سے اس کے معنی میں تبدیلی اور ان کے جذبہ عناد کی تسلی ہو جاتی، مثلا وہ کہتے رَعِینَا (اَحمْق) وغیرہ ۔ اسی طرح وہ السلامُ علیکم کی بجائے السامُ علیکم (تم پر موت آئے) کہا کرتے تھے۔]۔ اسی طرح وہ آپ کو مخاطب کرکے 'اِسْمَعْ غَيْرَ مُسْمَعٍ' (سنو، تمھیں سنائی نہ دے) کے بددعائیہ کلمات بھی کہتے۔
قرآن مجید نے یہاں ان کی اس روش پر کوئی قانونی سزا تجویز نہیں کی اور عہد رسالت، عہد صحابہ اور اسلامی تاریخ میں بھی اس نوعیت کے واقعات پر صرف نظر اور تحمل و برداشت کا حکیمانہ رویہ اختیار کرنے کا ثبوت ملتا ہے۔
امام بخاری نے صحیح بخاری میں ایک باب اس مخصوص عنوان سے تحریر کیا ہے کہ” نبی نہ گالیاں دیتے تھے اور نہ ہی آپ بد خلق تھے “ (لم یکن النبی فاحشاً ولا متفحشاً) اس باب میں آپ نے پیغمبر کے حسن اخلاق سے مربوط متعدد حدیثیں نقل کی ہیں، ان میں سے ایک حدیث اس طرح ہے:
سطر 61:
== قرآن کی ہدایت کہ مسلمان اہل کتاب ومشرکین کی بدگوئی پر صبر و ضبط کا مظاہرہ کریں ==
 
معترضین حضرات<ref>{{Cite web |url=http://mqmpakistani.org/index.php?option=com_content&view=article&id=328%3A%D9%85%D9%8F%D9%84%D8%A7-%DA%A9%D8%A7-%D8%AA%D9%88%DB%81%DB%8C%D9%86-%D8%B1%D8%B3%D8%A7%D9%84%D8%AA-%D8%A2%D8%B1%DA%88%DB%8C%D9%86%D9%86%D8%B3-%D8%B4%D8%B1%DB%8C%D8%B9%D8%AA-%DA%A9%DB%92-%D9%85%D8%B7%D8%A7%D8%A8%D9%82-%D9%86%DB%81%DB%8C%DA%BA&catid=88%3A2009-09-04-09-33-41 |title=آرکائیو کاپی |access-date=2012-09-10 |archive-date=2012-09-10 |archive-url=https://web.archive.org/web/20120910201205/http://mqmpakistani.org/index.php?option=com_content&view=article&id=328%3A%D9%85%D9%8F%D9%84%D8%A7-%DA%A9%D8%A7-%D8%AA%D9%88%DB%81%DB%8C%D9%86-%D8%B1%D8%B3%D8%A7%D9%84%D8%AA-%D8%A2%D8%B1%DA%88%DB%8C%D9%86%D9%86%D8%B3-%D8%B4%D8%B1%DB%8C%D8%B9%D8%AA-%DA%A9%DB%92-%D9%85%D8%B7%D8%A7%D8%A8%D9%82-%D9%86%DB%81%DB%8C%DA%BA&catid=88%3A2009-09-04-09-33-41 |url-status=livedead }}</ref> کی اگلی دلیل یہ ہے کہ یہود و مشرکین اسلام اور محمد {{صہ}} کے متعلق ایسی بدگوئیاں کرتے تھے جن سے مسلمانوں کو بہت ایذا پہنچتی تھی۔ مگر اس پر اللہ تعالی کی طرف سے مسلمانوں کو حکم جاری ہو رہا ہے کہ وہ صبر اختیار کریں۔
{{اقتباس|[جوناگڑھی، سورۃ آل عمران 3:186]<ref>http://openburhan.net/ob.php?sid=3&vid=186</ref> ۔۔۔ اور یہ بھی یقین ہے کہ تمہیں ان لوگوں کی جو تم سے پہلے کتاب دیے گئے اور مشرکوں کی بہت سی دکھ دینے والی باتیں سننا پڑیں گی۔ اور اگر تم صبر کر لو اور پرہیزگاری اختیار کرو تو یقینا یہ بہت بڑی ہمت کا کام ہے۔}}
اس آیت کی تفسیر میں صلاح الدین صاحب (قرآن مع ترجمہ و تفسیر، شاہ فہد پرنٹنگ پریس )لکھتے ہیں<ref>http://qurancomplex.gov.sa/Quran/Targama/Targama.asp?TabID=4&SubItemID=1&l=urd&t=urd&SecOrder=4&SubSecOrder=1</ref>:
سطر 126:
 
== ضعیف روایات سے استدلال ==
معترضین حضرات <ref>{{Cite web |url=http://mqmpakistani.org/index.php?option=com_content&view=article&id=328%3A%D9%85%D9%8F%D9%84%D8%A7-%DA%A9%D8%A7-%D8%AA%D9%88%DB%81%DB%8C%D9%86-%D8%B1%D8%B3%D8%A7%D9%84%D8%AA-%D8%A2%D8%B1%DA%88%DB%8C%D9%86%D9%86%D8%B3-%D8%B4%D8%B1%DB%8C%D8%B9%D8%AA-%DA%A9%DB%92-%D9%85%D8%B7%D8%A7%D8%A8%D9%82-%D9%86%DB%81%DB%8C%DA%BA&catid=88%3A2009-09-04-09-33-41 |title=آرکائیو کاپی |access-date=2012-09-10 |archive-date=2012-09-10 |archive-url=https://web.archive.org/web/20120910201205/http://mqmpakistani.org/index.php?option=com_content&view=article&id=328%3A%D9%85%D9%8F%D9%84%D8%A7-%DA%A9%D8%A7-%D8%AA%D9%88%DB%81%DB%8C%D9%86-%D8%B1%D8%B3%D8%A7%D9%84%D8%AA-%D8%A2%D8%B1%DA%88%DB%8C%D9%86%D9%86%D8%B3-%D8%B4%D8%B1%DB%8C%D8%B9%D8%AA-%DA%A9%DB%92-%D9%85%D8%B7%D8%A7%D8%A8%D9%82-%D9%86%DB%81%DB%8C%DA%BA&catid=88%3A2009-09-04-09-33-41 |url-status=livedead }}</ref> اس بات کی طرف بھی نشان دہی کرتے ہیں کہ اصول یہ ہے کہ اسلامی شریعت کے "قوانین" بناتے وقت "ضعیف" روایات کا استعمال نہیں ہو سکتا، خاص طور پر جب کہ موت و قتل جیسے قوانین بنائے جا رہے ہوں۔ مگر اس کے باوجود توہین رسالت قانون کو سہارا دینے کے لیے کچھ ضعیف روایات کا استعمال کیا جا رہا ہے۔ اس کی مثال وہ عصماء بنتِ مروان کے واقعہ سے دیتے ہیں<ref name="banuri.edu.pk">http://www.banuri.edu.pk/ur/node/1240</ref>:
{{اقتباس|عصما بنت مروان رسول ا کو ایذاء اور تکلیف دیا کرتی تھی ۔ اسلام میں عیب نکالتی اور نبی اکے خلاف لوگوں کو اکساتی تھی۔ عمیر بن عدی الخطمی ، جو کہ نابینا (اندھے) تھے، ان کو جب اس عورت کی باتوں اور اشتعال انگیزی کا علم ہوا تو کہنے لگے کہ اے اللہ! میں تیری بارگاہ میں نذر مانتا ہوں اگر تو نے رسول ا کو بخیر و عافیت مدینہ منورہ لوٹا دیا تو میں اسے ضرور قتل کردوں گا۔ رسول ا اس وقت بدر میں تھے۔ جب آپ ا غزوہ بدر سے تشریف لائے تو عمیر بن عدی آدھی رات کے وقت اس عورت کے گھر میں داخل ہوئے تو اس کے اردگرد اس کے بچے سوئے ہوئے تھے۔ ایک بچہ اس کے سینے پر تھا جسے وہ دودھ پلا رہی تھی۔ عمیرنے اپنے ہاتھ سے اس عورت کو ٹٹولا تو معلوم ہوا کہ یہ عورت اپنے بچے کو دودھ پلا رہی ہے۔ عمیر نے بچے کو اس سے الگ کر دیا پھر اپنی تلوار کو اس کے سینے پر رکھ کر اس زور سے دبایا کہ وہ تلوار اس کی پشت سے پار ہوگئی۔پھر نماز فجر محمد{{صہ}} کے ساتھ ادا کی جب نبی اکرم {{صہ}} نماز سے فارغ ہوئے تو عمیر کی طرف دیکھ کر فرمایا کیا تم نے بنت مروان کو قتل کیا ہے ؟ کہنے لگے ۔ جی ہاں ۔ میرے ماں باپ آپ{{صہ}} پر قربان ہوں۔}}
معترضین حضرات کی تنقید یہ ہے کہ''' یہ صحابی نابینا تھے، مگر اس کے باوجود اس عورت کے گھر تک پھر اکیلے کیسے پہنچ گئے؟ پھر اکیلے اندھیرے میں اس انجان گھر میں اس عورت کو اندھیرے میں چیزوں کو ٹٹولتے ہوئے ڈھونڈتے پھرتے ہیں اور اس پورے وقت میں کسی گھر والے کی آنکھ نہیں کھلتی۔ پھر ایک عورت ملتی ہے اور ٹٹولنے پر پتا چلتا ہے کہ وہ بچے کو دودھ پلا رہی ہے۔ پھر اس دودھ پیتے بچے کو زبردستی الگ کیا جاتا ہے مگر پھر بھی ماں جاگتی ہے اور نہ کوئی اور گھر والا (اگر کسی دودھ پیتے بچے کو الگ کیا جائے تو وہ فورا رونا شروع کر دیتا ہے)۔اور پھر یہ صحابی تقریبا ًاندھے تھے اور ساتھ ہی ساتھ آدھی رات کا گھپ اندھیرا بھی تھا۔ تو پھر انہیں کیسے یقین ہوا جس عورت کو وہ قتل کرنے جا رہے ہیں وہ کوئی اور نہیں بلکہ عصماء بنت مروان ہی ہے؟'''
سطر 186:
اس قانون کے حامی حضرات سنن ابو داود، حديث نمبر ( 4361 )<ref>http://library.islamweb.net/newlibrary/display_book.php?idfrom=7559&idto=7564&bk_no=55&ID=1631</ref> کو بطور دلیل پیش کرتے ہیں:
{{اقتباس|ايك اندھے كى ام ولد ( لونڈى ) تھى جو نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم پر سب و شتم اور توہين كرتى تھى، اس نے اسے ايسا كرنے سے منع كيا ليكن وہ نہ ركى، اور وہ اسے ڈانٹتا ليكن وہ باز نہ آئى.راوى كہتے ہيں: ايك رات جب وہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كى توہين كرنے لگى اور سب و شتم كيا تو اس اندھے نے خنجر لے كر اس كے پيٹ پر ركھا اور اس پر وزن ڈال كر اسے قتل كر ديا، اس كى ٹانگوں كے پاس بچہ گرگيا، اور وہاں پر بستر خون سے لت پت ہو گيا، جب صبح ہوئى تو اس كا ذكر رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم سے كيا گيا اور لوگ جمع ہو گئے تو نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:" ميں اس شخص كو اللہ كى قسم ديتا ہوں جس نے بھى يہ كام كيا ہے اس پر ميرا حق ہے وہ كھڑا ہو جائے، تو وہ نابينا شخص كھڑا ہوا اور لوگوں كو پھلانگتا اور لڑكھڑاتا ہوا نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كے سامنے بيٹھ گيا اور كہنے لگا: اے اللہ تعالى كے رسول صلى اللہ عليہ وسلم ميں اس كا مالك ہوں! وہ آپ پر سب و شتم اور آپ كى توہين كيا كرتى تھى، اور ميں اسے روكتا ليكن وہ باز نہ آتى، ميں اسے ڈانٹتا ليكن وہ قبول نہ كرتى، ميرے اس سے موتيوں جيسے دو بيٹے بھى ہيں اور وہ ميرے ساتھ بڑى نرم تھى، رات بھى جب اس نے آپ كى توہين كرنا اور سب و شتم كرنا شروع كيا تو ميں نے خنجر لے كر اس كے پيٹ ميں ركھا اور اوپر وزن ڈال كر اسے قتل كر ديا.تو رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:خبردار گواہ رہو اس كا خون رائيگاں ہے اس كى كوئى قدر و قيمت نہيں}}
معترضین حضرات<ref>{{Cite web |url=http://mqmpakistani.org/index.php?option=com_content&view=article&id=328%3A%D9%85%D9%8F%D9%84%D8%A7-%DA%A9%D8%A7-%D8%AA%D9%88%DB%81%DB%8C%D9%86-%D8%B1%D8%B3%D8%A7%D9%84%D8%AA-%D8%A2%D8%B1%DA%88%DB%8C%D9%86%D9%86%D8%B3-%D8%B4%D8%B1%DB%8C%D8%B9%D8%AA-%DA%A9%DB%92-%D9%85%D8%B7%D8%A7%D8%A8%D9%82-%D9%86%DB%81%DB%8C%DA%BA&catid=88%3A2009-09-04-09-33-41 |title=آرکائیو کاپی |access-date=2012-09-10 |archive-date=2012-09-10 |archive-url=https://web.archive.org/web/20120910201205/http://mqmpakistani.org/index.php?option=com_content&view=article&id=328%3A%D9%85%D9%8F%D9%84%D8%A7-%DA%A9%D8%A7-%D8%AA%D9%88%DB%81%DB%8C%D9%86-%D8%B1%D8%B3%D8%A7%D9%84%D8%AA-%D8%A2%D8%B1%DA%88%DB%8C%D9%86%D9%86%D8%B3-%D8%B4%D8%B1%DB%8C%D8%B9%D8%AA-%DA%A9%DB%92-%D9%85%D8%B7%D8%A7%D8%A8%D9%82-%D9%86%DB%81%DB%8C%DA%BA&catid=88%3A2009-09-04-09-33-41 |url-status=livedead }}</ref> اس روایت پر یہ تنقید پیش کرتے ہیں:
# اس روایت کے مطابق بھی ایسا نہیں ہوا کہ اُس باندی نے پہلی مرتبہ توہینِ رسالت کی ہو اور اس پر فوراً قتل کر دی گئی ہو۔ بلکہ اس میں صاف طور پر موجود ہے کہ اُس باندی نے عادت اور معمول ہی بنا لیا تھا کہ وہ مستقل محمد {{صہ}} کو بُرا بھلا کہتی تھی<ref name="ReferenceC"/>۔
# اور وہ صحابی پہلی ہی مرتبہ میں فوراً قتل کر دینے کی بجائے شروع میں عفو و درگزر اور صبط و ضبط کا مظاہرہ کرتے ہوئے مستقل اُسے ہدایت کی نصیحت کرتے رہے اور ادب سکھاتے رہے، جبکہ موجودہ توہین رسالت میں توبہ یا ہدایت و نصیحت یا ادب سکھانے کی کوئی گنجائش نہیں۔
سطر 195:
سنن ابو داؤد<ref>http://library.islamweb.net/hadith/display_hbook.php?bk_no=184&hid=3798&pid=</ref> اور مصنف ابن ابی شیبہ<ref>http://library.islamweb.net/newlibrary/display_book.php?idfrom=5437&idto=5437&bk_no=10&ID=4990</ref> میں ایک اور واقعہ شعبی نے علی ابن ابی طالب سے منسوب کیا ہے:
<blockquote>ايك يہودى عورت نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كى توہين اور آپ پر سب و شتم كرتى تھى، تو ايك شخص نے اس كا گلا گھونٹ ديا حتى كہ وہ مر گئى، تو رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے اس كا خون باطل قرار ديا</blockquote>
معترضین حضرات<ref>{{Cite web |url=http://mqmpakistani.org/index.php?option=com_content&view=article&id=328%3A%D9%85%D9%8F%D9%84%D8%A7-%DA%A9%D8%A7-%D8%AA%D9%88%DB%81%DB%8C%D9%86-%D8%B1%D8%B3%D8%A7%D9%84%D8%AA-%D8%A2%D8%B1%DA%88%DB%8C%D9%86%D9%86%D8%B3-%D8%B4%D8%B1%DB%8C%D8%B9%D8%AA-%DA%A9%DB%92-%D9%85%D8%B7%D8%A7%D8%A8%D9%82-%D9%86%DB%81%DB%8C%DA%BA&catid=88%3A2009-09-04-09-33-41 |title=آرکائیو کاپی |access-date=2012-09-10 |archive-date=2012-09-10 |archive-url=https://web.archive.org/web/20120910201205/http://mqmpakistani.org/index.php?option=com_content&view=article&id=328%3A%D9%85%D9%8F%D9%84%D8%A7-%DA%A9%D8%A7-%D8%AA%D9%88%DB%81%DB%8C%D9%86-%D8%B1%D8%B3%D8%A7%D9%84%D8%AA-%D8%A2%D8%B1%DA%88%DB%8C%D9%86%D9%86%D8%B3-%D8%B4%D8%B1%DB%8C%D8%B9%D8%AA-%DA%A9%DB%92-%D9%85%D8%B7%D8%A7%D8%A8%D9%82-%D9%86%DB%81%DB%8C%DA%BA&catid=88%3A2009-09-04-09-33-41 |url-status=livedead }}</ref> اس روایت پر یہ تنقید پیش کرتے ہیں:
# اس روایت کے صحیح ہونے پر اختلاف ہے۔ فقط شعبی نے ہی اسے علی ابن ابی طالب کے نام پر بیان کیا ہے۔ مگر اہل علم کی اکثریت کے مطابق شعبی نے علی ابن ابی طالب کو نہیں پایا ہے اور نہ ان سے احادیث سنی ہیں اور اس وجہ سے یہاں انقطاع ہے۔ <br>شیخ عثمان الخمیس سے یہ سوال کیا گیا کہ کیا شعبی کی علی ابن ابی طالب سے مراسیل قابل قبول ہیں؟ جواب میں شیخ عثمان الخمیس کہتے ہیں کہ شعبی نے علی ابن ابی طالب کو نہیں دیکھا ہے اور اہل علم کے اقوال کے مطابق یہی مشہور ہے کہ علی ابن ابی طالب سے شعبی کی مراسیل صحیح نہیں ہیں۔<ref>http://almanhaj.net/cms/index.php/fatwa/show/412/</ref>
# دوسرا یہ کہ یہ روایت بھی" خبر واحد" ہے جو شعبی کے علاوہ کسی اور نے نقل نہیں کی ہے۔
سطر 204:
طبقات الکبری<ref>http://webcache.googleusercontent.com/search?q=cache:A1776X2zdRsJ:library.islamweb.net/hadith/display_hbook.php%3Fbk_no%3D82%26pid%3D36911%26hid%3D5205+&cd=1&hl=de&ct=clnk&gl=de</ref> میں یہ واقعہ ملتا ہے (تفصیلی بحث یہاں<ref>http://islamqa.info/ur/103739</ref>):
<blockquote>" ہميں قبيصہ بن عقبہ نے خبر دى، وہ كہتے ہيں ہميں يونس بن ابى اسحاق نے ابو اسحاق سے حديث بيان كى، وہ عبد اللہ بن معقل سے بيان كرتے ہيں وہ كہتے ہيں: ابن ام مكتوم مدينہ ميں ايك انصارى كى پھوپھى جو يہودى تھى كے پاس ٹھرے، وہ ان كے ساتھ نرمى برتتى اور بڑى رفيق تھى، ليكن اللہ اور اس كے رسول كے متعلق انہيں اذيت ديتى، تو انہوں نے اسے پكڑ كر مارا اور قتل كر ديا، اس كا معاملہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم كے پاس لايا گيا تو ابن ام مكتوم كہنے لگے:اے اللہ كے رسول صلى اللہ عليہ وسلم اللہ كى قسم اگرچہ وہ ميرے ساتھ بڑى نرم دل تھى، ليكن اس نے اللہ اور اس كے رسول صلى اللہ عليہ وسلم كے بارہ ميں بڑى اذيت دى تو ميں نے اسے مارا اور قتل كر ديا، چنانچہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم فرمانے لگے:" اللہ تعالى نے اسے دور كر ديا، ميں نے اس كا خون باطل كر ديا "</blockquote>
اس پر معترضین حضرات<ref>{{Cite web |url=http://mqmpakistani.org/index.php?option=com_content&view=article&id=328%3A%D9%85%D9%8F%D9%84%D8%A7-%DA%A9%D8%A7-%D8%AA%D9%88%DB%81%DB%8C%D9%86-%D8%B1%D8%B3%D8%A7%D9%84%D8%AA-%D8%A2%D8%B1%DA%88%DB%8C%D9%86%D9%86%D8%B3-%D8%B4%D8%B1%DB%8C%D8%B9%D8%AA-%DA%A9%DB%92-%D9%85%D8%B7%D8%A7%D8%A8%D9%82-%D9%86%DB%81%DB%8C%DA%BA&catid=88%3A2009-09-04-09-33-41 |title=آرکائیو کاپی |access-date=2012-09-10 |archive-date=2012-09-10 |archive-url=https://web.archive.org/web/20120910201205/http://mqmpakistani.org/index.php?option=com_content&view=article&id=328%3A%D9%85%D9%8F%D9%84%D8%A7-%DA%A9%D8%A7-%D8%AA%D9%88%DB%81%DB%8C%D9%86-%D8%B1%D8%B3%D8%A7%D9%84%D8%AA-%D8%A2%D8%B1%DA%88%DB%8C%D9%86%D9%86%D8%B3-%D8%B4%D8%B1%DB%8C%D8%B9%D8%AA-%DA%A9%DB%92-%D9%85%D8%B7%D8%A7%D8%A8%D9%82-%D9%86%DB%81%DB%8C%DA%BA&catid=88%3A2009-09-04-09-33-41 |url-status=livedead }}</ref> کی طرف سے یہ تنقید پیش ہوتی ہے:
# پہلا یہ کہ یہ روایت "مرسل" ہے۔ مرسل اس روایت کو کہتے ہیں جس میں تابعی کے بعد والے راوی (یعنی صحابی) کو حذف کر دیا گیا ہو۔ اس روایت کو بیان کرنے والے عبد اللہ ابن معقل ہیں جو تابعی ہیں۔ یہ ناممکن ہے کہ وہ محمد {{صہ}} کے زمانے میں ہونے والے اس ام مکتوم کے واقعے کے عینی شاہد ہوں۔ <br> نیز یہ روایت "غریب" بھی ہے۔ بلکہ غریب حدیث کی بھی جو سب سے نچلے درجہ کی قسم ہے، جسے “غریب مطلق” کہا جاتا ہے، یہ روایت اس “غریب مطلق” درجے کی ہے۔ (یعنی شروع سے لیکر آخر تک ہر دور میں اس کو بیان کرنے والا صرف اور صرف ایک ہی شخص ہے)۔
# دوسرا یہ کہ اس روایت میں بھی یہ ذکر ہے کہ اس عورت نے اپنی عادت اور معمول ہی بنا لیا تھا کہ وہ اللہ اور اس کے محمد {{صہ}} کے متعلق گستاخانہ باتیں کر کے لوگوں کو اذیت پہنچاتی تھی اور یہ نہیں ہوا کہ پہلی دفعہ میں ہی پکڑ کر اسے قتل کر دیا گیا ہو۔
سطر 221:
اس پر موجودہ توہین رسالت قانون کے حامی حضرات<ref name="banuri.edu.pk"/> کا دعویٰ ہے کہ محمد {{صہ}} کو حق حاصل تھا کہ جو ان کی شان میں گستاخی کرے اُسے معاف کر دیں، مگر آج کسی کے پاس یہ حق نہیں ، چنانچہ آج ہر صورت میں گستاخ کو قتل کیا جائے گا۔
 
معترضین حضرات<ref>{{Cite web |url=http://mqmpakistani.org/index.php?option=com_content&view=article&id=328%3A%D9%85%D9%8F%D9%84%D8%A7-%DA%A9%D8%A7-%D8%AA%D9%88%DB%81%DB%8C%D9%86-%D8%B1%D8%B3%D8%A7%D9%84%D8%AA-%D8%A2%D8%B1%DA%88%DB%8C%D9%86%D9%86%D8%B3-%D8%B4%D8%B1%DB%8C%D8%B9%D8%AA-%DA%A9%DB%92-%D9%85%D8%B7%D8%A7%D8%A8%D9%82-%D9%86%DB%81%DB%8C%DA%BA&catid=88%3A2009-09-04-09-33-41 |title=آرکائیو کاپی |access-date=2012-09-10 |archive-date=2012-09-10 |archive-url=https://web.archive.org/web/20120910201205/http://mqmpakistani.org/index.php?option=com_content&view=article&id=328%3A%D9%85%D9%8F%D9%84%D8%A7-%DA%A9%D8%A7-%D8%AA%D9%88%DB%81%DB%8C%D9%86-%D8%B1%D8%B3%D8%A7%D9%84%D8%AA-%D8%A2%D8%B1%DA%88%DB%8C%D9%86%D9%86%D8%B3-%D8%B4%D8%B1%DB%8C%D8%B9%D8%AA-%DA%A9%DB%92-%D9%85%D8%B7%D8%A7%D8%A8%D9%82-%D9%86%DB%81%DB%8C%DA%BA&catid=88%3A2009-09-04-09-33-41 |url-status=livedead }}</ref> کے نزدیک یہ دعویٰ قابل قبول نہیں کیونکہ:
# محمد{{صہ}} سے براہ راست کوئی ایسی بات بیان نہیں ہوئی ہے کہ وہ توہین رسالت کرنے والوں کو اس لیے معاف کر رہے ہیں کیونکہ یہ انکا حق ہے۔ بلکہ یہ ایک نیا عذر ہے جو لوگوں کی اپنی طرف سے پیش کیا جا رہا ہے۔
# اہل مکہ فقط محمد {{صہ}} کی ہی توہین نہیں کرتے تھے، بلکہ وہ اپنے بتوں کے مقابلے میں اللہ کی بھی توہین کرتے تھے، وہ اپنے دین کے مقابلے میں دینِ اسلام کی بھی توہین کیا کرتے تھے، مگر اس کے باوجود محمد {{صہ}} نے انہیں معاف کیا۔
سطر 248:
 
[محمودالحسن: توبہ آیت 12] اور اگر وہ توڑ دیں اپنی قسمیں عہد کرنے کے بعد اور عیب لگائیں تمہارے دین میں تو لڑو کفر کے سرداروں سے بیشک ان کی قسمیں کچھ نہیں تاکہ وہ باز آئیں۔</blockquote>
معترضین حضرات<ref>{{Cite web |url=http://mqmpakistani.org/index.php?option=com_content&view=article&id=328%3A%D9%85%D9%8F%D9%84%D8%A7-%DA%A9%D8%A7-%D8%AA%D9%88%DB%81%DB%8C%D9%86-%D8%B1%D8%B3%D8%A7%D9%84%D8%AA-%D8%A2%D8%B1%DA%88%DB%8C%D9%86%D9%86%D8%B3-%D8%B4%D8%B1%DB%8C%D8%B9%D8%AA-%DA%A9%DB%92-%D9%85%D8%B7%D8%A7%D8%A8%D9%82-%D9%86%DB%81%DB%8C%DA%BA&catid=88%3A2009-09-04-09-33-41 |title=آرکائیو کاپی |access-date=2012-09-10 |archive-date=2012-09-10 |archive-url=https://web.archive.org/web/20120910201205/http://mqmpakistani.org/index.php?option=com_content&view=article&id=328%3A%D9%85%D9%8F%D9%84%D8%A7-%DA%A9%D8%A7-%D8%AA%D9%88%DB%81%DB%8C%D9%86-%D8%B1%D8%B3%D8%A7%D9%84%D8%AA-%D8%A2%D8%B1%DA%88%DB%8C%D9%86%D9%86%D8%B3-%D8%B4%D8%B1%DB%8C%D8%B9%D8%AA-%DA%A9%DB%92-%D9%85%D8%B7%D8%A7%D8%A8%D9%82-%D9%86%DB%81%DB%8C%DA%BA&catid=88%3A2009-09-04-09-33-41 |url-status=livedead }}</ref> اس کا جواب یہ دیتے ہیں کہ یہاں ذکر ہے اول "کفر کے ائمہ(سرداروں)" کا، یعنی جن کا کفر انتہائی شدید ہے اور جو عملی طور پر مسلمانوں کی جانوں کے لیے خطرہ ہے۔ اور دوم یہ کہ یہ آیت ہے جب انہوں نے اپنے معاہدے کو توڑ دیا تھا۔ سوم، آیت میں لڑنے کا حکم فقط اس وقت تک ہے جبتک کہ وہ باز نہ آ جائیں۔
تفسیر عثمانی<ref name="islamcomplex.com"/> میں اس کی تفصیل یہ ہے:
<blockquote>"یعنی اگر عہد وپیمان توڑ ڈالا (جیسے بنی بکر نے خلاف عہد خزاعہ پر حملہ کر دیا اور قریش نے حملہ آوروں کی مدد کی) اور کفر سے باز نہ آئے بلکہ دین حق کے متعلق طعنہ زنی اور گستاخانہ عیب جوئی کرتے رہے تو سمجھ لو کہ اس طرح کے لوگ "ائمۃ الکفر" (کفر کے سردار اور امام) ہیں۔ کیونکہ ان کی حرکات دیکھ کر اور باتیں سن کر بہت سے کجرو اور بیوقوف پیچھے ہو لیتے ہیں۔ ایسے سرغنوں سے پورا مقابلہ کرو۔ کیونکہ ان کا کوئی قول و قسم اور عہد و پیمان باقی نہیں رہا۔ ممکن ہے تمہارے ہاتھوں سے کچھ سزا پا کر اپنی شرارت و سرکشی سے باز آجائیں۔"</blockquote>
سطر 290:
{{اقتباس|ايك آدمى نے ابو بكر صديق رضى اللہ تعالى عنہ كے ساتھ سخت لہجہ اختيار كيا تو ميں نے كہا: كيا ميں اسے قتل كردوں؟ تو انہوں نے مجھے ڈانٹا اور كہنے لگے رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم كے بعد يہ كسى كے ليے بھى نہيں ہے۔'''نسائى حديث نمبر ٣٧٩٥'''}}
 
معترضین حضرات<ref>{{Cite web |url=http://mqmpakistani.org/index.php?option=com_content&view=article&id=328%3A%D9%85%D9%8F%D9%84%D8%A7-%DA%A9%D8%A7-%D8%AA%D9%88%DB%81%DB%8C%D9%86-%D8%B1%D8%B3%D8%A7%D9%84%D8%AA-%D8%A2%D8%B1%DA%88%DB%8C%D9%86%D9%86%D8%B3-%D8%B4%D8%B1%DB%8C%D8%B9%D8%AA-%DA%A9%DB%92-%D9%85%D8%B7%D8%A7%D8%A8%D9%82-%D9%86%DB%81%DB%8C%DA%BA&catid=88%3A2009-09-04-09-33-41 |title=آرکائیو کاپی |access-date=2012-09-10 |archive-date=2012-09-10 |archive-url=https://web.archive.org/web/20120910201205/http://mqmpakistani.org/index.php?option=com_content&view=article&id=328%3A%D9%85%D9%8F%D9%84%D8%A7-%DA%A9%D8%A7-%D8%AA%D9%88%DB%81%DB%8C%D9%86-%D8%B1%D8%B3%D8%A7%D9%84%D8%AA-%D8%A2%D8%B1%DA%88%DB%8C%D9%86%D9%86%D8%B3-%D8%B4%D8%B1%DB%8C%D8%B9%D8%AA-%DA%A9%DB%92-%D9%85%D8%B7%D8%A7%D8%A8%D9%82-%D9%86%DB%81%DB%8C%DA%BA&catid=88%3A2009-09-04-09-33-41 |url-status=livedead }}</ref> اس کے جواب میں کہتے ہیں کہ محمد {{صہ}} سے براہ راست منسوب ساری روایات اس بات کی شاہد ہیں کہ پہلی مرتبہ میں ہی قتل نہیں کر دیا گیا، بلکہ پہلے مرحلے میں عفو و درگزر اور ہدایت و نصیحت سے کام لیا گیا ہے۔شریعت بنانے والی ذات فقط اللہ کی ہے۔ حتی کہ محمد {{صہ}} کو بھی حق حاصل نہیں کہ وہ شریعت سازی کریں۔ محمد {{صہ}} کی بات کو شریعت کا حصہ اس لیے مانی جاتی ہے کیونکہ قرآن میں ہے کہ محمد {{صہ}} اس کے سوا کچھ نہیں بولتے جو اللہ نے ان کی طرف وحی کیا ہے۔ اور جبرئیل علیہ السلام وحی لے کر صرف اور صرف محمد {{صہ}} پر نازل ہوتے تھے۔ چنانچہ قرآن اور قول رسول ہی واحد حجت ہے۔ صحابہ کرام اگر قول رسول بیان فرما رہے ہیں تو وہ قابل قبول ہے، مگر اگر کوئی مسئلہ اپنی رائے اور اجتہاد کی روشنی میں بیان کر رہے ہیں تو اس کو قرآن و سنت کی روشنی میں دیکھا جائے گا۔ اسی وجہ سے صحابہ کرام کے آپس میں بہت سے مسائل پر ایک دوسرے کی آراء سے اختلاف کیا۔ اس معاملے میں حضرت ابوبکر کی رائے جناب عائشہ اور جناب ابو ہریرہ وغیرہ کی روایات کے مطابق نہیں جس میں بذات خود محمد {{صہ}} شریعت واضح کر رہے ہیں۔ چنانچہ اس صورت میں حضرت ابو بکر والی روایت کی تطبیق کی جائے گی حضرت ابو بکر بھی پہلے مرحلے میں قتل کی نہیں بلکہ مسلسل اور عادت بنا لیے جانے والے شخص کے قتل کا کہہ رہے ہیں اور گستاخی کیوجہ سے مرتد ہو جانے کے بعد توبہ نہ کرنے والے کی قتل کی بات کر رہے ہیں۔
 
== قائد اعظم اور توہین رسالت قانون ==