"شیریں رتناگر" کے نسخوں کے درمیان فرق

حذف شدہ مندرجات اضافہ شدہ مندرجات
م خودکار: درستی املا ← کے ایما؛ تزئینی تبدیلیاں
1 مآخذ کو بحال کرکے 0 پر مردہ ربط کا ٹیگ لگایا گیا) #IABot (v2.0.7
سطر 21:
 
== ایودھیا تنازع ==
شیریں رتناگر ماہر آثار قدیمہ [[ڈی منڈل]] نے [[2003ء]] میں ایک مکمل دن صَرف کر کے آرکیالوجیکل سروے آف انڈیا (اے ایس آئی) کی [[بابری مسجد]] کے انہدام کے مقام پر کی گئی کھدائیوں کا جائزہ لیا۔ یہ کارروائی سنی وقف بورڈ کے ایما پر کی گئی تھی۔ اس کے بعد ان دو محققین نے اے ایس آئی کی کھدائیوں پر ایک انتہائی تنقیدی مواد Ayodhya: Archaeology after Excavation کے عنوان سے لکھا۔ [[2010ء]] میں یہ دونوں [[الہ آباد ہائی کورٹ]] کے روبہ رو سنی وقف بورڈ کے گواہ کے طور پر حاضر ہوئے۔<ref>{{cite news |url=http://epaper.timesofindia.com/Repository/ml.asp?Ref=VE9JTS8yMDEwLzEwLzEwI0FyMDA2MDE |title=Trench warfare: Writing on the Wall |newspaper=Times of India |date=16 اکتوبر 2010 |accessdate=2014-12-25 |archiveurl=https://web.archive.org/web/20181225201741/http://epaper.timesofindia.com/Repository/ml.asp?Ref=VE9JTS8yMDEwLzEwLzEwI0FyMDA2MDE%20 |archivedate=2018-12-25 |url-status=livedead }}</ref>
 
اپنے فیصلے میں ہائی کورٹ نے کئی گواہوں کے رول کی شدید نکتہ چینی کی، جن میں رتناگر بھی شامل تھی اور جسے یہ مجبورًا حلفیہ قبول کرنا پڑا کہ اسے آثار قدیمہ کی بھارت میں کھدائیوں کا کوئی عملی تجربہ نہیں ہے۔<ref name="court">[http://articles.timesofindia.indiatimes.com/2010-10-09/india/28254384_1_asi-excavations-experts-waqf-board How Allahabad HC exposed experts espousing Masjid-cause]، Times of India, اکتوبر 9, 2010, 03.07am IST</ref> رتناگر اور ان کے حامیوں نے بعد میں اس کی پیش کردہ روداد کا دفاع کیا کیونکہ وہ بھارت کے باہر کئی آثار قدیمہ کی کھدائیوں کا حصہ رہی ہے جیساکہ [[تل الریمہ]]، [[عراق]]، [[1971ء]]۔<ref name="rimah">[http://www.jstor.org/stable/view/4199937 ''Iraq'' Vol. 34, No. 2 (Autumn, 1972)، pp. 77-86. Published by: British Institute for the Study of Iraq]</ref>۔ اسی طرح رتناگر ترکی اور خلیج میں بھی مشاہدہ کر چکی ہے۔<ref>[http://www.indiaclub.com/Shop/SearchResults.asp?prodstock=12890 Publisher's statement on Shereen Ratnagar, Trading Encounters (اوکسفرڈ یونیورسٹی پریس، 2006)]</ref>