"داود ظاہری" کے نسخوں کے درمیان فرق

حذف شدہ مندرجات اضافہ شدہ مندرجات
5 مآخذ کو بحال کرکے 0 پر مردہ ربط کا ٹیگ لگایا گیا) #IABot (v2.0.7
سطر 8:
{{اہل سنت}}
'''داود بن علی بن خلف ظاہری''' (201ھ –
270ھ — 815ء – 883/4ء)<ref>مناع القطان، تاریخ التشریع الاسلامی، ص: 181، 182</ref> [[اسلامی عہد زریں|تاریخ اسلام کے سنہری دور]] کے ایک عالم و محقق جو [[تفسیریات]]، [[علم اسماء الرجال]] اور [[تاریخ نگاری]] جیسے اہم علمی و تحقیقی شعبوں کے متخصص تھے۔ داود ظاہری کا شمار اہل سنت کے علمائے مجتہدین میں ہوتا ہے۔ داود ظاہری کی شہرت کی اصل وجہ [[فقہی مذاہب]] میں ایک نئے منہج یا مسلک یعنی [[فقہ ظاہری]] کی تشکیل ہے۔ اسے ظاہری کہنے کی وجہ یہ تھی کہ وہ [[قرآن]] و [[سنت]] کے ظاہر ہی کو قابل اعتبار خیال کرتے اور ان میں کسی قسم کی [[تاویل]]، رائے یا [[قیاس]] کو روا نہیں سمجھتے تھے۔ تاریخ اسلام میں داود ظاہری پہلے عالم ہیں جنہوں نے سب سے پہلے علانیہ اس مسلک کو اختیار کیا۔ فقہ ظاہری کو [[اہل سنت]] کا پانچواں فقہی مکتب فکر بھی سمجھا جاتا ہے تاہم انہوں نے کبھی خود کو اس حیثیت سے پیش کیا اور نہ ان کے پیروکاروں نے اپنے مکتب فکر کے بانی کو اس نظر سے دیکھا۔<ref name=schacht>Joseph Schacht, [http://referenceworks.brillonline.com/entries/encyclopaedia-of-islam-2/dawud-b-ali-b-khalaf-SIM_1755 Dāwūd b. ʿAlī b. Khalaf]. [[دائرۃ المعارف الاسلامیہ|Encyclopaedia of Islam]], Second Edition. Brill Online, 2013. Reference. 9 January 2013</ref><ref name=phil>Mohammad Sharif Khan and Mohammad Anwar Saleem, ''Muslim Philosophy And Philosophers'', pg. 34. [[نئی دہلی|New Delhi]]: Ashish Publishing House, 1994.</ref> گوکہ انہیں متنازع شخصیت سمجھا جاتا ہے لیکن مورخین لکھتے ہیں کہ داؤد ظاہری کو ان کے عہد میں خاصی مقبولیت حاصل تھی،<ref name="farooq">Dr. Mohammad Omar Farooq, [http://www.globalwebpost.com/farooqm/writings/islamic/r-i-consensus.html The Riba-Interest Equivalence] {{wayback|url=http://www.globalwebpost.com/farooqm/writings/islamic/r-i-consensus.html |date=20120312172413 }}, June 2006</ref> حتیٰ کہ بعض مورخین نے انہیں "محقق دوراں" کے لقب سے بھی یاد کیا ہے۔<ref name="siyar">[[الذہبی]]، {{ws|[[:ar:s:سير أعلام النبلاء|''سیر اَعلام النبلاء''']]|}}، ج 13 اندراج 55، ص 97-108</ref> [[ابن حزم اندلسی]] لکھتے ہیں: وہ اصفہانی کے لقب سے معروف تھے کیونکہ ان کی والدہ کا وطن [[اصفہان]] تھا نیز ان کے والد [[حنفی]] تھے۔<ref name="siyar"/>
 
== حالات زندگی ==
سطر 61:
گوکہ داود ظاہری نے احمد بن حنبل سے علم حدیث حاصل کیا لیکن [[قرآن]] کی ماہیت پر ان کا اپنے استاد سے سخت اختلاف تھا۔ داود ظاہری کے نزدیک قرآن ایک "محدث" یعنی حال میں وقوع پزیر ہونے والی شے ہے۔<ref name=brill182/><ref name="fatawa1">[[ابن تیمیہ]]، ''[[:ar:مجموع الفتاوى (كتاب)|مجموع الفتاوی]]''، ج 5، ص 532</ref><ref name="fatawa2">[[ابن تیمیہ]]، ''[[:ar:مجموع الفتاوى (كتاب)|مجموع الفتاوی]]''، ج 6، ص 160-161</ref> احمد بن حنبل کو اس موقف سے سخت اختلاف تھا۔ قبل ازیں ظاہری کا شافعی کے معاملے میں اسحاق بن راہویہ سے اختلاف ہوا، اس موقع پر جب احمد بن حنبل نے انہیں شافعی کا دفاع کرتے دیکھا تو انہوں نے ان تمام افراد سے اپنے تعلقات منقطع کر لیے جو ظاہری کے ساتھی تھے یا مذہبی امور میں ان سے رجوع کرتے تھے۔<ref name=mel182/> نیز قرآن کے متعلق ظاہری کے اس بیان کے سلسلے میں ایک افواہ بھی گشت کرنے لگی جس نے جلتی آگ میں تیل کا کام کیا اور اختلافات کی خلیج مزید وسیع ہو گئی۔ شامی محدث ابن تیمیہ لکھتے ہیں کہ یہ تنازع اصلاً محض تعبیری تھے جو داود ظاہری (جن کا کہنا تھا کہ خدا کا کوئی ہمسر نہیں)، [[جہمیہ]] اور [[معتزلہ]] (جن کا اعتقاد تھا کہ قرآن مخلوق ہے) کے بیان سے پیدا ہوئے۔<ref name="fatawa1"/>
 
نیز داود ظاہری، ابن حنبل، شافعی، اسحاق بن راہویہ، طبری، [[مالک بن انس]]، [[سفیان ثوری]]، [[عبد الرحمن اوزاعی]]، ابو حنیفہ، [[ابن خزیمہ]]، [[عبد اللہ ابن مبارک]]، [[عبد الرحمن دارمی|دارمی]] اور [[محمد بن اسماعیل بخاری|بخاری]] - جیسا کہ ابن تیمیہ نے اپنے عہد تک ائمہ اسلام کے نام شمار کرائے ہیں<ref name="fatawa1"/> - ان تمام حضرات کا اس امر پر اتفاق ہے کہ قرآن مخلوق نہیں ہے<ref>[[ابن تیمیہ]]، [[:ar:منهاج السنة النبوية|منہاج السنہ النبویہ]]، ج 2، ص 106-107</ref> لیکن اس وقت ایک تعبیری غلط فہمی رونما ہوئی جب داود ظاہری، بخاری اور [[مسلم بن الحجاج]] نے [[اللہ]] اور قرآن کے درمیان میں امتیاز برتنے کے لیے قرآن کے حق میں "حادث" کی تعبیر استعمال کی۔ اس کے برخلاف عام مسلمانوں اور بیشتر ائمہ اسلام کا موقف یہ تھا کہ قرآن خدا کا بلا استعارہ حقیقی کلام ہے جبکہ مذکورہ تین حضرات کا کہنا تھا کہ خدا کا کلام اس کی ایک صفت ہے۔<ref name="fatawa3">[[ابن تیمیہ]]، ''[[:ar:مجموع الفتاوى (كتاب)|مجموع الفتاوی]]''، ج 12، ص 177</ref><ref>{{Cite web|url=http://www.asharis.com/creed/articles/nubev-the-jahmite-asharis-the-quran-present-with-us-is-muhdath-meaning-created.cfm|title=The Jahmite Ash'aris: The Qur'an Present With Us is 'Muhdath' Meaning (To Them) Created – Ibn Battah's (d. 387H) Refutation of the Jahmites of Old With A Clarification of the Doubts of Contemporary Jahmite Ash'aris Regarding What is 'Muhdath'|access-date=2018-06-18|archive-date=2010-10-24|archive-url=https://web.archive.org/web/20101024210739/http://www.asharis.com/creed/articles/nubev-the-jahmite-asharis-the-quran-present-with-us-is-muhdath-meaning-created.cfm|url-status=dead}}</ref><ref>[[محمد ناصر الدین البانی]]، مختصر العلو للعلی العظیم للذہبی، ص 211</ref>
 
موجودہ دور کے بعض علما کا موقف یہ ہے کہ داود ظاہری کے متعلق حدوث قرآن کی روایت میں ضعف ملتا ہے اس لیے غالب گمان یہی ہے کہ انہوں نے قرآن کے متعلق ایسی بات کبھی نہیں کی اور نہ ان کا یہ اعتقاد رہا۔<ref name="omar"/> بلکہ درحقیقت داود ظاہری کی جانب سے [[تقلید (اصطلاح)|تقلید]] اور [[قیاس]] (اہل سنت کے دوسرے ممتاز مکاتب فکر کے اہم ستون) کے انکار نے ان سنی مکاتب فکر کے منتسبین کو اس امر پر برانگیختہ کیا کہ وہ ظاہری کی جانب اس غلط عقیدے کو منسوب کریں تاکہ عام مسلمان ان سے اور ان کے مکتب فکر سے بدگمان ہو کر دور ہو جائیں۔<ref name="arif">Dr. Arif Khalil Abu Ubaida, Imam Dawud al-Zahiri and his Influence in Islamic Jurisprudence, pg.56</ref> بقول ابو عبیدہ، داود ظاہری اور ان کے تلامذہ نے تو [[معتزلہ]] اور قرآن کے بابت ان کے عقیدے کی جس شد و مد سے مخالفت کی تھی ویسی احمد بن حنبل نے بھی نہیں کی۔ اس طرح کے عقائد کی تردید میں انہوں نے تحریری رد بھی شائع کیے جن میں انتہائی درشت زبان استعمال کی گئی تھی۔<ref name="arif"/><ref>[[ابن ندیم|ابن الندیم]]، [[الفہرست|کتاب الفہرست]]، ص 81</ref>
سطر 69:
 
=== زنانہ لباس ===
[[شوکانی]] نے لکھا ہے کہ داود ظاہری مسلمان خواتین کے لیے [[نقاب]] کو [[فرض]] کی بجائے [[مستحب]] خیال کرتے تھے، ان کا موقف یہ تھا کہ مسلمان خواتین چہرہ کھول سکتی ہیں البتہ بدن کے دوسرے اعضا ڈھکے رہنا ضروری ہیں۔<ref name="webb">[[يوسف القرضاوی|Yusuf al-Qaradawi]]، [http://www.suhaibwebb.com/ummah/women/hijab-niqab/is-wearing-the-niqab-obligatory-for-women-part-1-of-2-by-yusuf-al-qaraḍawi-translated-by-u-ʿabdullah/ Is Wearing the Niqāb Obligatory for Women?] {{wayback|url=http://www.suhaibwebb.com/ummah/women/hijab-niqab/is-wearing-the-niqab-obligatory-for-women-part-1-of-2-by-yusuf-al-qara%E1%B8%8Dawi-translated-by-u-%CA%BFabdullah/ |date=20140709012848 }}، SuhaibWebb.com</ref> ابو حنیفہ اور احمد بن حنبل کا بھی یہی موقف ہے۔<ref name="webb"/>
 
=== سفر ===
[[رمضان]] کے مہینے میں اگر کوئی مسلمان [[روزے]] کی حالت میں اپنا سفر شروع کرے تو ظاہری کے نزدیک وہ اپنا اس دن کا روزہ توڑ سکتا ہے۔ یہی موقف ابن راہویہ اور ابن حنبل کا بھی ہے۔<ref>[[سلمان العودہ|Salman al-Ouda]]، [http://en.islamtoday.net/artshow-410-3754.htm Fasting for Someone Intending Travel] {{wayback|url=http://en.islamtoday.net/artshow-410-3754.htm |date=20120313180322 }}، Islam Today, Sat, 08/21/2010</ref> ظاہری کے اس موقف کی دلیل قرآن کی وہ آیت ہے جس میں مسافر کو روزہ نہ رکھنے کی رخصت اور سفر ختم ہونے کے بعد ان کی قضا کر لینے کی ہدایت موجود ہے۔<ref>[[قرآن]]، {{Cite quran|2|185|s=ns|b=n}}</ref> البتہ ظاہری کے موقف میں مزید یہ شق بھی قابل ذکر ہے کہ اگر کسی مسلمان مسافر نے دوران میں سفر میں روزے رکھے تب بھی سفر سے واپسی پر ان روزوں کی قضا لازم ہوگی کیونکہ مذکورہ آیت میں روزہ نہ رکھنے کی ہدایت محض رخصت نہیں بلکہ حکم خداوندی ہے جس پر عمل کرنا ضروری ہے۔<ref name="omar"/>
 
دوران میں سفر میں بیشتر مسلمان نمازوں میں قصر بھی کرتے ہیں۔ فقہا کے درمیان میں "سفر شرعی" (جس سفر سے روزہ چھوڑنے کی رخصت اور نمازیں قصر کرنے کی اجازت حاصل ہو جائے) کی مدت اور مسافت موضوع بحث رہے ہیں۔ اس مسئلے میں ظاہری کا موقف یہ ہے کہ شریعت میں مدت اور مسافت سے قطع نظر ہر قسم کے سفر میں نمازیں قصر کرنے کی اجازت دی گئی ہے۔<ref name="omar"/>
سطر 90:
 
=== شیعی نقطہ نظر ===
[[اہل تشیع]] کے یہاں ظاہری اور ان کے مکتب فکر پر زیادہ نہیں لکھا گیا۔ سنہ 1970ء کی دہائی میں ایک [[اثنا عشری]] عالم عبد الکریم مشتاق نے داود ظاہری پر الزام لگایا کہ وہ تشبیہ باری کے قائل تھے اور اپنے اس دعوے کا ماخذ سنی مورخ شہرستانی کی [[کتاب الملل و النحل]] کو بتایا۔<ref>Abdul Kareem Mushtaq, Shi'a Usool al-Deen, [http://www.answering-ansar.org/fiqh/usool_al_deen/en/chap3.php Tauheed – Belief in the Oneness of Allah] {{wayback|url=http://www.answering-ansar.org/fiqh/usool_al_deen/en/chap3.php |date=20101009005435 }}، Answering Ansar</ref> جبکہ حقیقت میں شہرستانی نے اس کے برعکس یہ لکھا ہے کہ ظاہری ایسا عقیدہ نہیں رکھتے تھے۔<ref>Sunni Defense, [http://www.sunnidefense.com/exp/content/15-accusing-dāwūd-al-žāhirī Accusing Dāwūd al-Žāhirī]، Lies of Answering Ansar, 27 ستمبر 2009</ref> شہرستانی کے الفاظ ملاحظہ فرمائیں:<ref>[[عبد الکریم شہرستانی|الشہرستانی]]، [[کتاب الملل و النحل|الملل و النحل]]، ج 1، ص 104</ref>
{{اقتباس|سو احمد بن حنبل، داؤد بن علی اصفہانی اور ائمہ سلف کی ایک جماعت نے اپنے سے متقدم سلف اصحاب حدیث مثلاً مالک بن انس اور [[مقاتل بن سلیمان]] کے طریقے کو اپنائے رکھا اور اسی پر قائم رہے۔ ان لوگوں نے سلامتی کی روش اختیار کی اور کہا: "کتاب و سنت میں جو کچھ آیا ہے ہم اس پر ایمان لاتے ہیں اور یہ بات قطعی طور پر جاننے کے بعد کہ اللہ عزوجل مخلوقات میں سے کسی چیز کے مشابہ نہیں ہے اور وہ تمام چیزیں جو وہم میں آتی ہیں اللہ ان کا خالق و قادر و مقدر ہے، ہم تاویل سے کسی طرح کا تعرض نہیں کرتے۔ آیات و اخبار تشبیہ باری میں ہم کسی طرح کی تاویل کے قائل نہیں ہیں"۔ یہ لوگ تاویل سے اس حد تک احتراز کرتے تھے کہ ان کا قول ہے کہ: "جس شخص نے اللہ تعالیٰ کے اس ارشاد کی تلاوت کرتے وقت کہ {{ع}}خلقت بيدي{{ڑ}} (میں نے اپنے دونوں ہاتھوں سے پیدا کیا) اپنا ہاتھ ہلایا، یا یہ روایت کے وقت کہ {{ع}}قلب المومن بين إصبعين من أصابع الرحمن{{ڑ}} (یعنی مومن کا قلب اللہ کی دو انگلیوں کے درمیان میں ہے) اپنی دو انگلیوں سے اشارہ کیا، تو اس کا ہاتھ کاٹنا اور اس کی دو انگلیوں کا اکھاڑ دینا واجب و ضروری ہے"۔}}
ظاہری کی تردید میں [[اسماعیلی]] شیعوں کا نقطہ نظر زیادہ واضح معلوم ہوتا ہے۔ النعمان نے ظاہری کے بیک وقت رد قیاس اور قبول [[استدلال]] کو نشانہ تنقید بنایا ہے<ref>قاضی النعمان، ''اختلاف اَصول المذاہب''، ص 193۔</ref> اور اسی موقف کی بنا پر انہوں نے ظاہری کے فرزند اور فقہ ظاہری پر بھی تنقید کی ہے۔