"مالک رام" کے نسخوں کے درمیان فرق

حذف شدہ مندرجات اضافہ شدہ مندرجات
26 مآخذ کو بحال کرکے 0 پر مردہ ربط کا ٹیگ لگایا گیا) #IABot (v2.0.7
5 مآخذ کو بحال کرکے 0 پر مردہ ربط کا ٹیگ لگایا گیا) #IABot (v2.0.7
سطر 18:
مالک رام<ref name="NCPU">{{cite book|title=Urdu Authors: Date list as on 31 May 2006|publisher=National Council for Promotion of Urdu, [[حکومت ہند]], [[وزارت ترقی انسانی وسائل، حکومت ہند]]|url= http://www.urducouncil.nic.in/urdu_wrld/u_auth/index_all.htm}}</ref> [[پھالیہ]] میں 22 دسمبر 1906ء کو پیدا ہوئے۔ [[وزیر آباد]] میں ابتدائی تعلیم مکمل کرنے کے بعد انہوں نے گورنمنٹ کالج لاہور میں داخلہ لیا۔ 1931ء تا 1937ء تک انہوں نے بطور صحافی کام کیا۔ پہلے انہوں نے لاہور کے ماہانہ ادبی جریدے نیرنگِ خیال کے لیے جائنٹ ایڈیٹر کا کام اور پھر اس کے مدیر بنے۔<ref>{{cite web |url=http://www.sajjanlahore.org/corners/zim/lastman/part1/chelseaoflahore.htm |title=Sajjan Archives – Forum |publisher=Sajjanlahore.org |date= |accessdate=12 February 2012 |archiveurl=https://web.archive.org/web/20181226044235/http://www.sajjanlahore.org/corners/zim/lastman/part1/chelseaoflahore.htm%20 |archivedate=2018-12-26 |url-status=live }}</ref> اسی دوران وہ لاہور کے ہفتہ وار آریہ گزیٹ کے غیر علانیہ مدیر بھی رہے۔ بعد ازاں جنوری 1936ء تا جون 1936ء تک انہوں نے لاہور کے روزنامہ بھارت ماتا کے نائب مدیر کا کام کیا۔<ref>{{cite web |url=http://www.dailytimes.com.pk/default.asp?page=2007\02\04\story_4-2-2007_pg7_27 |title=Leading News Resource of Pakistan |publisher=Daily Times |date=4 February 2007 |accessdate=9 August 2012 |archiveurl=https://web.archive.org/web/20181226044330/https://dailytimes.com.pk/page/2007/ |archivedate=2018-12-26 |url-status=live }}</ref> 1939 تا 1965 تک انھوں نے انڈین فارن سروس میں شمولیت اختیار کیے رکھی جس سے انھیں ایشیا، مشرقِ وسطیٰ اور یورپ کی سیر کا موقع ملا اور وہاں کی لائبریریوں، عجائب گھروں اور آرکائیوز میں محفوظ مشرقی متن اور قلمی نسخوں کا بذاتِ خود مطالعہ کیا۔
 
1965ء میں گورنمنٹ ملازمت سے سبکدوش ہو کر انھوں نے انڈین کی نیشنل اکیڈمی آف لیٹرز، ساہتیہ اکیڈمی [[نئی دہلی]] میں شمولیت اختیار کر لی۔ اس کی ذمہ داریوں میں اردو سیکشن تھا اور مولانا ابوالکلام آزاد کے مکمل کام کی تدوین تھی۔<ref>{{cite web |url=http://tesla.websitewelcome.com/~sahit/old_version/bklst25.htm#anchor1142602 |title=Booklist-Urdu |publisher=Tesla.websitewelcome.com |date= |accessdate=12 February 2012 |archiveurl=https://web.archive.org/web/20181226044323/http://tesla.websitewelcome.com/404.html#anchor1142602 |archivedate=2018-12-26 |url-status=livedead }}</ref> جنوری 1967 میں انہوں نے اپنا سہ ماہی ادبی تنقیدی رسالہ تحریر شروع کیا اور اس کے مدیر کے طور پر دہلی کی علمی مجلس سے بھی وابستہ رہے۔ علمی مجلس اردو کے نوجوان محققین اور لکھاریوں پر مشتمل ہے۔ مرتے دم تک مالک رام بکثرت لکھتے رہے۔
اپنی وفات سے کچھ قبل انہوں نے اپنی پوری لائبریری جامعہ ہمدرد یونیورسٹی لائبریری، دہلی کو عطیہ کر دی۔ لائبریری میں ان کی کتب کو مالک رام مجموعے کے نام سے رکھا گیا ہے۔<ref>http://www.jamiahamdard.ac.in/LibrayInformationSystem/one6.html</ref> ان کی وفات 86 سال کی عمر میں 16 اپریل 1993 کو نئی دہلی میں ہوئی۔
 
سطر 26:
مالک رام نے اپنی زندگی کا بڑا حصہ [[مرزا اسد اللہ خان غالب]] کے مطالعے میں گزارا۔ انہیں غالب کے نام سے جانا جاتا ہے۔ انہیں [[اردو ادب]] سے بالعموم اور مرزا غالب سے بالخصوص لگاؤ تھا۔ انہوں نے اردو اور فارسی میں غالب کے زیادہ تر کلام کی تدوین کی اور حاشیے بھی لکھے۔ ان میں سبدِ چین، دیوانِ غالب، گلِ رعنا اور خطوطِ غالب شامل ہیں۔
 
1938ءمیں انہوں نے غالب پر اپنے کام کو چھپوایا تو اس وقت ان کی عمر 31 سال تھی۔ اس کتاب نے اردو ناول نگار، افسانہ نگار اور ناقد کوثر چاندپوری (1904ء– 1990ء) کو جہانِ غالب کو غالب کے کردار کے اس پہلو پر لکھا۔<ref>{{cite web |url=http://www.urducouncil.nic.in/urdu_wrld/u_auth/index_k.htm |title=National Council for Promotion of Urdu Language |publisher=Urducouncil.nic.in |date= |accessdate=9 August 2012 |archiveurl=https://web.archive.org/web/20181226044300/http://www.urducouncil.nic.in/urdu_wrld/u_auth/index_k.htm%20 |archivedate=2018-12-26 |url-status=livedead }}</ref> ذکرِ غالب کتاب میں مالک رام نے غالب پر اپنی مہارت کا لوہا منوا لیا۔ یہ کتاب مالک رام کی زندگی میں پانچ مرتبہ چھپی۔ جامع تدوین کے بعد پانچویں ایڈیشن کو 1976ء میں شائع کیا گیا اور غالب پر تحقیقی اعتبار سے اسے سند مانا گیا ہے۔<ref>{{cite web |author=G. C. Naranga1 |url=http://journals.cambridge.org/action/displayAbstract?fromPage=online&aid=7146040 |title=Cambridge Journals Online – Abstract |publisher=Journals.cambridge.org |date=23 March 2011 |accessdate=9 August 2012 |archiveurl=https://web.archive.org/web/20181226044353/https://www.cambridge.org/core/journals/journal-of-asian-studies/article/ghalib-17971869-vol-i-life-and-letters-translated-and-edited-by-ralph-russell-and-khurshidul-islam-cambridge-harvard-university-press-1969-404-pp-chronology-notes-bibliography-index-850/12C487F36C80380C3BFBDB770AFAF0CF |archivedate=2018-12-26 |url-status=live }}</ref> تعلیمی دنیا میں مالک رام کو محض ایک تخلیق نے لازوال بنا دیا تھا۔<ref name="openlibrary3">{{cite web |author=Various Authors |url=https://openlibrary.org/works/OL16490792W/Malik_Ram |title=Malik Ram |publisher=Open Library |date= |accessdate=9 August 2012 |archiveurl=https://web.archive.org/web/20181226044256/https://openlibrary.org/works/OL16490792W/Malik_Ram |archivedate=2018-12-26 |url-status=live }}</ref> ابھی چھٹے ایڈیشن پر کام جاری تھا کہ زندگی نے مہلت نہ دی۔
 
مالک رام کی تصنیف Mirza Ghalib پہلی بار 1968ء میں نیشنل بک ٹرسٹ، انڈیا نے چھاپی اور اس کے بعد سے باقاعدگی سے چھاپا جا رہا ہے۔ اس کا اردو ترجمہ محمد اسماعیل پانی پتی نے پاکستان میں کیا ہے۔
سطر 40:
 
=== مولانا آزاد ===
1965ء میں حکومت نوکری سے فارغ خطی کے بعد انہوں نے نئی دہلی میں مستقل رہائش اختیار کر لی اور ساہتیہ اکیڈمی میں شمولیت اختیا رکر لی جہاں تین سال کے دوران انہوں نے مولانا ابولکلام آزاد کے خطوط، تقاریر اور ادبی کاموں کے علاوہ مولانا کے چار جلدوں پر مشتمل قرآن کے ترجمے کی تدوین بھی کی۔ یہ کام ساہتیہ اکیڈمی نے چھاپے اور مالک رام کی وفات کے بعد بھی بہت بار شائع ہوئے ہیں۔<ref>{{cite web |url=http://sahitya-akademi.gov.in/sahitya-akademi/publications/publication.jsp#collected |title=:: SAHITYA : Publications :: |publisher=Sahitya-akademi.gov.in |date= |accessdate=9 August 2012 |archiveurl=https://web.archive.org/web/20190106133620/http://sahitya-akademi.gov.in/sahitya-akademi/publications/publication.jsp#collected |archivedate=2019-01-06 |url-status=livedead }}</ref>
 
مالک رام نے مرزا غالب پر گہرائی میں تحقیقی مطالعہ شروع کیا۔ اپنے آخری برسوں میں انہوں نے مولانا آزاد کے اردو اور عربی کام پر بھی اسی [[عرق ریزی]] سے کام کیا۔ اب مالک رام کو مولانا آزاد پر بھی سند مانا جاتا ہے اور ان کی کتاب ‘کچھ مولانا آزاد کے بارے میں‘ مولانا کی حیات اور اور ان کے تخلیقی کام پر تھی اور 1989 میں شائع ہوئی۔ اس میدان میں تحقیق کرنے والے طلبہ کے لیے اس کتاب کا پڑھنا لازمی قرار دیا جاتا ہے۔<ref>http://su.digitaluniversity.ac/WebFiles/Urdu%20Ph.D.%20Course%20work%20%20Syllabus%20P-II,%20III%20&%20IV.pdf</ref>
سطر 93:
 
== علمی رفاقت ==
مصر میں اسکندریہ میں مالک رام نے 1939 تا 1955 کل پندرہ سال گزارے۔ یہاں وہ YMCA کی مینیجنگ کمیٹی کے ارکان رہے اور شہر دوسری جنگِ عظیم کے دوران بالخصوص ادبی سرگرمیوں کو زندہ رکھا۔<ref>{{cite web |url=http://www.aurora.edu/alumni/alumni-resources/past-awards.html#distinguished |title=Aurora University – Home Page |publisher=Aurora.edu |date= |accessdate=9 August 2012 |archiveurl=https://web.archive.org/web/20181226044334/https://aurora.edu/alumni/alumni-resources/past-awards.html#distinguished |archivedate=2018-12-26 |url-status=livedead }}</ref> مالک رام نے اسکندریہ کے وائی ایم سی اے میں مذہبی امور سے متعلق سیمناروں میں ‘اسلام میں عورت کا مقام‘ پر کئی لیکچر دیے۔
 
انہی لیکچروں کو اپنی کتاب ‘عورت اور اسلامی تعلیم‘ میں جمع کیا ہے۔<ref>[https://openlibrary.org/works/OL16230845W/Malik_Ram_Felicitation_Volume (p.12)]</ref>
سطر 105:
1973 سے 1982 تک وہ ساہتیہ اکیڈمی جنرل کونسل اور ایگزیکٹو کمیٹی کے ارکان رہے۔ 1977 میں انہیں جامعہ اردو، علی گڑھ کا پرو چانسلر مقرر کیا گیا اور وہ اس کی جنرل کونسل کے رکن پہلے سے ہی تھے۔<ref>{{cite web |url=http://jamiaurdualigarh.com/ |title=Welcome to Jamia Urdu, Aligarh |publisher=Jamiaurdualigarh.com |date= |accessdate=9 August 2012 |archiveurl=https://web.archive.org/web/20181226044252/http://www.jamiaurdualigarh.com/ |archivedate=2018-12-26 |url-status=live }}</ref> 1986 میں انہوں نے کورٹ آف علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے رکن کے طور پر فرائض سر انجام دیے تھے۔
 
مالک رام ہمیشہ سے نئی دہلی میں غالب سے منسوب دو مشہور اداروں کے ساتھ شامل رہے جن کے نام غالب انسٹی ٹیوٹ<ref>{{cite web|url=http://www.ghalibinstitute.com/about.htm |title=Ghalib Institute |publisher=Ghalib Institute |date= |accessdate=9 August 2012}}</ref> اور غالب اکیڈمی ہیں۔<ref>ghalib academy: http://www.indiaprofile.com/religion-culture/ghalibacademy.htm</ref> غالب اکیڈمی کو 1969 میں حکیم عبد الحمید نے قائم کیا<ref>{{cite web |url=http://www.hamdard.com.bd/profile/about-hamdard/152 |title=Hakim Abdul Hameed |publisher=Hamdard.com.bd |date=14 August 2011 |accessdate=9 August 2012 |archiveurl=https://web.archive.org/web/20190106133604/https://hamdard.com.bd/profile/about-hamdard/152 |archivedate=2019-01-06 |url-status=livedead }}</ref> جو جامعہ ہمدرد کے بانی ہیں۔ مالک رام نے اس ادارے کے امور میں اہم کردار ادا کیا اور زیادہ تر پسِ منظر میں رہ کر اپنے فرائض سر انجام دیتے رہے جو اس ادارے کے قیام سے مالک رام کی اپنی وفات تک کے عرصے پر محیط تھے۔ اکیڈمی نے ان کے بارے ‘غالب شناس مالک رام‘ کے نام سے ان کی وفات کے کئی سال بعد ایک کتاب شائع کی۔<ref>{{cite web |url=http://www.ghalibacademy.org/frame.htm |title=Ghalib Academy |publisher=Ghalib Academy |date= |accessdate=9 August 2012 |archiveurl=https://web.archive.org/web/20181226044232/http://www.ghalibacademy.org/frame.htm%20 |archivedate=2018-12-26 |url-status=dead }}</ref>
 
1983 سے 1987 تک مالک رام طویل عرصے سے قائم اور موقر ‘انجمن ترقی اردو (ہند) کے صدر بھی رہے۔ یہ آزاد ادارہ جس کی ملک بھر میں 600 سے زائد شاخیں ہیں، خود مختار ہے اور اردو کی ترقی کے لیے کام کرتا ہے۔<ref>{{cite web|url=http://www.anjumantaraqqiurduhind.org/dignitaries.htm |title=Anjuman Taraqqi Urdu (Hind) |publisher=Anjumantaraqqiurduhind.org |date= |accessdate=9 August 2012}}</ref>