"سقوطِ خلافت" کے نسخوں کے درمیان فرق
حذف شدہ مندرجات اضافہ شدہ مندرجات
م خودکار: خودکار درستی املا ← ان کے |
2 مآخذ کو بحال کرکے 0 پر مردہ ربط کا ٹیگ لگایا گیا) #IABot (v2.0.8 |
||
سطر 18:
دردمند اصحابِ علم و فضل نے انگریزوں کی اس سازش کے خلاف اقدام کیا۔ انہوں نے ساری دنیا میں خلافت کے حوالے سے مسلمانوں کو بیدار کرنے کی کوشش کی۔ بدقسمتی سے ایک تو مسلمانوں کی بے حسی اور دوسرے مسلمانوں میں ہی ایک ایسے گروہ، جس کو یورپ اعلیٰ مراعات کے عوض خرید چکا تھا، کی موجودگی کی وجہ سے یہ تحریک عالمی صورت اختیار نہ کرسکی اور نتیجتاً خلافت کی بازیافت بھی نہ ہو سکی۔
[[برصغیر]] [[بھارت|ہند]] و [[پاکستان|پاک]] میں [[شیخ الہند]] [[مولانا محمودالحسن دیوبندی]]، [[مولانا محمد علی جوہر]]، [[مولانا عبداللہ سندھی]] وغیرہ حضرات نے [[تحریک خلافت]] چلائی۔ یہ ایک مستحسن کوشش تھی تاہم اس کا طریقہ کار، بعد کے مطالعہ کی روشنی میں، مربوط، منظم اور دینی مقتضیات سے پوری طرح ہم آہنگ نہ تھا۔<ref name="یومِ سقوطِ خلافت">
== موتمر اسلامیان [[تحریک خلافت|خلا فت کمیٹی]] ==
[[ترکی]] [[سلطنت عثمانیہ|خلیفہ]] کے ساتھی [[حسین ابن علی (شریف مکہ)|شریفِ مکہ]] کی شکست کے بعد۔ [[محمد بن عبدالوہاب]] کے پیروکاروں نے مقدس ہستیوں کی قبریں مسمار کر دیں تو عالم اسلام میں بیچینی اور بڑھی۔ [[مکہ]] اور [[مدینہ منورہ|مدینہ]] کے مقدس شہروں پر قبضے کے بعد ابن سعود نے خلیفہ بننے کی کوشش نہیں کی بلکہ حجاز کا انتظام سنبھالنے اور جدید دور کے مسائل کو حل کرنے کے لیے انہوں نے 13 تا 19 مئی 1926 کے درمیان ساری دنیا کے مسلمان رہنماﺅں پر مشتمل ایک موتمر اسلامی طلب کی جس میں تیرہ اسلامی ملکوں نے شرکت کی۔ موتمر میں اسلامیان ہند کے ایک وفد نے بھی شرکت کی جس کے سب سے ممتاز شخصیت [[مولانا محمد علی جوہر]] تھے۔ اگرچہ یہ موتمر اپنے مقصد میں کامیاب نہ ہو سکی لیکن اتحادِ اسلامی کی تحریک میں اس کو ایک سنگ میل کی حیثیت حاصل ہے۔ یہ مسلمانوں کا پہلا بین الاقوامی اجتماع تھا جسے ایک سربراہ مملکت نے طلب کیا تھا۔ بالآخر خلافت کمیٹی کا ایک وفد [[حجاز]] روانہ کیا گیا۔ وفد میں دیگر افراد کے علاوہ نامور صحافی [[ظفر علی خان]] بھی شامل تھے۔ جنہوں نے ارکانِ وفد کی مخالفت کے باوجود ابن سعود سے تنہائی میں ملاقات کی اور واپس آ کر خلافت وفد سے الگ رپورٹ پیش کی۔ اس رپورٹ کے دو جملے ملاحظہ ہوں۔ ’((خالص دینی زاویہ نگاہ سے عبد العزیز ابنِ سعود میرے نزدیک دنیائے اسلام کا بہترین فرد ہے۔۔۔ وہ ایک روشن ضمیر مدبر، الوالعزم جرنیل، خدا کا سپاہی، معاملہ فہم حکمران، پرجوش مذہبی مبلغ اور قوم کا سچا خادم ہے۔‘ )) اس رپورٹ کے بعد مسلمانانِ ہند میں پھوٹ پڑ گئی۔ خلافت کمیٹی اور مجلسِ احرار پنجاب کے راستے الگ ہو گئے۔ [[ظفر علی خان|مولانا ظفر علی خان]] نے نیلی پوش تنظیم بنا لی۔ مولانا داود غزنوی کے خانوادے کی آلِ سعود سے یاد اللہ کے ڈانڈے بھی اسی مناقشے سے ملتے ہیں۔ ابن سعود کی کھلی حمایت پر مورخ [[رئیس احمد جعفری]] کے مطابق، [[ظفر علی خان]] کو بھاری معاوضہ ملا۔ اسی رقم کی تقسیم پر جھگڑے میں مولانا [[غلام رسول مہر]] اور [[عبدالمجید سالک]] نے روزنامہ زمیندار سے الگ ہوکر سنہ [[1927ء]] میں ’روزنامہ انقلاب‘ نکالا تھا۔ مملکت سعودیہ کے قیام میں سیاسی سرپرستی برطانیہ بہادر کی تھی۔ سنہ 1948ء میں [[سعودی عرب]] جہاں سے الگ ایک جزیرہ نما تھا۔ [[سعودی عرب]] کی مسکین اور پسماندہ حکومت کی آمدنی کا بنیادی ذریعہ یہی حج ٹیکس تھا۔ پچاس کی دہائی میں تیل کی آمدنی شروع ہوئی تو حج ٹیکس بھی ختم ہوا۔ عرب کے صحراؤں میں تیل نکلنے سے دولت کا چشمہ پھوٹ پڑا۔ اور ہمارے پا کستانی میٹرک فیل ہزاروں کی تعداد میں کام آئے۔ پیسہ وافر، سیاسی حقوق زیرو، قانون نامعلوم۔ [[سعودی عرب]] میں پاکستانی مزدوروں کی آمد کے ساتھ ہی [[پاکستان]] میں [[سعودی عرب]] کی کھلی مداخلت بھی شروع ہوئی۔ شاہ فیصل کی سیاسی بصیرت کا تقاضا تھا کہ [[پاکستان]] سے آنے والے ہزاروں نیم تعلیم یافتہ مزدوروں کو درہم و دینار کے علاوہ وہابی نظامِ کی افیون مفت بانٹی جائے۔<ref>
چونکہ انہدام جنت البقیع میں محمد بن عبد الوہاب اور اہل سعود نے دین اسلام کو جواز بنا یا اور اسلامی تعلیمات کے زیر اثر یہ کام سر انجام دیا۔ مگر اس کے برعکس خانہ خدا اور روزہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم پر اپنا قبضہ مضبوط کرنے کے بعد انہوں نے نظام خلافت کی بجائے بادشاہت کو اپنایا؟ یہاں دین کا جزبہ کیوں سرد پڑھ گیا؟ حالانکہ مو تمر عالم اسلامی کے قیام کے بعد اسلامی ممالک کامشورہ بھی یہی تھا کہ خانہ خدا پر اسلامی طرزحکومت ہو۔ اور اس کا نظام کسی بادشاہ کے ما تحت نہ ہو۔ مجلس شوراءخلیفہ کا انتخاب کریں۔ مگر حکومت سعودیہ نے یہ تجویز رد کر دی۔
|