"ابراہیم (اسلام)" کے نسخوں کے درمیان فرق

حذف شدہ مندرجات اضافہ شدہ مندرجات
1 مآخذ کو بحال کرکے 2 پر مردہ ربط کا ٹیگ لگایا گیا) #IABot (v2.0.8
سطر 168:
<code>'''''<small>اور پکار دے لوگوں میں حج کے واسطے کہ آئیں تیری طرف پیروں چل کر اور سوار ہو کر دبلے دبلے اونٹوں پر چلے آئیں راہوں دور سےتاکہ پہنچیں اپنے فائدہ کی جگہوں پر اور پڑھیں اللہ کا نام کی دن جو معلوم ہیں ذبح پر چوپایوں مواشی کے جو اللہ نے دیے ہیں اُنکو سو کھاؤ اُس میں سے اور کِھلاؤ برے حال کے محتاج کوپھر چاہیے کہ ختم کر دیں اپنا میل کچیل اور پوری کریں اپنی منتیں اور طواف کریں اس قدیم گھر کا</small>'''''</code>
 
امام [[ابن کثیر]] رحمۃ اللہ علیہ اس آیت کی تفسیر میں فرماتے ہیں: یعنی آپ لوگوں کے درمیان منادی کرکے انہیں اس گھر کی طرف حج کرنے کی دعوت دیجئے جس کی تعمیر کا ہم نے آپ کو حکم دیا تھا، کہتے ہیں کہ یہ حکم سن کر حضرت ابراہیم علیہ السلام نے کہا: میں کیسے انہیں یہ پیغام پہنچا سکتا ہوں جب کہ میری آواز ان تک نہیں پہنچ سکتی؟ تو اللہ تعالی نے فرمایا: تم آواز لگاؤ؛ پیغام پہنچانا ہمارا کام ہے، لہذا وہ اپنے مقام (مقام ابراہیم) پر کھڑے ہوئے اور ایک روایت کے مطابق کسی پتھر پر کھڑے ہوئے، ایک دوسری روایت کے مطابق صفا پر کھڑے ہوئے، ور ایک تیسری روایت کے مطابق ابو قبیس پہاڑ پر کھڑے ہوئے، چنانچہ وہاں کھڑے ہو کر حضرت ابراہیم علیہ السلام نے آواز لگائی: اے لوگو! تمھارے رب نے اپنے لیے ایک گھر بنایا ہے سو اس کا حج کیا کرو، کہا جاتا ہے کہ یہ آواز سن کر پہاڑ جھک گئے حتی کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام کی آواز روئے زمین کے تمام گوشوں میں پہنچ گئی اور اپنی آواز کو انہوں نے باپوں کی صلب اور ماؤں کے بطن میں پوشیدہ انسانوں تک کو سنا دی، جس شے نے بھی ان کی آواز سنی اس نے ان کا جواب دیا خواہ وہ پتھر ہو، ڈھیلا ہو یا کوئی درخت ہو، اوران تمام لوگوں نے بھی ان کے جواب میں "میں حاضر ہوں یا اللہ میں حاضر ہوں" کا جملہ دہرایا تاقیامت جن کی قسمت میں اللہ نے حج کی سعادت لکھـ دی ہے۔ یہ ان مرویات کا خلاصہ ہے جو حضرت ابن عباس، مجاہد، عکرمہ، سعيد بن جبير اور متعدد علما سلف سے منقول ہیں، واللہ اعلم اور ابن جریر اور ابن ابی حاتم نے اس قصے کو بڑی تفصیل سے نقل کیا ہے-  یہاں پر ابن کثیر رحمۃ اللہ علیہ کا کلام ختم ہوتا ہے- اور حقیقت حال کا علم صرف اللہ کے پاس ہے- البتہ جہاں تک آواز لگانے کا مسئلہ ہے تو اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ ایسا ہوا تھا<ref name=":0">تفسیر ابن کثیر جلد سوم صفحہ ٢١٧</ref><ref>[{{Cite web |url=http://alifta.com/fatawa/fatawaDetails.aspx?languagename=ur&BookID=3&View=Page&PageNo=1&PageID=3813 |title=دائمی کمیٹی کے فتوے<!-- خودکار تخلیق شدہ عنوان -->] |access-date=2018-12-15 |archive-date=2020-09-20 |archive-url=https://web.archive.org/web/20200920135734/http://alifta.com/fatawa/fatawaDetails.aspx?languagename=ur&BookID=3&View=Page&PageNo=1&PageID=3813 |url-status=dead }}</ref>
 
<br/>
سطر 197:
اور ہمارے فرشتے ابراہیم کے پاس بشارت لے کر آئے تو سلام کہا۔ انہوں نے بھی (جواب میں) سلام کہا۔ ابھی کچھ وقفہ نہیں ہوا تھا کہ (ابراہیم) ایک بھنا ہوا بچھڑا لے آئے جب دیکھا کہ ان کے ہاتھ کھانے کی طرف نہیں جاتے (یعنی وہ کھانا نہیں کھاتے) تو ان کو اجنبی سمجھ کر دل میں خوف کیا۔ (فرشتوں نے) کہا کہ خوف نہ کیجیے، ہم قوم لوط کی طرف (ان کے ہلاک کرنے کو) بھیجے گئے ہیں اور ابراہیم کی بیوی (جو پاس) کھڑی تھی، ہنس پڑی تو ہم نے اس کو اسحاق کی اور اسحاق کے بعد یعقوب کی خوشخبری دی-
 
یہ واقعہ سورۃ ہود اور سورۃ حجر میں بھی گزر چکا ہے یہ مہمان فرشتے تھے جو بہ شکل انسان آئے تھے جنہیں اللہ نے عزت و شرافت دے رکھی ہے حضرت [[امام احمد بن حنبل]] اور دیگر علمائے کرام کی ایک جماعت کہتی ہے کہ مہمان کی ضیافت کرنا واجب ہے حدیث میں بھی یہ آیا ہے اور قرآن کریم کے ظاہری الفاظ بھی یہی ہیں ۔ انہوں نے سلام کیا جس کا جواب خلیل اللہ نے بڑھا کر دیا اس کا ثبوت دوسرے سلام پر دو پیش کا ہونا ہے ۔ اور یہی فرمان باری تعالیٰ ہے فرماتا ہے ( وَاِذَا حُيِّيْتُمْ بِتَحِيَّةٍ فَحَــيُّوْا بِاَحْسَنَ مِنْھَآ اَوْ رُدُّوْھَا ۭ اِنَّ اللّٰهَ كَانَ عَلٰي كُلِّ شَيْءٍ حَسِيْبًا 86؀) 4- النسآء:86) یعنی جب کوئی تمہیں سلام کرے تو تم اس سے بہتر جواب دو یا کم ازکم اتنا ہی ۔ پس خلیل اللہ نے افضل صورت کو اختیار کیا حضرت ابراہیم چونکہ اس سے ناواقف تھے کہ یہ دراصل فرشتے ہیں اس لیے کہا کہ یہ لوگ تو ناآشنا سا ہیں ۔ یہ فرشتے حضرت جبرائیل حضرت میکائیل اور حضرت اسرافیل علیہم السلام تھے ۔ جو خوبصورت نوجوان انسانوں کی شکل میں آئے تھے ان کے چہروں پر ہیبت و جلال تھا حضرت ابراہیم اب ان کے لیے کھانے کی تیاری میں مصروف ہو گئے اور چپ چاپ بہت جلد اپنے گھر والوں کی طرف گئے اور ذرا سی دیر میں تیار بچھڑے کا گوشت بھنا بھنایا ہوا لے آئے اور ان کے سامنے رکھ دیا اور فرمایا آپ کھاتے کیوں نہیں ؟ اس سے ضیافت کے آداب معلوم ہوئے کہ مہمان سے پوچھے بغیر ہی ان پر شروع سے احسان رکھنے سے پہلے آپ چپ چاپ انہیں خبر کیے بغیر ہی چلے گئے اور بہ عجلت بہتر سے بہتر جو چیز پائی اسے تیار کر کے لے آئے ۔ تیار فربہ کم عمر بچھڑے کا بھنا ہوا گوشت لے آئے اور کہیں اور رکھ کر مہمان کی کھینچ تان نہ کی بلکہ ان کے سامنے ان کے پاس لا کر رکھا ۔ پھر انہیں یوں نہیں کہتے کہ کھاؤ کیونکہ اس میں بھی ایک حکم پایا جاتا ہے بلکہ نہایت تواضع اور پیار سے فرماتے ہیں آپ تناول فرمانا شروع کیوں نہیں کرتے ؟ جیسے کوئی شخص کسی سے کہے کہ اگر آپ فضل و کرم احسان و سلوک کرنا چاہیں تو کیجئے پھر ارشاد ہوتا ہے کہ خلیل اللہ اپنے دل میں ان سے خوفزدہ ہو گئے جیسے کہ اور آیت میں ہے آیت ( فَلَمَّا رَآٰ اَيْدِيَهُمْ لَا تَصِلُ اِلَيْهِ نَكِرَهُمْ وَاَوْجَسَ مِنْهُمْ خِيْفَةً ۭ قَالُوْا لَا تَخَفْ اِنَّآ اُرْسِلْنَآ اِلٰي قَوْمِ لُوْطٍ 70؀ۭ) 11-ھود:70) ، یعنی آپ نے جب دیکھا کہ ان کے ہاتھ کھانے کی طرف بڑھتے نہیں تو دہشت زدہ ہو گئے اور دل میں خوف کھانے لگے اس پر مہمانوں نے کہا ڈرو مت ہم اللہ کے بھیجے ہوئے فرشتے ہیں جو قوم لوط کی ہلاکت کے لیے آئے ہیں آپ کی بیوی صاحبہ جو کھڑی ہوئی سن رہی تھیں وہ سن کر ہنس دیں تو فرشتوں نے انہیں خوشخبری سنائی کہ تمہارے ہاں حضرت اسحاق پیدا ہوں گے اور ان کے ہاں حضرت یعقوب اس پر بیوی صاحبہ کو تعجب ہوا اور کہا ہائے افسوس اب میرے ہاں بچہ کیسے ہوگا ؟ میں تو بڑھیا پھوس ہو گئی ہوں اور میرے شوہر بھی بالکل بوڑھے ہو گئے ۔ یہ سخت تر تعجب کی چیز ہے فرشتوں نے کہا کیا تم اللہ کے کاموں سے تعجب کرتی ہو ؟ خصوصًا تم جیسی ایسی پاک گھرانے کی عورت ؟ تم پر اللہ کی رحمتیں اور برکتیں نازل ہوں ۔ جان رکھو کہ اللہ تعالیٰ تعریفوں کے لائق اور بڑی بزرگی اور اعلیٰ شان والا ہے یہاں یہ فرمایا گیا ہے کہ بشارت حضرت ابراہیم کو دی گئی کیونکہ بچے کا ہونا دونوں کی خوشی کا موجب ہے۔ پھر فرماتا ہے یہ بشارت سن کر آپ کی اہلیہ صاحبہ کے منہ سے زور کی آواز نکل گئی اور اپنے تئیں دوہتڑ مار کر ایسی عجیب و غریب خبر کو سن کر حیرت کے ساتھ کہنے لگیں کہ جوانی میں تو میں بانجھ رہی اب میاں بیوی دونوں بوڑھے ہو گئے تو مجھے حمل ٹھہرے گا ؟ اس کے جواب میں فرشتوں نے کہا کہ یہ خوشخبری کچھ ہم اپنی طرف سے نہیں دے رہے بلکہ اللہ تعالیٰ نے ہمیں فرمایا ہے کہ ہم تمہیں یہ خبر پہنچائیں ۔ وہ حکمت والا اور علم والا ہے ۔ تم جس عزت وکرامت کے مستحق ہو وہ خوب جانتا ہے اور اس کا فرمان ہے کہ تمہارے ہاں اس عمر میں بچہ ہوگا اس کا کوئی کام حکمت سے خالی نہیں نہ اس کا کوئی فرمان حکمت سے خالی ہے ۔ <ref>[http://myonlinequran.com/tafseer.php?page=7&ipp=8&tid=15&urtrans_id=4&tafseer_id=4 Quran - الحجر - Al-Hijr - Urdu Tafseer - Urdu Tafseer Ibne-Kaseer - تفسیر ابن کثیر<!-- خودکار تخلیق شدہ عنوان -->]{{مردہ ربط|date=January 2021 |bot=InternetArchiveBot }}</ref><ref>[http://www.elmedeen.com/read-book-1180#page-499&viewer-pdf تفسیر ابن کثیر مترجم اردو جلد 2 ، صفحہ 1 - مکتبہ جبریل<!-- خودکار تخلیق شدہ عنوان -->]</ref><ref>[http://myonlinequran.com/tafseer.php?page=9&ipp=8&tid=11&urtrans_id=4&tafseer_id=4 Quran - ھود - Hud - Urdu Tafseer - Urdu Tafseer Ibne-Kaseer - تفسیر ابن کثیر<!-- خودکار تخلیق شدہ عنوان -->]{{مردہ ربط|date=January 2021 |bot=InternetArchiveBot }}</ref><ref>[http://www.elmedeen.com/read-book-1181#page-110&viewer-pdf تفسیر ابن کثیر مترجم اردو جلد 3 ، صفحہ 1 - مکتبہ جبریل<!-- خودکار تخلیق شدہ عنوان -->]</ref>
 
<br/>