"جائزہ لسانیات ہند" کے نسخوں کے درمیان فرق

حذف شدہ مندرجات اضافہ شدہ مندرجات
1 مآخذ کو بحال کرکے 0 پر مردہ ربط کا ٹیگ لگایا گیا) #IABot (v2.0.7
2 مآخذ کو بحال کرکے 0 پر مردہ ربط کا ٹیگ لگایا گیا) #IABot (v2.0.8
سطر 28:
اس سروے کےبعد 1984 میں ہندوستان میں دوسرا لسانی سروے ہوا۔ یہ سروے لینگوئج ڈویژن آف آفس آف دی رجسٹرار جنرل اینڈ سنسس کمشنر آف انڈیا کی ہدایات کے تحت ہوا۔ یہ پراجیکٹ ابھی تک جاری ہے۔ اس کے تحت 2010 کے آخر تک صرف 40 فیصد سروے مکمل ہوا ہے۔ اس سروے کے مقاصد کافی محدود ہیں۔ اس کا مقصد جارج کے بعد ہونے والی لسانی تبدیلیوں کی صورتحال کو دیکھنا ہے۔ بہت سے ماہرین لسانیات نے اس سروے پر کافی تنقید کی ہے۔ اُن کی تنقید کی وجہ  اس طریقہ کار پر ہے، جو جارج نے اپنایا تھا۔ اس طریقہ کار کی غلطیاں اب دوبارہ دوہرائی جا رہی ہیں۔ موجودہ پروجیکٹ میں بھی حکومتی اہلکاروں اور زبانوں کے مقامی استادوں کی مدد سے ڈیٹا جمع کیا جا رہا ہے۔ ،ماہرین کا کہنا ہے کہ ڈیٹا جمع کرنے کے لیے ایسے لوگ ہونے چاہیے جو اس سے متعلقہ نہ ہوں۔
بھارت کی 1991 کی مردم شماری کے مطابق گرائمر کے الگ الگ ڈھانچے(سٹرکچر) کے ساتھ ملک میں 1576 مادری زبانیں ہیں۔ 1796 زبانوں کو دیگر مادری زبانوں کی درجہ بندی میں رکھا گیا ہے۔بھارت میں بہت سے حلقے ایک مکمل اور لسانی جائزے کا مطالبہ کر رہے ہیں۔ جارج نے جو لسانی سروے کرایا تھا اس میں  غیر تربیت یافتہ عملہ استعمال کیا تھا۔ اس میں سابقہ برما یا موجودہ میانمار، سابقہ مدراس یا موجودہ چینائی اور نوابی ریاستوں حیدر آباد اور میسور کو نظر انداز کیا تھا، اس وجہ سے ایل ایس آئی میں ان ریاستوں کو کم نمائنددگی ملی۔
بھارتی حکومت نے  بھارت کے لسانی سروے کو پھیلانے اور اس میں تبدیلی کا اعلان کیا، جس کے لیے گیارہویں پانچ سالہ منصوبے (2007-2012) میں اس پراجیکٹ کے لیے 2.8 ارب روپے کی رقم مختص کی گئی<ref>[{{Cite web |url=https://www.mukaalma.com/80996/ |title=جائزۂ لسانیاتِ ہند اور مابعد۔۔۔حافظ صفوان محمد] |access-date=2019-10-20 |archive-date=2019-10-20 |archive-url=https://web.archive.org/web/20191020142508/https://www.mukaalma.com/80996/ |url-status=dead }}</ref>۔ اس منصوبے کو دو حصوں میں تقسیم کیاگیا۔ ایک حصہ تو بھارت کے نئے لسانی سروے سے متعلق تھا اور دوسرا حصہ کم بولی جانے والی چھوٹی اور خطرے سے دوچار زبانوں کے سروے کے حوالے سے تھا۔میسور میں قائم سنٹرل انسٹی ٹیوٹ آف انڈین لینگوئجز اور  ادایا نارایاناسنگھ (Udaya Narayana Singh) کی زیر ہدایت اس پراجیکٹ میں  54 یونیورسٹیوں، 2000 تفتیش کاروں (انویسٹی گیٹرز)  اور 10 ہزار ماہرین لسانیات کے ساتھ دس سال تک جاری رہنا تھا۔
2010 کے ٹائمز آف انڈیا کے ایک مضمون میں بتایا گیا کہ مندرجہ بالا پراجیکٹ ختم کر دیا گیا ہے ، اس کی بجائے ایک نیا پراجیکٹ شروع کیا گیا ہے۔ یہ سروے جارج کے ایل ایس آئی کی طرح تھا۔ اسے پیپلز لینگوئسٹک سروے آف انڈیا یا پی ایل ایس آئی کا نام دیا گیا۔ اسے بھاشا ریسرچ اینڈ پبلی کیشنز سنٹر نامی این جی او کی سرپرستی میں شروع کیا گیا۔ اس کے چیئر پرسن گنیش این ڈیوی تھے۔ یہ پراجیکٹ ہمالیائی زبانوں کے سروے سے شروع ہوگا۔ اطلاعات کے مطابق یہ سروے بھی کھٹائی میں پڑنے کا امکان ہے کیونکہ حکومت اس میں پوری طرح دلچسپی نہیں لے رہی۔