رابعہ بصری نے گوشہ نشینی اورترک دنیاکے شوق کے پیش نظر آزادی ملنے کے بعد صحراؤں کارخ کیا۔<ref>[{{Cite web |url=http://www.jaihoon.com/pearls/rabialife.htm |title=رابعہ بصری ترک دنیا ] |access-date=2008-03-04 |archive-date=2007-09-27 |archive-url=https://web.archive.org/web/20070927200002/http://www.jaihoon.com/pearls/rabialife.htm |url-status=dead }}</ref> وہ دن رات معبودِ حقیقی کی یاد میں محو ہوگئیں۔ [[خواجہ حسن بصری]]، رابعہ بصری کے مرشد تھے۔ غربت، نفی ذات اورعشقِ الٰہی اُن کے ساتھی تھے۔ اُن کی کل متاع حیات ایک ٹوٹا ہوا برتن، ایک پرانی دری اور ایک اینٹ تھی، جس سے وہ تکیہ کا کام بھی لیتی تھیں۔ وہ تمام رات عبادت و ریاضت میں گزار دیتی تھیں اور اس خوف سے نہیں سوتی تھیں کہ کہیں عشق الٰہی سے دور نہ ہوجائیں۔ جیسے جیسے رابعہ بصری کی شہرت بڑھتی گئی،آپ کے معتقدین کی تعدادمیں بھی اضافہ ہوتا گیا۔ آپ نے اپنے وقت کے جید علما ومحدثین اور فقہا سے مباحثوں میں حصہ لیا۔ رابعہ بصری کی بارگاہ میں بڑے بڑے علما نیازمندی کے ساتھ حاضر ہواکرتے تھے۔ ان بزرگوں اور علما میں سرفہرست حضرت امام [[سفیان ثوری]] {{رح مذ}} ہیں، جو [[امام اعظم]] [[امام ابو حنیفہ|ابوحنیفہ]] رضی اللہ تعالیٰ عنہٗ کے ہم عصر تھے اورجنہیں ’امیرالمومنین فی الحدیث‘ کے لقب سے بھی یادکیا جاتا ہے۔
گو رابعہ بصری کو شادی کے لیے کئی پیغامات آئے،جن میں سے ایک پیغام امیرِ بصرہ کا بھی تھا لیکن آپ نے تمام پیغامات کو رد کر دیا، کیونکہ آپ کے پاس سوائے اپنے پروردگار کے اورکسی چیزکے لیے وقت تھا اور نہ طلب۔ رابعہ بصری کوکثرتِ رنج و الم اورحزن و ملال نے دنیا اور اس کی دلفریبیوں سے بیگانہ کر دیا تھا۔ رابعہ بصری کے مسلک کی بنیاد”'''عشقِ الٰہی''' “ پر ہے۔